"ABA" (space) message & send to 7575

بجٹ اور ایویں ای

فیصل آباد کے وکیل سرور باجوہ چھٹی والے دن وفد لے کر آئے جس میں ٹیکسٹائل یونٹس کے مالکان شامل تھے چونکہ یہ غیر سرکاری میٹنگ گھر پر تھی اس لئے میں بھی والد صاحب کے ساتھ اس میں جا بیٹھا۔ حیرانی دو باتوں پر ہوئی:
یہ کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ان بڑے کاروباریوں کو کوئی کام نہیں تھا وہ صرف وزیر اعظم عمران خان تک تشکر کے جذبات اور یہ پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اتنا منافع اور اتنا boom پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ساتھ یہ بھی بتانے لگے کہ وہ پاور لومز جن کا لوہا توڑ کر 35 روپے کلو کے حساب سے کباڑیے لے گئے تھے‘ اب ایسے ہی کئی لاکھ یونٹ بنوائے اور منگوائے جا رہے ہیں۔ اس پر وہ ماہرین جو ہر چیز کے ماہر ہیں اور ان کے پے ماسٹر کہتے ہیں یہ تو ''ایویں ای‘‘ ہو گیا۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں کورونا کی وجہ سے سکڑی ہیں۔ انڈیا سے امریکہ تک یہی ہوا۔ اسی لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کے بارے میں بد ترین بد خبریاں سناتے رہے لیکن وہ نہ ہو سکا جو عالمی ساہوکاروں نے کہا۔ ہوا کیا‘ وہ جو دنیا میں سرمایہ کاری کے سب سے بڑے ادارے جے پی مورگن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا۔ پاکستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے جے پی مورگن کی اس رپورٹ کے تین اشاریے یوں ہیں:
پہلا اشاریہ: 2021ء میں پاکستان میں جی ڈی پی گروتھ کی شرح 4.7 فیصد ہو گی جبکہ آئندہ سال یعنی 2022ء میں پاکستانی معیشت کا گروتھ ریٹ جے پی مورگن کی پیشگوئی کے مطابق 5.9 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
دوسرا اشاریہ: جے پی مورگن نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرمایہ پاکستان کی معیشت میں انویسٹ کریں کیونکہ یہاں معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ جے پی مورگن کی تازہ رپورٹ کے مطابق آئندہ سال پاکستانی معیشت کا سائز 329 ارب یو ایس ڈالر ہو گا۔
تیسرا اشاریہ: آئندہ سال پاکستان کا بجٹ خسارہ 7.1 فیصد سے کم ہو کر 5.9 فیصد ہونے کی پیشگوئی بھی جے پی مورگن کی رپورٹ کا حصہ ہے۔
اپنے ہاں اس رپورٹ کے مقابلے میں معاشی کاریگر جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ اس کا ایک نمونہ تیسرے نواز دور کے آخری وزیر خزانہ نے پیش کیا۔ ایک رپورٹر کے سوال و جواب میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ (ن) لیگ کے سابق وزیر خزانہ نے سوال اٹھایا کہ مجھے پاکستان میں دو لوگ ایسے بتا دیں‘ جن کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے جواب میں رپورٹر نے جواب دیا کہ لیگی دور میں آپ کی ٹافیاں بنانے والی کمپنی نے 35 کروڑ کمائے تھے جس کا منافع عمران خان سرکار میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہا گیا کہ یہ تو 'ایویں ای‘ کا کمال ہے۔ اس لئے بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے؟
اب آئیے تھوڑی سی مزید فیکٹ شیٹ کی جانب جو یہ ثابت کرتی ہے کہ موجودہ بجٹ 'ایویں ای‘ ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے ڈیڑھ سال میں وزیر اعظم عمران خان نے شدید دبائو اور شور شرابے کے باوجود Covid 19 کے حوالے سے ملک میں مکمل لاک ڈائون لگانے سے انکار کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ سمارٹ لاک ڈائون لگانے کا ایسا مشورہ دیا جس پر اب ساری دنیا عمل کر رہی ہے۔ عمران خان صاحب کی قیادت میں انہی اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ غریب کی مزدوری جاری رہی۔ بزنس اور انڈسٹری‘ دونوں کام کرتے رہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کی معیشت 262.6 ارب ڈالر سے اوپر اُٹھ کر 297.9 تک پہنچ گئی ہے۔ تازہ بجٹ میں وہ سارے ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے ہماری معیشت اگلے سال مزید پھیلے گی اور زیادہ معاشی ایکٹویٹی کی وجہ سے معاشی طور پر نچلے طبقات کو براہ راست فائدہ ہو گا۔
اسی پس منظر میں تازہ بجٹ وہ پہلا بجٹ ہے جس میں عام استعمال کی چیزوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا اور مہنگائی کا وہ جِن جو ہر بجٹ کے بعد سر اُٹھا لیتا تھا اس سال کے بجٹ کے بعد سے غائب ہے۔ گزشتہ دو حکومتوں کے دور میں خوراک کی کمی کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ فوڈ پرائس کم ہو سکیں اور کم آمدنی والوں اور فکسڈ انکم گروپس کو افراطِ زر کے دبائو سے بچایا جا سکے۔
تازہ بجٹ کے دوران ہونے والی دو تقریروں کا ذکر کر دیتے ہیں۔ ایک تقریر چینی کے بارے میں تھی جس میں اس اہم انکشاف کے موجد بول رہے تھے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار کے ساتھ ساتھ چینی بھی ''پیدا ‘‘ہوتی ہے۔ اس تقریر کی خاص بات یہ تھی کہ مقرر صاحب نے بجٹ کے علاوہ ہر مسئلے پر بات کی لیکن ان کی باڈی لینگویج میں ہاتھوں کا ایکشن شامل نہیں تھا جس کی وجہ آپ ٹی وی چینلز پر دیکھ چکے ہیں۔ یہی کہ 90 منٹ تک وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران انہوں نے بجٹ کتابیں اتنی بار میز پر پٹخیں جتنی بار دھوبی پٹکا مار مار کر پورے محلے کے کپڑوں کی لانڈرنگ کر دیتا ہے۔ یہ والی لانڈرنگ پاکستانی منی لانڈرنگ سے بالکل مختلف ہے جس میں چار سال کے بچے سے لے کر 70 سال کے بوڑھے تک یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے محل ماڑیاں‘ اثاثے اور گاڑیاں‘ بلکہ کروڑوں روپے کی گھڑیاں ان کے ہاتھوں اور جیبوں میں کیسے پہنچ گئی ہیں۔
موجودہ بجٹ بہت سے لوگوں کی حسبِ منشا نہیں بن سکا۔ اس میں پاکستانیوں کی منشا سے لے کر آئی ایم ایف کی منشا تک شامل ہے۔ اس لئے یہ بجٹ ایلیٹ کلاس کے لیے تکلیف کا باعث ہے کیونکہ اس میں ایلیٹ کلچر کے مفادات کے لیے ریلیف شامل نہیں۔ ظاہر ہے ایلیٹ والے اس بجٹ کو 'ایویں ای‘ کہیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی اگلے روز ایک گورے صحافی کو 'ایویں ای‘ ہکا بکا اور زیرو کر دیا۔ گورے کا سوال تھا کہ افغانستان میں جنگ لڑنے کے لیے آپ امریکہ کو اڈے دے کر جنگ کے سہولت کار بنیں گے؟ گورے کے ذہن میں عمران سرکار سے پہلے پاک سرزمین پر ہونے والے 414 ڈرون حملے تھے۔ موجودہ پونے تین سالوں سے ہمارا وطن ڈرون حملوں سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ''Absolutely Not‘‘۔
ہاں البتہ تازہ بجٹ 'ایویں ای‘ خادمِ اعلیٰ کے لیے مکمل شفا کا بجٹ ثابت ہوا۔ بجٹ سے پہلے خادمِ اعلیٰ کمر کی تکلیف کی وجہ سے لندن میں علاج کروانے جا رہے تھے۔ شفا سے بھرپور بجٹ کا کمال دیکھئے کہ خادمِ اعلیٰ نے قومی اسمبلی کے فلور پر چار دن تک مسلسل اُٹھک بیٹھک کی‘ پھر مسلسل چار گھنٹے تک تقریر کی مگر کمر میں ہلکا سا بھی درد نہ ہوا۔
'ایویں ای‘ شورش یاد آ گئے۔
صر صر کی شان میں بھی قصیدے لکھے گئے
دورِ خزاں کو موجِ بہاراں کہا گیا
نقد و نظر کے شیشۂ نازک کو توڑ کر
چنڈال چوکڑی کو غزل خواں کہا گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں