"ABA" (space) message & send to 7575

خیر کی خبر

ایک بار پھر سارے اندازے غلط ثابت ہو گئے۔ ایک مرتبہ پھر شر کی خبریں پھیلانے والے شرمناک طریقے سے پِٹ گئے۔ اب کی بار مغربی سرحد کے پار سے طوفان کی آمد کی پیشگوئیاں کرنے والوں کے منہ لال اور دل بے حال ٹھہرے۔ ہاں البتہ کچھ خدشات 40 سال پرانے تجربات کی روشنی میں ظاہر کئے جاتے رہے۔ اگر ان میں سے مبالغہ اور خواہش کو خبر بنانے والا حصہ نکال دیں تو وہ اتنے بے جا بھی نہ تھے۔
خیر کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ سقوط ِکابل کے پہلے فیز میں وطنِ عزیز کسی بڑے امتحان میں گھِر جانے سے بچ گیا ہے۔ کچھ ماہ پیچھے چلیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پاکستان کی لیڈرشپ اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے صورت حال سے بے خبر تھے‘ نہ ہی بے تعلق۔ ان دنوں نیٹو-افغان کانفلکٹ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اور سٹریٹجی میں ایسا شفٹ سامنے آیا جس نے خطے میں دلچسپی رکھنے والے دنیا کے بڑے پلیئرز کو حیران کر ڈالا‘ جس کے کچھ خدوخال دیکھنے سے پہلے اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ ساری دنیا کے سفارتی اہلکار‘ صحافتی ادارے اور بڑے فوجی ماہرین اس کانفلکٹ کے انجام پر بھی پاکستان کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں۔ یو کے آرمڈ فورسز کے چیف جنرل Nicholas Carter اس فہرست میں سب سے نمایاں ہیں۔
اب چلئے پاکستان کی پالیسی کی طرف:
پہلی سٹریٹجک شفٹ: پاکستان نے اپنے آپ کو افغان کانفلکٹ سے علیحدہ کرنے کے لیے Non-Nato فرنٹ لائن سٹیٹ بننے سے انکار کر دیا۔ ذرا گہرائی میں جائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہمارے سارے کے سارے مسائل کی بنیاد یہی غلط فیصلہ تھا کہ ہم دوسروں کی سرزمین پر اصلاحِ معاشرہ اور نفاذِ جمہوریت کے لیے نیو ورلڈ آرڈر کے سہولت کار بنیں۔ پچھلے چار عشروں میں وطن عزیز پر جو بڑی بربادیاں نازل ہوئیں انہوں نے اسی پالیسی کے پیٹ سے جنم لیا۔ دہشت و وحشت‘ ہیروئین اور کلاشنکوف جیسے مسائل میں ہم دھنستے چلے گئے۔
کچھ اندھیرے فروشوں نے اس پالیسی شفٹ کو بڑی طاقتوں کی ناراضگی مول لینے کی کوشش اور غلط پالیسی بنا کر پیش کرنے کے لیے پورا زور لگا دیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ذرا یہ تو دیکھ لیں کہ 9/11 سے لے کر اب تک گزرے 20 سالوں میں امریکہ نے افغان جنگ پر دو کھرب ڈالر سے زیادہ کا خرچہ کرنے کے باوجود نتیجہ کیا نکالا؟
دو کھرب ڈالر‘ ایک دن کے 300ملین ڈالر بنتے ہیں جو ڈیلی کی بنیاد پر دو عشروں تک خرچ کئے گئے۔ سکول‘ ہسپتال‘ سڑکیں‘ یا زچہ بچہ سینٹر بنانے کے لیے نہیں بلکہ توپ ‘ تفنگ اور جنگ کے نت نئے اوزار اور ہتھیار بنانے‘ آزمانے اور چلانے پہ یہ سارا خرچہ ہوا۔ افغانستان کی آبادی تین کروڑ 84 لاکھ رپورٹ شدہ ہے۔جن میں سے 40 لاکھ کے قریب لوگ پاکستان میں پچھلے 40 سالوں سے بیٹھے ہیں۔جبکہ دنیا کے باقی ملکوں‘ جن میں انڈیا سے امریکہ تک کے علاقے شامل ہیں‘جتنے لوگ جا بسے ہیں‘ان کی صحیح تعداد دستیاب نہیں۔اگر ہم اس آبادی کو رائونڈ فِگر میں چار کروڑ کی آبادی سمجھ لیں تو پھر ہر شخص کے اوپر 50ہزار یو ایس ڈالر کے برابر کا خرچہ کیا گیا۔
اس خرچے کو آپ ایک اور طریقے سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یوں کہ یو ایس اے کے منصوبہ سازوں نے اپنے حلیف آگے لانے اور حریف جنگجوئوں کو روکنے کے لیے جیف بیزوس‘ ایلون مسک‘ بِل گیٹس بلکہ امریکہ بہادر کے 30 امیر ترین ارب پتیوں کی نیٹ ڈالر ورتھ ملا دیں تو تب بھی افغان جنگ میں جھونکا گیا ڈالر ان سب سے زیادہ بنتا ہے۔ معروف ذرائع کا کہنا ہے 800 ارب ڈالر براہ راست جنگ لڑنے کے اخراجات کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ 85 ارب ڈالر افغان فوج کی ٹریننگ کے لیے خرچ کیا گیا۔ ان سرکاری فوجیوں نے پنٹاگون کے بگرام ایئر بیس بند ہونے کے چند ہفتوں بعد ہی جولائی2021ء میں ہتھیار ڈال کر ہاتھ کھڑے کر دیے جس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان جنگجوئوں کے خلاف امریکی ایئر سپورٹ پوری طرح سے معذور ہو کر رہ گئی۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق 750 ملین یو ایس ڈالر افغان فوجیوں کی سالانہ تنخواہوں پر امریکہ خرچ کرتا رہا۔
یہ سارے ڈالرانہ خرچے ایک طرف مگر ان سب پر بھاری انسانی قیمت آتی ہے۔20سالہ افغان- نیٹو کانفلکٹ میں 47ہزار عام افغانی شہری مارے گئے ‘جن میں بدقسمت بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ 69 ہزار افغان سکیورٹی فورسز کے لوگ جان سے گئے ۔3500سے زیادہ اتحادی فوجی مارے گئے۔ جس میں 2500سے زیادہ یو ایس ملٹری کا عملہ شامل تھا۔چارہزار امریکی کانٹریکٹر ز اور اپوزیشن کے جنگجوئوں کی تعداد تقریباً51 ہزار بتائی جارہی ہے۔اس خون آشام کانفلکٹ میں اب تک20ہزار زخمی امریکی فوجیوں کے علاج کا خرچہ 300 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ مزید آدھے کھرب یو ایس ڈالر کا خرچہ ہونے کی توقع ہے۔ امریکہ بہادر کے ان کشادہ دل اخراجات کے سب سے دلچسپ حوالے کی طرف بعد میں آئیں گے ۔
دوسری سٹریٹجک شفٹ: ریاستِ پاکستان نے کسی ایک ملک کی معلومات‘مفادات اور پالیسی پر سارا انحصاررکھنے کے بجائے تین سطحی مشاورت کا راستہ اپنایا۔ان میں سب سے پہلا افغانستان کے پڑوسی ممالک سے ‘جن کے بارڈر افغانستان کی بین الاقوامی سرحدسے جڑتے ہیں۔ دوسرے‘ خطے کے اہم پلیئرز اور خاص طور سے روس ۔ تیسرے‘ ترکی سمیت مغربی طاقتوں کی حکومتوں اور سربراہوں سے مشاورت کا عمل جاری رکھا گیا۔اکثر لوگوں کا دھیان ادھر کم کم جاتا ہے کہ پچھلے دو سے تین سال کے دوران دوحہ مذاکرات میں صرف امریکہ شامل نہیں رہابلکہ ان مذاکرات میں افغانستان کے سارے پڑوسی شامل رہے۔مگر امن پراسیس کی سب سے موثر حمایت اور پاسداری پاکستان نے کی۔اس وقت کابل میں کوئی حکومت موجود نہیں ۔ جس کی کھلی وجہ دوحہ مذاکرات کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔دنیا کے با اثر اور جمہوری ملکوں کی توجہ نئی کابل انتظامیہ سے انسانی حقوق ‘میڈیا کی آزادی اور خواتین کے حقوق پر مرکوز ہے۔پچھلے چارعشروں کے تجربات کے بعد پاکستان کیلئے خیر کی خبر یہ بھی ہے کہ افغان سرزمین سے بھارت کا فروغِ دہشت گردی نیٹ ورک فی الحال بے دخل ہو چکا ہے۔کابل کی سب سے اہم پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ اب افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔
اب آئیے قرض کی سب سے مہنگی مَے سنگلاخ چٹانوں پر لٹانے والی دلچسپ خبر کی طرف ‘اور وہ یہ کہ یو ایس اے نے نیٹو-افغان جنگ اُدھار کے پیسے سے فنانس کی ہے۔اس خبر کا سورس سیاسی نہیں بلکہ برائون یونیورسٹی امریکہ کے ریسرچرز نے اس کا کھوج لگایا ہے۔برائون یونیورسٹی ریسرچ کا کہنا ہے کہ امریکہ اب تک جنگی قرض پر 500ارب ڈالر سے زیادہ کا سود واپس کرچکا ہے۔ ان ریسرچرز کا کہنا کے 2050ء تک نیٹو-افغان جنگ کے قرضے پر صرف سود کا سائز 6.5 کھرب یو ایس ڈالر تک پہنچ جائے گا۔جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ ہر یو ایس شہری پر یہ رقم 20ہزار یو ایس ڈالر بن جائے گی۔سقوطِ کابل سے خیر کی عالمی خبر یہ نکلی کہ قوم کرپٹ حکمرانوں پر مال تو لٹا سکتی ہے‘مگر جان ہر گز نچھاور نہیں کرتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں