"ABA" (space) message & send to 7575

کوئی روحِ تہذیبِ حاضر سے کہہ دے

وہ میرے والد صاحب کے دوست ہیں‘ جو اُنہیں وڈے ملک صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ملک عرفان صاحب بڑے محکمے کے بڑے افسر ہیں۔ ساتھ ساتھ ضربِ قلندر کے مصنف‘ خالد مسعود فوزی کی شاگردی پر فخر کرنے والے ایک بامراد شاگرد بھی ہیں۔ ایسے شاگرد جو ملک عرفان کی طرح صاحبِ عرفان ہوتے ہیں۔ بامراد بھی ہیں‘ انہوں نے اپنے استاد کے کلام کو مرتب اور شائع کرواکر حقِ شاگردی ادا کیا۔
14نومبر 1975ء کو جناب رئیس امروہوی نے خالد مسعود فوزی ہاشمی کی شاعری پر جو لکھا وہ پڑھنے کے قابل ہے‘ لیکن شاعر کا سب سے اچھا تعارف اس کے کہے ہوئے شعر ہوتے ہیں۔ اس لیے آئیے فوزی صاحب کا ایک قطعہ پہلے پڑھ لیں‘ جسے انہوں نے حضورِ حق کا عنوان دیا:
میں نے اِک بحرِ نُور دیکھا ہے 
اِک جہانِ سرور دیکھا ہے
سرمدیّت کے چلمنوں سے تجھے 
ماورائے شعور دیکھا ہے 
پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد صاحب نے جناب خالد مسعود فوزی کے مجموعۂ کلام ''ضربِ قلندر‘‘ پر ایک نظر اور دوست علی ملک آف کوری شریف نے کتاب اور صاحبِ کتاب کا تعارف لکھا۔ ''ضربِ قلندر‘‘ مجموعہ کلام تھری ان ون ہے۔ فوزی صاحب نے فارسی اور پنجابی کلام کو کتاب کے آخری حصے میں درج کیا ہے‘ جبکہ پہلے حصے میں نہایت خوبصورتی سے اردو کلام کو جگہ دی ہے۔ رئیس امروہوی‘ مستند ادبی شخصیت اور اُردو دان تھے۔ فوزی ہاشمی صاحب اور ان کے کلام نے جناب رئیس امروہوی کو کس طرح متاثر کیا‘ آئیے اس تاثیر کو اُن کے الفاظ میں محسوس کرتے ہیں۔ رئیس امروہوی لکھتے ہیں ''خالد مسعود فوزی ہاشمی صاحبِ تفکر شاعر ہیں اور ان کے افکار پر فکرِ اقبال کا سایہ پوری تابانی سے جلوہ گر ہے۔ ایک طرح ان کا کلام‘ کلامِ اقبال کا شارح ہے۔ میں نے ان کے اشعار کا مطالعہ فنّی نقطہ نظر سے کیا اور اپنے مشورے کو صرف بندشِ الفاظ و تراکیب تک محدود رکھا۔ میرا منصب اور فریضہ یہی تھا۔ جہاں تک مضامین و معانی کا تعلق ہے تو وہ ان کے اپنے ہیں۔ قرآنِ مجید کے ارشادات پران کی گہری نظر ہے۔ خالد مسعود کا تعلق شعر کے اس مکتبِ فکر سے ہے جس کی بنیاد حالیؔ نے ڈالی تھی اور شبلی‘ اکبر‘ ظفر علی خان اور اقبال نے جسے پروان چڑھادیا تھا۔ درحقیقت ہم ان کی شاعری کو ''اسلامی شاعری‘‘ کہہ سکتے ہیں اور یہ سعادت کچھ کم نہیں‘‘۔
نبیِ برحق حضرت محمد ﷺ کی اطاعت میں سرمست قطعہ ‘ خالد مسعود فوزی نے حضورِ رسالت مآبؐ کے عنوان سے یوں پیش کیا۔
مرے فکر و ذکر کی جستجو کے طریق نذرِ جنوں رہے
مرے عقل و ہوش کی وادیوں کے نشاں رہنِ زبوں رہے 
تری چشمِ مست کے سامنے کیا اعترافِ عبودیّت
مری تلخیوں میں طمانیت کے نقوش‘ وجہِ سکوں رہے
حضرت علامہ اقبال کے فلسفے میں رنگے ہوئے شعر ثابت کرتے ہیں کہ خالد مسعود فوزی اقبالیات کی راہ کے مسافر ہیں۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کے تخلیقی عنوان بھی اقبال کے رنگ میں ملتے ہیں‘ مثلاً افکار‘ سروشانہ‘ نوائے مومن‘ مقامِ حیات اور ساقیا ساقیا۔ خالد مسعود فوزی کی کتاب کا عنوان بھی اقبال کی ضربِ کلیم سے متاثر ہو کر ''ضربِ قلندر‘‘ رکھا جانا ثابت کرتا ہے کہ وہ اقبالی طرزِ فکر کے شاعر ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں: 
مسلماں گم جہانِ رنگ و بُو میں
یہی سرگوشیاں ہیں چار سُو میں 
وہی راز اس کی فطرت میں ہے مخفی
جو مضمر ہے ستارو ں کی نمو میں
اسی طرح کی فکر پر مبنی ایک قطعہ اور بھی ملت کے نام کیا گیا‘ جس میں دو پیغام کھل کر ملتے ہیں۔پہلا پیغام تہذیبوں کے تصادم کو مخاطب کرکے اسے چیلنج کرنے کا ہے جبکہ دوسرا پیغام عالمِ انسان کیلئے ایک نئے آئین کو پیش کرنے کا ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن سے لیا گیا‘ جو یوں ہے:
کوئی روحِ تہذیبِ حاضر سے کہہ دے
کہ قرآنِ محکم ہے آئینِ ہستی 
دلِ مضطرب کو پیامِ سکوں ہے
یہ شمع فروزاں ہے تزئینِ ہستی 
فارسی کلام میں بھی خالد مسعود فوزی فارسی کے بڑے استاد شاعروں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ جوشِ جنوں‘ سوزِ دروں‘ چاکِ گریبانی‘ رفوگری کو انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے کلام میں یوں پرو کر رکھ دیا۔
گر سوزِ دروں داری گر جوشِ جنوں یابی
شاید کہ رفو باشد صد چاکِ گریبانم
پیوستہ کند فوزی ؔبا نخلِ گلستانے
گلہائے شکستہ را یک قطرئہ بارانم
''ضربِ قلندر‘‘ کی شاعری میں بلند انسانی رشتوں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔جسے عام طور پر شاعر لفٹ نہیں کراتے ۔ ماں‘ بیٹی ‘ دوست اوربیٹا‘ فوزی کے ہاں بہت اہم نظر آتے ہیں۔والدہ کی وفات پر لکھا :
وہ جس کی گود میں بیٹوں کا غم ہی پلتا تھا 
وہ جس کے قلب میں رہتی تھی التجا و دعا 
ترے حضور‘ بہ نفسِ نفیس حاضر ہے 
امید ورِ کرم ‘ بن کے میرے ربِّ عُلا 
بیٹیوں کے باب میں لکھتے ہوئے خالد مسعود فوزی نے ''اے میری بیٹی‘‘ کا عنوان چُن کر ثابت کیا کہ بیٹی کا رشتہ ان کی روح میں اُترا ہوا ہے‘صرف شاعری میں نہیں۔ بیٹی کے رشتے کو فوزی نے جو خراجِ تحسین پیش کیا ‘اُس کی دل میں اتر جانے والی ایک تخلیق پیشِ خدمت ہے۔
سعدیہ! نقشِ سعادت‘ پیکرِ ذیشان ہے
تو ضمیرِ کن فکاں کی قوّتِ وجدان ہے
عکسِ تقدیسِ صبوحی‘ کیف زائی ہے تری 
مہرِ تابانِ سحر کا حسن بھی حیران ہے 
دل کے جذبوں سے حیاتِ جاوداں تعمیر کی 
داستانِ زندگی پہ یہ ترا احسان ہے 
ساقی کے عنوان سے خالد مسعود فوزی نے کمال کے شعر کہے ہیں۔ان شعروں پر بھی رنگِ اقبال غالب ہے ‘مگر فوزی کی انفرادیت کے ساتھ اس رنگِ خیال کا بہترین نمونہ ‘کچھ شعر یہاں پیش ہیں۔
جہانِ رنگ و بُو میں آج وہ مے خوار اچھے ہیں
کہ جن کے پاس اپنا میکدہ و جام ہے ساقی 
نگاہیں چیر سکتی ہیں طلسمِ عصرِ حاضر کو 
مگر تیری نگاہوں میں سکوتِ شام ہے ساقی 
خالد مسعود فوزی نے سخنوری کے بہترین نمونے کو'' ضربِ قلندر‘‘ کہا‘ جس میں ثلاثی ‘ مثنوی سمیت ہر صنف ِسخن کو شامل کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ چھوٹی سی کتاب کے کوزے میں سارے شاعرانہ سمندر بند کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہو۔ افضل پور ٹریننگ سکول کے نام سے فوزی نے کشمیر کی جنت نظیر وادی کانقشہ بھی کھینچا ۔
السلامِ اے وادیِ کشمیر کے عالی مقام 
تیرا ہر ذرّہ ہے بے شک قابلِ صد احترام 
السلام اے تربیت گاہِ فضائے پُر بہار
السلام اے دلرُبا اونچے پہاڑوں کی قطار

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں