"ABA" (space) message & send to 7575

ڈس انفو لیب اور مودی کا ایجنڈا…(آخری حصہ)

نریندر مودی اور ماڈی شرما میں قربت کی وجوہات کی طرف بھی چلتے ہیں‘لیکن ان دونوں کی اس قربت میں پاکستان کے امریکہ میں ایک سابق سفیر کا کردار دیکھنا بھی ضروری ہے ۔
ای یو ڈس انفو لیب نے ان کریکٹرز پر سے پردہ اُٹھا دیا ہے جو بہت منظم طریقے سے پچھلے15سال سے مودی کا ڈس انفارمیشن ایجنڈا پاکستان اور چین کے خلاف آگے بڑھانے میں ملوث نکلے ہیں۔اگر آپ مودی-ماڈی کنکشن کا طریقۂ واردات ذرا غور سے دیکھیں تو آپ یہاں انفارمیشن انڈسٹری اور سول سوسائٹی کے نام پر بنی این جی اوز میں یہی چلتے پھرتے کردار پہچان سکتے ہیں۔بس ذرا دھیان سے اس ڈس انفارمیشن کمپین کے لنک نوٹ کرتے جائیے جن کے تحت ایک فیک این جی اوایجنڈا آئٹم احتجاج سپانسر کرتی تھی پھر ایک فیک میڈیا آئوٹ لیٹ اس احتجاج کو کور کرتا تھاجس کے بعد اس احتجاج کی کمپین کو انڈین مین سٹریم میڈیا پسندیدہ غبارہ سمجھ کر اس میں ہوا بھرنا شروع کردیتا تھا۔ایک ایسا ہی کریکٹر جو اکثر اس ڈس انفارمیشن کا سورس کہا جاتا تھا ‘وہ ہے مسٹر حسین حقانی۔مسٹر ایچ ایچ کو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے عہدے پر بٹھایا گیا‘ اس نے سفیر کے طور پر اپنی مدت ملازمت کے دوران 2008ء میں اپنے ہی وطن کے خلاف سازش کی۔ آپ اس کردار کو خوب جانتے ہیں جو Memogate Scandalکی مرکزی شخصیت تھا۔ بعد ازاں اسے پاکستانی جوڈیشل کمیشن نے Guilty قرار دیا۔ اس جوڈیشل کمیشن نے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ سفیر اپنی ملازمت کے دور میں اپنے ہی ملک سے وفادار نہیں تھا۔ اُس وقت سے آج تک وہ امریکہ اور مغربی ملکوں میں تقریریں اور دورے کرتا ہے۔اس کی تقریروں اور گفتگوئوں کو مسلسل مشکوک میڈیا آئوٹ لیٹس پروموٹ کرتے ہیں اور پھر ایسی خبروں کو بھارت اور پاکستان میں اُچھالنے کیلئے فیک نیوز سنڈیکیٹ کے سلیپنگ سیلز حرکت میں آجاتے ہیں۔اسی کے نام پر کچھ متنازع کتابیں بھی پبلش کی گئیں۔ اس کردار کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے ہر انٹرویو میں اپنے ملک اور اس کے اہم ترین اداروں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پاس کرتاہے۔
ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ میں اس سابق پاکستانی سفیر نے بالکل ایسا ہی ایک انٹرویو ٹائمز آف جنیوا کو بھی دیا تھاجو شری واستو گروپ سے جڑا ہوا ایک اور جعلی میڈیا آئوٹ لیٹ ہے۔ ای یو ڈس انفو لیب نے اس گلوبل ڈس انفارمیشن کمپین کو بے نقاب کرنے کیلئے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ یہ انٹرویو انڈین مین سٹریم میڈیابزنس سٹینڈرڈ اور Outlook میڈیا نے بار بار دہرایا اور پیش کیا ہے۔اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سابق سفیر کا تعلق نریندر مودی اور ماڈی شرما برانڈ جعلی انڈین انفو نیٹ ورکس‘جعلی این جی اوز اور فیک نیوز میڈیا آئوٹ لیٹس سے بہت گہرا ہے‘جو اس کی فیک نیوز انفارمیشن کمپین سے پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کو مجروح کرنے کا کام لیتے ہیں۔اس سفیر کے پاس کردہ سوچے سمجھے زہریلے ریمارکس ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیق کے مطابق مودی کے مجموعی آپریشن کا حصہ ہیں۔آپ اسے عالمی جاہلوں کا ایک ایسا گروپ بھی کہہ سکتے ہیں جو فیک نیوز کا ڈرٹی بزنس چلاتا رہا‘ مگر اب اس کے پاس چھپنے کیلئے کوئی ٹھکانا نہیں بچا ۔ 
بھارت کے تشدد پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلق دار ماڈی شرما انڈین نژاد برطانوی شہری ہے جس کو فیک نیوز خدمات کے صلے میں یورپی یونین کے بہت اہم ادارے ای ای ایس سی کا ممبر بنوایا گیا۔ مودی حکومت نے بھارت میں ماڈی شرما کو بین الا قوامی سپیکر ‘رائٹر‘کنسلٹنٹ ‘بزنس بروکر‘ ٹرینر‘ انٹرنیشنل ادارے کی سربراہ اور نسوانیت کے موضوع کی ماہر کے طور پر مشہور کروایا‘ لیکن تازہ تحقیق میں پتہ چلا کہ اس نے خود اپنے تعارف میں اپنے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی کہ''میرے پاس کوئی تعلیم نہیں‘کوئی صلاحیت نہیں اور کوئی تربیت بھی نہیں‘‘۔
بی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مودی کے انڈیا میں ہندو قوم پرستی کا جوش عام شہریوں کو جعلی خبریں پھیلانے کی تحریک دیتا ہے۔فیک نیوز اور جعلی خبروں کو پھیلانے کے پیچھے بھارت میں یہ وجوہات ہیں۔ اس سے پتہ چلا ہے کہ بہت سے لوگوں میں سچی خبر کی اہمیت سے بھی کافی زیادہ اپنی قومی شناخت کو اُجاگر کرنے کی جذباتی خواہش جوش مارتی نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پہ جو تحقیق ہوئی‘ اس سے تین سچ کھل کر سامنے آئے۔
پہلا سچ یہ کھلا کہ سوشل میڈیا پر کیا جانے والا تجزیہ بتاتا ہے کہ دائیں بازو کے نیٹ ورک‘ بائیں بازو نیٹ ورکس سے کہیں زیادہ منظم ہیں اور یہی رائٹ وِنگ قوم پرست سائٹس جعلی خبریں پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہیں۔
دوسرا سچ نریندر مودی کے پرسنل ایجنڈا کو کھولتا ہے ۔تحقیق نے بتایا کہ ٹوئٹر پر انڈیا کے وزیر اعظم کی پشت پناہی کرنے والے نیٹ ورکس فیک نیوز کی دنیا پر جعلی خبروں کے ذریعے 24/7 چھائے رہتے ہیں۔
تیسرا سچ یہ سامنے آیا کہ بھارت کی میڈیا انڈسٹری فیک نیوز کی تلوار سے کُھلے عام‘ بغیر کسی خوف کے سچ اور حقیقت کا قتلِ عام کرنے میں پہلے نمبر پر ہے۔یہ تحقیق ایک انٹرنیشنل کمپین ''#BeyondFakeNews‘‘ یعنی ''جعلی خبروں سے ماورا‘‘ کے ذریعے ممکن ہوئی ۔اس تحقیق کو تقابلی طور پر حقیقت پر مبنی بنانے کیلئے بیک وقت انڈیا‘ کینیا اور نائیجیریا میں کام کیا گیا ۔
چوتھا سچ: یہ سامنے آیا کہ ان دنوں بھارت کے لوگ ایسے پیغامات کو شیئر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے جو اِن کے مطابق تشدد پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔قوم پرستی کا نعرہ مارنے والے یہ لوگ انڈیا کی ترقی‘ ہندو قوت اور ہندو وقار کی بحالی کے بارے میں فیک نیوز پر مبنی پیغامات بہت بڑے پیمانے پر سچ کی جانچ پڑتال کئے بغیر آگے بھیج دیتے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ2018ء میں ڈیجیٹل انفارمیشن کی دنیا میں آنے والے انفو سیلاب نے بھارت میں فیک نیوز کیلئے میدان ہموار کر دیا ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے ادارتی صفحے پر بھی سوشل میڈیاپر لنگڑاتا ہوا سچ اور دوڑتا ہوا جھوٹ جیسے موضوعات اب دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
بلجیم کے دارالحکومت برسلز سے کام کرنے والے ادارے ای یو ڈس انفو لیب سے جاری ہونے والی تحقیق کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ فیک نیوز نیٹ ورک انڈین مفادات کے فروخت کیلئے جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق اور برسلز میں یورپی پارلیمان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔2019ء میں بھارت نے پاکستان میں سکیورٹی اداروں اور خانہ جنگی کے عنوان سے کھلم کھلا دو ڈس انفارمیشن اوپن میڈیامہم چلائی گئیں ۔ پاکستان مخالف جھوٹی خانہ جنگی پر تحقیقی رپورٹ نے بتایاکہ وہ یقینی طور پر یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ انڈین کرانیکلز کے چلانے والوں میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے لیکن رپورٹ جاری کرنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں مزید تحقیق اور تفتیش ضرور ہونی چاہئے۔اپنے ہاں فیک نیوز اور وطن دشمن ایجنڈا پر کام کرنے والے قانون حرکت میں آتا دیکھیں تو فوراً شری واستو ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہیں۔ دیکھئے جی!پاکستان میں غدار بنانے کی فیکٹری لگ گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی سب فیکٹریاں فیک نیوز اور مودی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ہی لگتی ہیں۔ 
زباں چلنے لگی لب کشائی کرنے لگے 
نصیب بگڑا تو گونگے بُرائی کرنے لگے
ہمارے قد کے برابر نہ آسکے جو لوگ 
ہمارے پائوں کے نیچے کھدائی کرنے لگے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں