"ABA" (space) message & send to 7575

اُن کاا ندھیرا‘اُجالا ہمارا …(2)

ڈارک ایجز کے گولڈن برین‘ الجزری کے پہلو میں حیرت کا اگلا دروازہ کھل رہا تھا۔نجانے کیسے‘ میرا دھیان تاریخ دان جان ٹولان کی طرف چلا گیا۔ آج کا تاریخ دان جو فرانس کی معروف درسگاہ ‘یونیورسٹی آف نینٹِس میں ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ پچھلے 30 سال سے یورپ میں Mediterranean World کے اندرمسلمانوں‘ یہودیوں اور عیسائیوں کی intertwined تاریخ پہ ریسرچ کررہے ہیں۔ ان کا خاص موضوع 'مڈل ایجز کے عرب اور لاطینی زبان بولنے والی تہذیبوں کے درمیان مذہبی اور ثقافتی تعلقات‘ ہے۔ ان کی تازہ کتاب حضرت محمدﷺ کی ذاتِ بابرکات‘ مسلم بین المذاہب تعلیمات کے بارے میں ہے۔ ٹائٹل ہے:
Faces of the Prophet: A History of Western Portrayals of Muhammad(ﷺ).
اس کتاب کی خاص بات خود صاحبِ کتاب‘ تاریخ دان سکالر جان ٹولان بتاتے ہیں ''جہاں کئی یورپینز کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں متعصبانہ رویہ ہے‘ وہاں بے شمار بڑے بڑے تحقیق کار اور سکالرز اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ہستی کو سحرانگیز اور احترام کی عظیم مثال سمجھتے ہیں۔‘‘
تاریخ دان ٹولان نے 15ویں صدی عیسوی سے لے کر 19ویں صدی عیسوی تک اس موضوع پر معلومات کو تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ کتاب کا ایک پیراگراف یوں ہے ''Gustav Weil ہیلی برگ میں Geiger کے ساتھ زیرِ تعلیم رہا۔ Abraham Geiger ربی اور یہودیت کی پریکٹس میں ریفارم لانے کا خواہش مند تھا۔ دونوں نے عربی اکٹھے پڑھی‘ پھر اکٹھے الجیریا‘ قاہرہ اور استنبول کا سفر بھی کیا۔ جرمن اخباروں میں لکھا‘ فرینچ پڑھائی اور عربی‘ فارسی اور ترک زبان کا مطالعہ کیا۔ ابراہم گیگر نے جرمنی واپس پہنچ کر عربی شاعری اور عربی متن پر خاص طور سے تحقیق کی اور اس پہ اپنا کام شائع کیا‘ جس میں اہم ترین اسلام کی ابتدائی تاریخ کی سٹڈیز میں حضرت محمدﷺ کی سیرت پاک بھی شامل ہے۔‘‘
''Weil کے مطابق حضرت محمدﷺ ایک مخلص مصلح نبی ہیں۔ 18ویں صدی کے کئی یورپی مصنفوں کی نظر میں حضرت محمدﷺ کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل پیغامِ توحید کو آگے بڑھانا ہے۔‘‘
ہنگری کے ایک سکالر اور ریفارمر Ignac Goldziher کی 18ویں صدی کی تحقیق کا حوالہ بھی کتاب میں ملتا ہے۔ مسٹر Goldziher نے مسلمان سکالرز سے دوستی کرلی جس میں دمشق کے طاہرالجزائری اورجمال الدین افغانی بھی شامل تھے۔ اسلام کی مذہبی ڈاکٹرائن‘ مسلمانوں کو متحد کرنے اور اللہ کے الہامی پیغام کو دنیا تک پہچانے کیلئے حضرت محمدﷺ کی آخری نبوت کو مسٹر Goldziher نے آئیڈیل اور ریشنل مذہب قرار دیا۔ جان ٹولان نے جس سحرانگیز پیغامِ توحید اور حضرت محمدﷺ کی پُرانوار سیرت کا ذکر کیا یہ اسی پیغام کی عطا تھی جسے الجزری سٹوڈنٹس کے سامنے یوں رکھتے ہیں ''یہ نقطہ نظر کا معاملہ ہے‘ میرے ذہین دوستو‘ ظاہرسی بات یہ ہے کہ دنیا کے کچھ حصے بالکل بھی ڈارک نہیں تھے۔ میں ایک ایسی تہذیب کی بات کررہا ہوں جو سپین سے چین تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس تہذیب میں دریافت اور ایجاد کی سنہری کرنیں ہر چیز پر پڑ رہی تھیں۔‘‘
ایک طالبعلم سوال کرتا ہے: کون سی تہذیب؟ جواب آیا: مسلم تہذیب میرے دوست۔ مسلم تہذیب میں ہی علمااور سائنسدانوں کے ذریعے انسان کے علم میں ہونے والی کچھ سب سے اہم ترین دریافتیں ہوئیں۔ ایسی دریافتیں جو قدیم زمانے کے علم کے ذریعے سامنے آئیں لیکن ان کا جدید دنیا سے تعلق آپ کی سوچ سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ اسی دوران طالب علم تصویر کھینچنا چاہتا ہے مگر ایک پرانی وضع قطع والے شخص نے طالبعلم کے ہاتھ سے فون لے لیا۔ طالبعلم بولا: آپ کون ہیں؟ جواب آیا‘ ابن الہیثم۔
بے چین طالب علموں کا اگلا سوال یہ تھا: آپ نے کیمرا کیسے ایجاد کیا؟ ابن الہیثم نے جواب دیا: جیسے ہماری آنکھیں کام کرتی ہیں۔ اس بات کی وضاحت کرکے میں نے جدید کیمروں کی بنیاد رکھی۔ میں نے ایک تاریک کمرے میں ایک چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے تصویر کو دوسری سطح پہ نمایاں کرنے کا طریقہ ڈھونڈا‘ جس کو بعد میں camera obscura کا نام دیا گیا۔ اب آپ ان سب چیزوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جن کاارتقا صرف اس ایک دریافت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ کیمرا‘ سینما‘ فلم‘ ویڈیو‘ فضائی میپنگ وغیرہ‘ سب اسی اصول پر چلتے ہیں۔ اسی دوران ایک اور باوقار شخص سامنے آئے۔ الجزری نے کہا:یہ میرے اچھے دوست عباس ابن فرناس ہیں جنہوں نے آسمان کی طرف اس یقین سے دیکھاکہ انسان اُڑ سکتے ہیں۔ بیشک انہوں نے اُڑنے کا خواب رائٹ برادران سے ہزار سال پہلے دیکھا تھا‘اس لئے عباس ابن فرناس کو یاد کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ گفتگو جاری تھی کہ ابوالقاسم الزاہراوی اندر آن پہنچے۔ کہنے لگے: بہت سے لوگ مجھے فادر آف سرجری کہتے ہیں۔ طالبعلم بولے: کیا آپ اس دور میں واقعی سرجری کرتے تھے؟ ابوالقاسم الزاہراوی نے جواب دیا: جی ہاں بالکل سرجری کیا کرتے تھے۔ میرے ایجاد کردہ بہت سے سرجیکل ٹولز آج بھی آپ کے جدید ہسپتالوں اور آپریشن تھیٹرز میں استعمال ہو رہے ہیں‘ جیساکہ سکیلپل‘ cat gut۔ یہ cat gut جانوروں کی آنتوں سے بنتا ہے۔ اندرونی زخموں پر ٹانکے لگانے کیلئے پرفیکٹ ہے۔ آپ کے سرجنز اسے آج تک استعمال کرتے ہیں۔ بچے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہے تھے کہ ابوالقاسم الزاہراوی اچانک بولے: مجھے جانا پڑے گا! کسی مریض کو میری ضرورت ہے۔ اسی اثنا میں ایک پُروقار خاتون‘ جو ایسے گھوررہی تھیں جیسے خلا میں کچھ ڈھونڈ رہی ہوں‘ بچوں کی طرف بڑھتی ہوئی نظرآئیں۔ الجزری ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور تعارف کروایا: یہ مریم الاسطرلابی ہیں۔ اپنے دور کی ذہین ترین خواتین میں سے ایک۔ یہ بہت نفیس اسطرلاب بنانے کی ماہر ہیں۔ سٹوڈنٹس نے حیران ہوکر پوچھا: اسطر کیا؟ جواب آیا: اسطرلاب‘ یہ آسمان اور ستاروں کو ایک چھوٹی سی فلیٹ پلیٹ پہ دکھانے کا کام ہے جسے آپ اپنے ہاتھ میں پکڑ سکتے ہیں۔ آپ اس کو حساب کتاب کرنے یا وقت کاپتہ کرنے کے قدیم آلات سمجھ لیں۔ آج جو گھڑیاں ہیں‘ کمپاس ہیں‘ سیٹلائٹ نیویگیشن ہے‘ جن کی مدد سے لوگ جہاز اُڑاتے‘ ایکسپلوررز ساری دنیا دیکھ سکتے ہیں اور سائنس اپنے بہترین دور میں داخل ہوچکی ہے‘ اس کا آغاز مریم الاسطرلابی نے کیا تھا۔
قارئین‘ جس طرح میں اور آپ یہ سب تفصیل پڑھ کر حیران ہو رہے ہیں‘ الجزری کے وزیٹر بچے بھی اسی طرح سے حیران ہورہے تھے‘ جن میں سے ایک نے ہماری حیرانی دور کرنے کیلئے پوچھا: یہ سب چیزیں کیا گولڈن ایجِز میں ایجاد ہوئی تھیں؟ الجزری کہتے ہیں: یہ تو صرف tip of the iceberg ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں ایسی ایجادات تھیں جو زندگی کا ہر ایریا کوَر کرتی ہیں۔ بعد کے سالوں میں اس تہذیب کی ایجادات کا اثرورسوخ پورے میڈیول یورپ میں پھیل گیا جن میں میری دریافت روٹری موشن کو بدل کر لینئر موشن بنانا تھا جس کے ذریعے کرینک اور کنیکٹنگ راڈز کا استعمال کیا جاتا ہے‘ جو پمپس اور انجن کا بہت ضروری حصہ ہیں۔ ان دونوں ڈیوائسز ہی کی وجہ سے صدیوں بعد انڈسٹریل انقلاب آیا مگر مجھے کریڈٹ کبھی نہ ملا جس کا میں حقدار تھا بلکہ میری کرائوننگ گلوری ٹائم بتانے والی مشین تھی‘ لیجنڈری Elephant Clock جس کے درجنوں کمپوننٹس دنیا کی مختلف ثقافتوں‘ جیسے عربی‘ مصری‘ انڈین‘ گریک اور چائنیز سے جمع کئے گئے تھے۔ یونائٹڈ نیشنز کلاک۔
سیانے کہہ گئے ‘آپ کے حق میں آپ سے اچھا کوئی نہیں بول سکتا۔ مسلم تہذیب صدیوں سے قابلِ فخر ہے۔ احمد سلیم یہی بول رہے ہیں‘ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں