"ABA" (space) message & send to 7575

پارلے مان… (آخری حصہ)

آرٹ آف گورننس‘ گڈ گورننس یا پھر راج نیتی کی دنیا کا صرف ایک ہی اصول طے شدہ ہے‘ باقی سب زمینی حقیقتیں ارد گرد کے حالات‘ بے رحم حادثات اور اچانک واقعات کے حوالے ہیں۔ راج نیتی کی تاریخ کا طے شدہ اصول یہ ہے کہ بروقت دانش پر مبنی فیصلے کرنے اور بہادری سے قوم کو لیڈ کرنے والے رہنما ملکوں کو سربلندی کی طرف لے جاتے ہیں‘ اس کے علاوہ باقی سب کچھ 'سٹیٹس کو‘ ہے‘ جس کا آسان مطلب ڈنگ ٹپائو ویژن اور مٹی پائو پالیسی لیا جاتا ہے۔
یہ تناظر سامنے رکھ کر بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کے تخلیق کردہ پاکستان میں 10 سے لے کر 15اگست 1947ء تک کے پانچ دن بانیٔ پاکستان کے ویژن کی پانچ بڑی گواہیاں ہیں‘ بے لاگ اور تاریخ ساز۔ انہی پانچ دنوں میں نئی ریاست کو ''تصور‘‘ سے پیپر ورک کے ذریعے ''اداروں‘‘ میں ڈھالنے کا عمل شروع ہوا۔ اس کے علاوہ قائد اعظمؒ نے 12اگست 1947ء کو ''کمیٹی آف فنڈامینٹل رائٹس آف سٹیزنز اینڈ مینارٹیز آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے جو پہلی سپیشل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی اس کمیٹی کو مینڈیٹ ملا کہ وہ ریاست کے لیے دستور سازی اور شہریوں کے لیے بنیادی حقوق پر مبنی قانون بنانے کا کام فوراً شروع کرے۔
لمبی تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ ایک طرف حضرت قائد اعظمؒ کی بیماری نے زور پکڑلیا تھا جبکہ دوسری جانب پاکستان کی پہلی سپیشل پارلیمانی کمیٹی نے وہی کچھ کیا جو ہماری سپیشل پارلیمانی کمیٹیاں آج تک کرتی آرہی ہیں‘ یعنی بروقت اور فوراً عوامی مفاد کی قانون سازی کے بجائے پارٹی بازی کی پوائنٹ سکورنگ یا پھر عوام کے مسائل سے عدم دلچسپی بلکہ بے رُخی کا کھلم کھلا مظاہرہ۔ حضرت قائد اعظمؒ نے صرف پانچ ابتدائی دنوں میں پارلیمانی سیاست کو اس کی اصل راہ پر ڈال دیا تھا‘ لیکن بانیٔ پاکستان کے چلے جانے کے بعد آئین ساز اسمبلی اپنے ملک کا پہلا آئین فریم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بعد میں سامنے آنے والے حالات و واقعات اور حادثات نے ثابت کیا کہ یہ محض کوئی غفلت نہیں تھی بلکہ پلاننگ تھی‘جس کی طرف کچھ اشارے اسی صفحے پر 23 جون 2017ء کو چھپنے والے وکالت نامہ ''شہیدِ ملت سے شہیدِ کرپشن تک‘‘ میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ اس بارے میں دیہاتی وسیب کا واقعاتی لطیفہ آگے چل کر آپ سے شیئر کروں گا۔
قیامِ پاکستان کے ایک سال چھ مہینے 20 دن گزرنے کے بعد بالآخر سات مارچ 1949ء کے دن قراردادِ مقاصد کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں متعارف کروایا۔ اب یہ Objective Resolution کے نام سے پاکستان کے آئین مجریہ 1973ء کے آرٹیکل2-A کے ذریعے اس کا حصہ قرار دی گئی ہے جسے 12مارچ 1949ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے منظور کرلیا تھا۔ پھر پارلیمان اور عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی کا دن 16 اکتوبر 1951ء کے روز آگیاجب شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک لاکھ لوگوں کے سامنے جلسے کے سٹیج پر شہید کردیے گئے۔ ان کے مبینہ قاتل سید اکبر ببرک کو افغان نیشنل بتایا گیا تھا۔
ابھی اسی سال کے اسی مہینے میں سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ سامنے آیا جس کے مطابق لیاقت علی خان شہید کے مبینہ قاتل کی بیوہ 106 سال کی عمر میں ایبٹ آباد میں فوت ہوئیں۔ ان کو حکومت کی طرف سے بیوہ کے طور پہ ایک بڑا بنگلہ مبینہ طور پر الاٹ کیا گیا تھا جہاں انہوں نے پہلے خاوند کے بعد بقیہ زندگی دوسرے شوہر اور بچوں کے ساتھ گزاری۔ یہ خبر دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر بھی شیئر ہو چکی ہے‘ البتہ لیاقت علی خان صاحب کے قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر‘ جو تھانہ کوتوالی راولپنڈی سٹی میں رجسٹر ہوئی تھی‘ ابھی تک تفتیش کے انتظار میں پڑی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے دیہاتی وسیب کا واقعاتی لطیفہ کدھر گیا؟ تو سن لیجئے کہ کسی گائوں کے چودھری کی حویلی میں چوری ہوگئی۔ سارے گائوں والے بے گناہی کی قسم دینے آگئے۔ ان میں سے چار بندوں نے چادر پر مقدس کتاب اُٹھاکر گائوں کے ہرآدمی کو چادر کے نیچے سے گزرنے کے لیے کہا۔ ساتھ ہی راز کی یہ بات بھی بتادی کہ جب چور چادر کے نیچے سے گزرے گا‘ فوراً مر جائے گا۔ پھر سارا گائوں ایک ایک کرکے چادر کے نیچے سے گزرتاگیا مگر کسی کو کچھ بھی نہیں ہوا۔ آپ اس کہانی کا کلائمیکس سوچ رہے ہوں گے کہ کیوں کچھ نہیں ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ چوروں نے خود ہی تو چادر پکڑی ہوئی تھی۔ اس لطیفے کو آپ زیادہ سیریس نہ لیں‘ اس کی وجہ بھی جان لیں کہ پاکستان میں کس بڑے حادثے کے مقدمے کو کبھی سیریس لیا گیا؟ یہ تو تھا محض ایک واقعاتی لطیفہ‘ چلئے پھر پارلیمان کی طرف بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت چار صوبوں میں صوبائی پارلیمان‘ صوبائی درجہ ملنے کے منتظر گلگت بلتستان میں پانچویں پارلیمان‘ جموں و کشمیر کے آزاد خطے کی حکومت چھٹی پارلیمان جبکہ سینیٹ آف پاکستان ساتویں اور پاکستان کی قومی اسمبلی آٹھویں پارلیمان ہے۔ قومی اسمبلی والا پارلیمنٹری فورم وہ واحد جگہ ہے جہاں کچھ خاص چیزیں روزانہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی ہلکی سی جھلک اس طرح سے ہے:
پہلی خاص بات یہ کہ آئین کے آرٹیکل 50 کے مطابق اسے جنرل ضیا صاحب کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے مجلس شوریٰ کا نام دیا گیا۔ شوریٰ کا مطلب ایسی جگہ جہاں بحث مباحثہ اور مشاورت سے فیصلہ ہوسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اس ایوان کی ایک بڑی تعداد ایسے ممبرز پر مشتمل ہے جن کی سیاست جنرل ضیا صاحب کے مارشل لا کی مرہون منت ہے۔
دوسری خاص بات: سپیکر جناب اسد قیصر کی انتھک کوششوں کے باوجود اپوزیشن‘ جس کے زیادہ تر لیڈر شورائی دور سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس مجلس شوریٰ کو شور شرابا‘ شورش اور شرر سے آگے نہیں جانے دے رہے۔ کیوں والی بحث میں پڑکر کاغذ کالے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ ہم سب‘ سب کچھ جانتے اور ٹی وی سکرینوں پر سب کچھ دیکھتے ہی تو ہیں۔
تیسری خاص بات: یہ کہ پارلیمان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی‘ کسٹوڈین آف دی ہائوس‘ قانون سازی کا عمل سب سے ناراض ہے۔ اسی لیے پارلیمنٹ کا ہر اجلاس ہنگامے سے شروع ہوکر ہنگامے پہ ختم ہو جاتا ہے۔
چوتھی خاص بات: یہ کہ پاکستان کے آٹھ کے آٹھ ایوانوں کے ہر اجلاس کا خرچہ کروڑوں روپے تک پہنچتا ہے۔ سب ایوانوں کے ہزاروں ملازمین‘ سینکڑوں ارکان‘ بیسیوں کمیٹیاں‘ ان کے چیئرمینوں کی سرکاری گاڑیاں اورعملہ۔ ہر اجلاس کی سکیورٹی‘ بجلی اور دوسرے یوٹیلٹی بلز‘ فاضل ممبران کا اسمبلی میں آنا جانا‘ تشریف رکھنا اور واپس اپنے اپنے گھر‘ گائوں یا گوٹھ تک پہنچنا‘ اس پر کسی ممبر کا ایک ٹیڈی پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ ٹرین‘ جہاز کے ٹکٹ جیسی ٹرانسپورٹ سے لے کر اسلام آباد میں قیام اور کمیٹی یا ہائوس میں بیٹھنے کا روزانہ محنتانہ‘ محنت کش عوام کی جیب سے اپنے منتخب لیڈروں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر آپ پارلیمان اور ملک کے سارے بڑے آئینی ایوان سامنے رکھ کر خود اپنا امتحان لیں تو آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ کیا ایسی ہی پارلیمان بانیٔ پاکستان ہمارے حوالے کر کے گئے تھے؟ اگرایسا نہیں‘ تو پھر کس عوام دوست کی عنایت نے ہمیں یہاں تک پہنچایا؟
میں اور دوستوں کی عنایت سے انحراف؟
''یہ تاب‘ یہ مجال‘ یہ طاقت نہیں مجھے‘‘
میرے لیے قلم کا سکوں ہے عزیز تر
''سودا نہیں‘ جنوں نہیں‘ وحشت نہیں مجھے‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں