"ABA" (space) message & send to 7575

ترنگا نہیں بسنتی

تقسیم ایک طرح کی نہیں ‘صرف مذہبی نفرت اور تشدد پر مبنی نہیں ‘بلکہ اب تو مودی کی اُگائی ہوئی نفرتوں کی فصل بھارت کی ہندوتوا جمہوریت کے سر سے بھی اونچی ہو رہی ہے۔کاش ہمارے ہاں میڈیا کا کچھ وقت بھارت کی ان اندرونی دراڑوں کی نشان دہی کرنے اور نسلی تضادات دکھانے کے لیے وقف ہوجائے۔یہ کسی ایک پاکستانی کی خواہش نہیں بلکہ زندہ قوم کی حیثیت سے یہ ایک طرح سے قومی رسپانس ہے‘جس کی فوری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ اور سمجھ میں آنے والی ہے۔ یہی کہ ارنب گوسوامی سکول آف تھاٹ کے سارے بھارتی میڈیا ہائوسز پاکستان کے بارے میں جس طرح کی خبریں پہلے سوچتے اور پھر گھڑ کر اُن کو نشر بھی کردیتے ہیں ایسی من گھڑت اور پیڈ پراپیگنڈا والی خبروں سے ہزار گنا زیادہ سنسنی خیز خبریں مودی کے بھارت میں ہر وقت سچے واقعات کی صورت میں دیوار پر لکھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ایسی ہی تہلکہ خیز خبروں میں سے ایک تازہ ترین خبر دہلی کے لال قلعے پر لہرانے والا بھارت کا ترنگا جھنڈا اُتار کر اس کی جگہ سکھوں کا بسنتی رنگ کا قومی پرچم لہرائے جانے کا حیران کن واقعہ ہے۔
سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے شوقین بھارت کے قومی پرچم کے درمیان نیلے رنگ کا اشوک چکر ہے۔ یہ ہندو نیشنل ازم کی نشانی ہے۔اس پرچم کو ڈومینین بھارت کے اجلاس میں مورخہ 22 جولائی 1947ء کو قومی پرچم کے طور پر اپنایا گیا تھا۔ ترنگا‘ ہندی زبان کا لفظ ہے جبکہ ہندو بھارت کا یہ پرچم سوراج کے جھنڈے کی کاپی لگتا ہے۔اس سے پہلے سوراج کا جھنڈا انڈین نیشنل کانگرس کا نشان تھا ‘جس کو پینگالی ونکایا نے ڈیزائن کیا تھا۔
جو جھنڈا دہلی کے لال قلعے پر کسان تحریک مورچہ کے ورکرز نے 26جنوری 2021ء کو ترنگا نیچے پھینک کر لہرایا وہ خالصہ تہذیب میں بسنتی نشان صاحب کہلاتا ہے۔یہ تکونی جھنڈا ہے اور اس نشان صاحب کے تین کونوں کے درمیان میں چوڑی جگہ پردو کرپانیں دکھائی گئی ہیں۔ان میں سے دائیں طرف والی کرپان کو سکھوں کی سیاسی قوت کی علامت کا نشان سمجھا جاتا ہے جس کو گورمکھی زبان میں ''مِیری ‘‘ کہتے ہیں۔بائیں جانب والی کرپان کو سکھ مذہب کی روحانی بلندی اور عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے‘جس کو گورمکھی زبان میں'' پِیری‘‘کہتے ہیں۔ نشان صاحب کے آخر میں ایک جھالر ہوتی ہے ۔یہ نشان صاحب سکھ گردواروں کے باہر ایک بہت اونچے فلیگ پول پر لہرایا جاتا ہے۔فلیگ پول بھی کپڑے سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے‘ جس پر سب سے اوپر ایک دو دھاری خنجر بنا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں سکھ سلطنت کا نشان صاحب والا جھنڈا تقریباً ایسا ہی تھا جس کو سب سے زیادہ عروج مہارا جہ رنجیت سنگھ کے دور میں ملا۔ایک اور دلچسپ بات یہ کہ بیساکھی کے تہوار پر نشان صاحب کو دودھ سے دھویا جاتا ہے۔دوسری جانب دہلی کا لال قلعہ جسے1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرنگی سپاہیوں نے 80فیصد گرا دیا تھا‘اس کا 20فیصد حصہ آج بھی مسلم بادشاہوں کے جا ہ و جلال کی نشانی کے طور پر موجود ہے۔کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ قلعہ 400سال پرانا ہے‘ جبکہ کچھ دوسرے تاریخ دانوں کے خیال میں یہ قلعہ1290 تا 1330عیسوی کے دوران بھی پایا جاتا تھا۔ انگریزی قبضے کے بعد اسے ریڈ فورٹ کہا گیامگر اس سے پہلے لال قلعہ کے مشہور ناموں میں سے قلعہ مبارک ‘قلعہ شاہ جہاں آباداورقلعہ معلی ہوا کرتے تھے۔اسی قلعے سے ایرانی حملہ آور نادر شاہ نے تختِ طائوس اور کوہِ نور ہیر ا لوٹ لیا تھا۔سال 1739 عیسوی میں اس قلعے کو حملہ آوروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور برباد کیا۔
لال قلعے پر سکھوں کے بسنتی پرچم نشان صاحب لگائے جانے اور ہندوتوا کی نشانی ترنگا گرائے جانے کا ایک تاریخی پس منظر اور اہمیت اور بھی ہے وہ یہ کہ دہلی کا لا ل قلعہ علامتی طور پر جس کسی کے قبضے میں ہو اس کی برتری تاریخی طور پر ہمیشہ سے مانی گئی ہے۔کسانوں کی تحریک کو ڈی ریل کرنے کے لیے سینٹرل پولیس اور دہلی پولیس کے اینٹی فسادات جتھے کسان مورچہ پر پوری تیاری سے حملہ آور ہوئے۔اپنے ہاں سوائے ماڈل ٹائون 1اور ماڈل ٹائون2کے پولیس کے ان مظالم اور Use of Excessive Force کا سوچا بھی نہیں جاسکتا جو اَب بھارتی پولیس کی روزانہ کی روٹین بن چکی ہے ۔خاص طور پر مودی راج میں۔ دہلی کے لال قلعے میں پولیس مقابلے کی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیںجن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی نے کسانوں کو بحیثیت قوم ‘انڈین مسلمانوں کی طرح دبائو میں لانے کے لیے سٹریٹیجک ایکشن پلان بنا لیا ہے۔جس کے تین عددخوفناک نتائج اب تک سامنے آچکے ہیں۔بھارتی حکومت کی تشدد پرست ذہنیت پر مبنی اس حکمت عملی کے نتیجے میں سامنے آنے والی ان وارداتوں کی تفصیل یوں ہے۔
مودی راج کی پہلی واردات: لال قلعہ پولیس تشدد کے بعد پنجاب ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے جو حقائق جاری کئے ان کے مطابق احتجاجی پریڈ میں سے اب تک 100سے زائد کسان گمشدہ افراد میں شامل ہوچکے ہیں‘جن میں سے زیادہ تر کسانوں کا تعلق نہال سنگھ گائوں سے ہے۔پولیس ان کسانوں کا اتا پتا بتانے سے انکاری ہے اور ابھی تک صرف 18کسانوں کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی ہے جن کے خلاف الزامات یا ان کی گرفتاری کی جگہ کے بارے میں پولیس کچھ نہیں بتا رہی اور نہ ہی ان کی صحت اور سلامتی کی کوئی تفصیل سامنے آئی۔
مودی راج کی دوسری واردات :یہ واردات پہلی سے بھی زیادہ خوفناک ہے کیونکہ اس مسلسل بے رحمانہ واردات کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 150کے قریب پہنچ چکی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھی حکومت کو کسانوں سے بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔اس کے باوجود مودی حکومت پنجابی کسانوں پر دہلی کے ہندو بنیے کا قبضہ کروانے کے لیے سارے ماورائے قانون اور غیر انسا نی طریقے استعمال کر رہی ہے۔
مودی راج کی تیسری واردات: مودی راج کی تیسری واردات اُلٹی بھارت کے مستقبل کے گلے میں پڑ گئی ہے۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی خالصتان تحریک‘ جو پہلے صرف گرنتھی سکھوں کی تحریک سمجھی جاتی تھی اب اُس میں ہندو‘ مسلم کسان اور سکھوں کے سارے مِثل اور مونے سکھ بھی شامل ہوگئے ہیں۔اُن کے دو نعرے مودی راج کے اعصاب پر چھائے ہوئے ہیں۔ان میں سے پہلا نعرہ ہے ‘ ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور دوسرا نعرہ ہے'' پنجاب بنے گا خالصتان‘‘۔ان دنوں سکھ اور مسلم فنکار لال قلعے والے واقعے پر مختلف میوزک ویڈیوز بھی جاری کر چکے ہیں جو سوشل میڈیا پر ساری دنیا میں وائرل ہو رہی ہیں۔
ظاہری طور پر دیکھا جائے تو یہ ایسا احتجاج ہے جس سے اس ہندو ریاست کو کوئی خطرہ درپیش نظر نہیں آتا‘ لیکن انڈو پاک بارڈر کے ذریعے زمینی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں صرف تحصیل اجنالہ سے ایک راستہ جاتا ہے۔یہ تحصیل پہلے پاکستان کے حصے میں آئی تھی جس کو ریڈ کلف کمیشن کے سربراہ نے بے ایمانی کرکے بھارت کے حوالے کر دیا ‘یہیں سے بھارت کو مقبوضہ علاقہ جموں و کشمیر تک رسائی ملی ۔اسی کے سامنے پاکستانی سائیڈ پر سکھ برادری کو کرتار پور راہداری ''لاہنگا‘‘ ملی ہے۔یہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کے ذریعے ملی ہے۔اس کے نتائج بھی واہگہ بار ڈر کی دوسری طرف اسی کسان تحریک کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکے ہیں۔اس کی سب سے بڑی علامت''وزیر اعظم پاکستان زندہ باد ‘‘اور'' مودی شودی ہائے ہائے ‘‘ کے نعرے ہیں‘ جو اینٹی مودی فورسز کے لیے بھارت کی سب سے بڑی سگنیچر ٹیون ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں