"ABA" (space) message & send to 7575

بائیڈن :تین مسائل ‘چارسال

''جمہوریت خطرے میں ہے۔ملک انتہائی سنگین دور سے گزر رہا ہے۔قوم انتشار کا شکار ہے۔صرف بھائی چارے‘محبت‘خلوصِ نیت اور ہم آہنگی سے ہی ملک کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں‘‘۔یہ الفاظ کسی پاکستانی سیاست دان کے کہے ہوئے نہیں ہیں‘ یہ نو منتخب امریکی صدر جوزف رابینٹ بائیڈن جونیئر کے قوم سے پہلے خطاب کی جھلکیاں ہیں۔صدر ٹرمپ کی رخصتی اور الیکشن 2020ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے United Statesکو Divided Statesبنادیا تھا۔کورونا وائرس کے باعث ہونے والی لاکھوں اموات نے بائیڈن کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ایک طرف پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ہے تو دوسری جانب نفرت اور کدورت کی آگ ۔200سال پرانے گھر کے نئے مکین کو پہلے دن سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان میں سے تین مسائل ایسے ہیں جوصدر بائیڈن کے اگلے چار سال کی اولین ترجیحات میں شامل ہوں گے۔
(1) کورونا وائرس نے امریکہ میں قیامت برپا کردی ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں کُل دو کروڑ نوے لاکھ افراد اس خطرناک وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جن میں سے پانچ لاکھ سے زائد امریکی جان کی بازی ہار گئے۔ٹرمپ انتظامیہ وائرس کے وار کے سامنے بے بس نظر آئی اور مشہور سائنس دان ڈاکٹر اینتھونی فائو چی کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود جامع پالیسی بنانے میں ناکام رہی۔فیک نیوز نے صورتحال اور گمبھیرکردی۔Alt-rightخبر رساں اداروں ‘ جریدوں ‘ اخباروں اور ویب سائٹس نے کورونا وائرس کو فیک وائرس قرار دیا تو ٹرمپ کے وزرا نے نے اس جھوٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی سٹریٹیجی ترتیب نہ دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں آج بھی کئی لوگ کورونا وائرس کو ایک فراڈ سمجھتے ہیں اور ماسک پہننے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی ڈاکٹر فائوچی کو اپنا چیف میڈیکل ایڈوائزر نامزد کیا اور اُن کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد ایکسکلوسیوآرڈرز بھی جاری کئے۔ملک بھر میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے اور کئی ریاستوں میں لاک ڈائون بھی نافذ ہوگیا۔اس وقت بائیڈن کا سب سے بڑا امتحان نیو یارک ہے۔آبادی کے لحاظ سے امریکہ کی چوتھی بڑی ریاست ان دنوں کورونا کی غضب ناک لپیٹ میں ہے۔ریاست کے گورنر اینڈریو کومو نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے ہیں اور وفاق سے ریلیف کے طلب گار ہیں۔ بائیڈن کی وائرس سے مقابلے کی حکمتِ عملی ‘اُن کی حکومت کا سب سے بڑا ٹیسٹ ہوگااور اس ٹیسٹ کا نتیجہ دیکھنے کیلئے امریکی عوام بے تاب ہیں۔
(2)۔ امریکہ میں سیاہ و سفید فام کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔گورے پولیس افسران کے ہاتھوں نہتے سیاہ فام نوجوانوں کی ہلاکتوں نے پورے ملک میں غصے اور تشویش کی لہر کو جنم دیا ہے۔پولیس گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ‘عدلیہ کی جانب سے ذمہ دار افسران کو کلین چٹ دینے کی روایت نے بھی سیاہ فام برادری کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔25مئی 2020ء کو منیاپولس کے ایک جنرل سٹور کے باہر پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مظاہرین نے بوسٹن ‘شکاگو‘ فلاڈیلفیا ‘لاس اینجلس ‘ واشنگٹن اور نیو یارک سٹی جیسے بڑے شہر بند کردیے۔سینکڑوں دکانوں اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا گیا ۔امریکہ ایک بار پھر 1861ء کی خانہ جنگی جیسا منظر پیش کر رہا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے پولیس کی حمایت میں بیان جاری کیا تو حالات مزید بگڑ گئے۔افراتفری اور مظاہروں کے باعث 19افراد جاں بحق ہوئے جبکہ14ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین کی بہت بڑی تعداد صدارتی الیکشن میں بائیڈن کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئی۔ مظاہرین نے باقاعدہ طورپر اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے ہیں۔اُن کی امید ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پولیس میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ نسلی تعصب اور سفید فام نسل پرستی جیسے مہلک مرض کا بھی علاج کرے گی۔اُن کی یہ بھی ڈیمانڈ ہے کہ صدر بائیڈن کی ٹیم پولیس brutalityکی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون پاس کرے اور ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ بائیڈن نے ان مطالبات کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا اور جلسے جلوسوں کے دوران افریقن امریکی کمیونٹی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کی۔کیا بائیڈن نعرے اور بیانات سے آگے بڑھ کر کوئی ایکشن لے پائیں گے؟یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
(3) پچھلے 4 سالوں میں امریکی ساکھ کو عالمی سطح پر شدید نقصان پہنچا جس کے باعث بڑے گلوبل کھلاڑیوں نے امریکہ کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھنا بند کردیا۔ ٹرمپ نے پیرس موسمیاتی معاہدے سے امریکی لاتعلقی کا اظہار کیا تو یورپی ممالک حیران رہ گئے۔ ٹرمپ مختلف نیوز کانفرنسز میں نیٹو پر تنقیدی گولہ باری کرتے رہے‘ جس کے باعث نیٹو ممالک بھی امریکہ سے دور ہونے لگے۔ اوبامہ دور کی ایران نیوکلیئر ڈیل ایران امریکہ تعلقات میں اہم سنگِ میل سمجھی جاتی تھی۔ 2018ء میں ٹرمپ نے یہ ڈیل یکطرفہ طور پر ختم کردی۔ اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی۔ تقریباً ہر بڑے فورم پہ امریکہ تنہا دکھائی دیا۔ فرانس‘ جرمنی‘ میکسیکو اورکینیڈا جیسے دوست ممالک کے ساتھ بھی امریکہ کے حالات کشیدہ رہے۔ تجارت کی جنگ جیتنے کے شوق نے کئی پرانے ساتھیوں کو بھی ناراض کرڈالا۔ امریکہ‘ چین کے اُبھرتے ستارے کا بھی مقابلہ نہ کر سکابلکہ تقریباًہر معاشی شعبے میں اس سے شکست کھائی۔صدر شی جن پنگ کی کامیاب خارجہ پالیسی نے چین کو ایشیامیں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لاتعداد مواقع دیئے‘جس کا چین نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔دوسری جانب روس بھی امریکہ پر حاوی ہے۔ولادیمیر پیوٹن کی لیڈر شپ میں روس سینٹرل ایشیا اور یورپ میں ایک بار پھر مضبوط ہوگیا ہے۔اسی اثرو رسوخ کی بدولت ہی آرمینیا اور آذر بائیجان کی لڑائی میں روس نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔امریکہ دیکھتا رہ گیا۔
بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران اپنی خارجہ پالیسی واضح کردی تھی۔ وہ یورپی اور پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ معذرت خواہ بھی ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ بڑھتی قربت کی تنقید کی اور ایشیا میں ایک بار پھر سفارتی پیشقدمی کی امید کا اظہار بھی کیا۔ بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد فوراً ہی پیرس معاہدے کو بحال کردیا تھا۔دوست ممالک سے حالات ٹھیک کرنے کا ٹاسک بائیڈن نے نئے وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن کو سونپا ہے۔اس سے قبل بلنکن اوبامہ کی کابینہ میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ بلنکن کو خارجہ پالیسی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔وہ برسوں سے امریکی وزارتِ خارجہ میں کام کرتے آئے ہیں‘لیکن یہ ٹاسک بلنکن کیلئے آسان ثابت نہیں ہوگا۔
جو بائیڈن ایسے کراس روڈ پر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے جب دنیا بھر میں چین اور روس کے بڑھتے تجارتی اور معاشی تعلقات ‘ ایشیائی ممالک کا چین اور روس پر بڑھتا ہوا اعتماد اور انحصار اوربھارت کی لداخ میں چین کے ہاتھوں پسپائی نے دونوں ممالک کا سُپر پاور سٹیٹس یقینی بنا دیا ہے۔ورلڈ سٹیج پر جہاں پہلے امریکہ بہادر کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے'' واک اوور‘‘ مل جایا کرتا تھاوہاں اب ایک کے بجائے تین بڑی عالمی طاقتوں کی ٹرائی اینگولر موجودگی دیوار پر لکھی ہے ۔ اگر اس منظرنامے میں پاکستان کا سٹریٹجک کردار دیکھیں تو تین لحاظ سے یہ دس سال پہلے والا پاکستان نہیں رہا ۔اس حوالے سے پاک چائنا پارٹنرشپ والی سی پیک کا نمبر پہلا ہے جو پاکستان کے لیے مڈ ٹرم ترقی کے راستے کھول رہی ہے ۔دوسرے نمبر پر پاکستان کی معاشی بحالی ہے ‘جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان کیلئے ''ڈو -مور ‘‘ کی آوازوں کا آخر کارخاتمہ ہے۔اسی لئے یکسوئی کے ساتھ پاکستان نے ایران- افغان بارڈر کی فینسنگ اور بارڈر ٹریڈ پر پہلی بار کنٹرول حاصل کرلیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں