"ABA" (space) message & send to 7575

امریکہ میں الیکٹورل فراڈ …(1)

یو ایس اے کی تاریخ کا سب سے مختلف صدارتی اُمیدوار کون ہے؟ کیا اسی کی وجہ سے امریکہ میں جمہوریت ابھی کمزور ہے؟ وہ کہاں ہے، کون ہے، آیا کہاں سے اور کیا پھر آئے گا؟ کیا وہ امریکہ کا پہلا متنازع صدر تھا؟ پچھلے پانچ سالوں سے وہ ورلڈ سٹیج پر کیوں مشہور ہوا؟ اُس نے امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ، 7 کروڑ 42 لاکھ ووٹ کس طرح حاصل کر لئے؟ کیا وہ الیکشن ہار گیا؟ کیا الیکٹورل فراڈ کے ذریعے امریکی بیلٹ پر ڈاکا ڈالا گیا؟
یہ اور اس طرح کے بے شمار دوسرے سوال صرف اس کے حامیوں اور مخالفوں کے مابین ہی بحث کا موضوع نہیں بلکہ یہ جدید پالیٹکس اور آرٹ آف کَم بیک کے طالب علموں کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔ وہ الیکشن ہار کر بھی اس قدر طاقتور ہے کہ امریکن ڈیموکریٹس اُسے اگلے صدارتی الیکشن کی ریس سے باہر نکالنے کے غم میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ وہ الیکشن ہارا، وائٹ ہائوس سے نکلا، اس کے باوجود اس کے مخالف اس کی واپسی کے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہ خوف اندر خانے نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں امریکن سینیٹ میں دس سال سے برسر اقتدار لوگوں نے کُھل کر کہا کہ اگر اس کے خلاف فیصلہ نہ آیا تو وہ قصرِ سفید میں واپس آجائے گا۔ یو ایس اے کے موجودہ صدر جناب جوزف روبینیٹ بائیڈن نے اس کی دوسری بریت پر ری ایکشن کے طور پر جو بیان دیا، اس سے بھی صاف لگتا ہے کہ وہ کہیں نہیں گیا۔ صدر جوبائیڈن نے 14 فروری 2021 کو کہا، ''یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے، جو ہمیشہ یاددہانی کراتا ہے کہ جمہوری نظام اب بھی کمزور ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ تشدد اور انتہا پسندی کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری اور فریضہ ہے اور خاص طور قائدین کی کہ حق اور سچ کا دفاع کیا جائے اور جھوٹ کو شکست دی جائے‘‘۔
اگر ہم ریاستہائے متحدہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے سسٹم پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اُس پر پیچیدگیوں اور ایک کے بعد دوسری پابندیوں کا راج ہے۔ پچھلے 200 سال کی تاریخ میں امریکہ کے چار صدور کے الیکشنز سخت تنازعات کا شکار رہے: صدر Andrew Jackson، صدر Rutherford B. Hayes، صدر John F. Kennedy اور George W. Bush۔ کبھی ہائوس میں کبھی عدالت میں‘ لیکن ان کے الیکشن پر سوالات اُٹھتے رہے۔ امریکہ کے اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک تحقیقی مضمون ،''Democracy Dies in Darkness‘‘، میں تنازعات کے شکار امریکی الیکشنز کو ''بیلٹ باکس کی بدصورتی‘‘ کا نام دیا تھا۔
اس وقت جو کہانی امریکہ کی سیاست پر اور عالمی سطح پر چھائی ہوئی ہے آپ اسے سٹوری آف ٹرمپ کہہ سکتے ہیں۔ مسٹر ڈونلڈ جے ٹرمپ ایک اعتبار سے امریکہ کے پہلے صدر اور دوسرے حوالے سے یو ایس اے کے چوتھے صدر کہلاتے ہیں۔ پہلے صدر اس بیک گرائونڈ میں کہ ڈی جے ٹرمپ کے خلاف یو ایس اے سینیٹ میں دو مرتبہ صدارتی عہدے سے نااہلی کی کارروائی ہوئی‘ جسے امریکن آئینی سکیم میں پریزیڈنشل اِمپیچ منٹ کہتے ہیں۔ اس صدارتی مواخذے کا اختیار امریکہ کی کسی بھی عدالت کے پاس نہیں ہے‘ بلکہ اسے پارلیمنٹ کی سُپریمیسی قائم کرنے کیلئے امریکہ کے اَپر ہائوس تک محدود کردیا گیا ہے۔ پہلی بار ڈی جے ٹرمپ کو اس کارروائی کا سامنا 2019 میں دسمبر کے مہینے میں کرنا پڑا تھا‘ اور ایک فُل سپیکٹرم ٹرائل کے ذریعے جو ساری دنیا میں میڈیا پر براہ راست دکھایا گیا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوگئی اور وہ بَری ہوگئے۔ دوسری بار 2021 میں صدر ٹرمپ کے صدر ہائوس سے جانے کے بعد ان کی مخالف پارٹی کے اکثریت والے ایوان بالا میں ایک اور بڑا ٹرائل ہوا۔ اس ٹرائل کے دوران صدر ڈی جے ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے 7 سینیٹرز نے اُن کے خلاف ووٹ ڈالا جبکہ ڈیموکریٹس کے علاوہ 2 آزاد سینیٹرز بھی ان کے خلاف ہی گئے۔
صدر ٹرمپ جس دوسرے حوالے سے امریکہ کے چوتھے صدر ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ٹرمپ سے پہلے سال 1974 میں سابق امریکی صدر رچرڈ نِکسن کو سینیٹ میں مواخذے کے ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ ا، تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے کر اس ٹرائل سے جان چھڑا لی تھی۔ اس سے 106 سال پہلے 1868 عیسوی میں امریکہ کے صدر اینڈریو جانسن اور صدر ڈی جے ٹرمپ سے پہلے 1998 میں امریکی صدر بِل کلنٹن کے خلاف صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے کے لئے مواخذے کے کیس بنائے گئے۔
مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ سیاست کی تین سب سے بڑی بدقسمتیاں کیا ہیں؟ ٹرمپ سیاست کے چار بڑے حوالے کون سے ہیں؟ اس طرف جانے سے پہلے آپ یقینا جاننا چاہیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب ہیں کون؟ اور وہ سیاست میں کیسے آئے؟ ٹرمپ کو 13 سال کی عمر میں ان کے ابّا نے ملٹری سکول میں داخلہ دلا دیا تھا‘ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ بیس بال ٹیم کے کپتان بن گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی میں پہلا ایوارڈ ملٹری سکول نے اُنہیں دیا‘ جہاں وہ سب سے صاف ستھرے اور صفائی پسند طالب علم کا اعزاز (نِیٹ نَیس اینڈ آرڈر) حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سال 1964 میں ملٹری سکول سے فارغ ہوکر وہ پہلے فلم سکول کی گلی سے گزرے۔ فورڈہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے ہوتے ہوئے دو سال بعد ٹرمپ وارٹن بزنس سکول آف پینسلوینیا یونیورسٹی میں بزنس ایجوکیشن حاصل کرنے کے لئے جا پہنچے‘ جس کے تین سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا ایجوکیشنل کیریئر مکمل ہوا اور وہ نیویارک شہر میں مین ہیٹن جیسی ہائی فائی بزنس کمیونٹی میں داخل ہوگئے۔ کوئینز سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو ہائی رینکنگ بزنس کمیونٹی میں گھلنے ملنے میں مشکل پیش نہ آئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد مسٹرفریڈ ٹرمپ بھی ڈویلپر تھے، جن سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بڑی پیچیدہ ڈیل کے ذریعے 7 کروڑ ڈالر میں 42ویں سٹریٹ میں واقع کموڈور ہوٹل خرید لیا۔ پھر 1980 میں انہوں نے اسی جگہ دی گرینڈ حیات ہوٹل تعمیر کرنا شروع کیا۔ 1982 میں ٹرمپ ٹاور کی تعمیر شروع کی، جس کے دوران بے شمار قانونی جھگڑے پیدا ہوگئے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی نہ روک سکا اور وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ 28 منزلہ ٹاور تیار ہوا تو نیویارک کے میئر ایڈ کوچ، اس کے افتتاح میں پہنچ گئے۔ اس جشن میں میڈیسن ایوینیو پر 10ہزار غبارے چھوڑے گئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ آج تک اسی ٹرمپ ٹاور میں رہائش رکھتے ہیں، اور وہیں سے اپنی بزنس ایمپائر سمیت سارے کام بھی چلا رہے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 1987 میں اپنی پہلی کتاب شائع کی تھی جس کا نام ہے: ''The Art of the Deal‘‘۔ لکھنا پڑھنا اُن کا فُل ٹائم کام نہیں تھا۔ اس کے باوجود یہ کتاب نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں 48 ہفتوں تک شامل رہی۔ اِن میں سے 13 ہفتے کتاب پہلے نمبرپر تھی۔
جس طرح سے ڈیل کارنیگی نے کامیاب کاروباری زندگی اور شہرت کے گُر سکھانے کے لئے کتابیں لکھیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی کتاب بھی اُسی طرح سے بزنس کی ڈیلنگ ویلنگ کے موضوع پر ہے۔ 1990 کی دہائی میں ٹرمپ کو بڑے دھچکے لگے۔ ان میں سے پہلے جھٹکے میں ٹرمپ دوتہائی قرضوں کے سُود وقت پر ادا کرنے میں ناکام رہے۔ 1991 میں اٹلانٹک سٹی میں ٹرمپ کا تاج محل دیوالیہ ہوگیا۔ 1992 میں ٹرمپ ٹاور اسی رستے پر چل نکلا۔ ٹرمپ کو سب سے بڑا دھچکا بیوی کی بہت مہنگی طلاق سے لگا کیونکہ ٹرمپ کا ایک ذاتی سیکرٹ اُن کی بیوی کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں