"ABA" (space) message & send to 7575

دی گریٹ سرنڈر

یہ بحث اندازوں کے اٹکل پچّو کو خواہش سے خبر بنانے والوں کے درمیان نہیں ہو رہی۔ ساری دنیا اس بحث کو اس لئے سنجیدگی کے ساتھ لے رہی ہے کہ ان مباحث میں ایشیا سے یورپ اور امریکہ تک بڑے پلیئرز اور سٹیک ہولڈرز حصہ ڈال رہے ہیں۔ بحث کا مرکزی نکتہ تھری ڈی ٹائپ گریٹ سرنڈر ہے۔ ایسا گریٹ سرنڈر‘ جو ہماری جدید دنیا کے سب سے لمبے وار تھیٹر میں پیدا ہوا۔
نیٹو افغان وار تھیٹر کتنا بڑا تھا اور اس کے نتائج اس تھیٹر سے بھی کتنے بڑے ہیں‘ اُس پہ امریکہ میں منعقد ہونے والی تازہ ترین پریس بریفنگ کے ذریعے تفصیل سامنے آئی ہے جس میں انڈیانا کے کانگریس مین Jim Banks نے Illinois کے ممبر کانگریس Michael Bost‘ ٹیکساس کے کانگریس مین Jake Ellzey‘ Tennessee کے کانگریس مین Mark Green ایم ڈی‘ Florida کے کانگریس مین Brian Mast‘ کیلی فورنیا کے کانگریس مین Kevin McCarthy‘ ٹیکساس کے کانگریس مین Michael McCaul‘ Alabama کے کانگریس مین Mike Rogers اور Florida کے کانگریس مین Mike Waltz شامل تھے۔
یو ایس اے کے یہ پارلیمنٹیرینز جو بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی طرف سے نیٹو افغان جنگ میں سے تباہ کن طریقے کے انخلا کے بارے میں بریفنگ کیلئے بلائے گئے تھے‘ جس کے بعد یہ چشم کشا پریسر سامنے آیا۔ مسٹر Jim Banks نے درجنوں کیمروں کی موجودگی میں جو حیران کن انکشافات کئے آئیے پہلے اُن پر ایک نظر ڈالیں۔
پہلا انکشاف: مسٹر Jim Banks نے ایک دستاویز نکالی‘ اُسے پریس کے سامنے لہرایا‘ پھر بولے: آئیے میں آپ کو وہ چیزیں پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں جو میرے جیسے کئی افغان ویٹرنز کیلئے بڑی تکلیف کا باعث ہیں۔ ہمیں افغانوں کی مدد کیلئے اُن کی فوج کو تیار کرنے کا کام سونپا گیا۔ پالیسی کو Train, Advise, Assist, and Equip effort کا نام دیا گیا تھا۔
دوسرا انکشاف: افغانستان میں میری جاب بطور فارن ملٹری سیلز آفیسر کی تھی اس لئے میں اُس سارے ایکویپمنٹ کو ایکوائر کرنے کیلئے نیٹو افغان کانفلکٹ کی فرنٹ لائنز پر موجود رہا۔ یہ انتہائی حساس امریکی ایکویپمنٹ یو ایس آرمی نے افغان آرمی اور پولیس کیلئے بھجوایا جو ہم نے خود اُن دونوں اداروں کے حوالے کیا۔
تیسرا انکشاف: اب ہمیں یہ براہِ راست معلوم ہے کہ جو بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی غفلت کی وجہ سے افغان طالبان کے پاس اور ان کی رسائی میں 85 ارب یو ایس ڈالر کی مالیت کے امریکی ملٹری کے قیمتی ترین آلات موجود ہیں۔
اس کے بعد مسٹر جم بینکس نے جو تفصیل اس بارے میں بتائی‘ اُسے سُن کر امریکن پریس سکتے میں آ گیا۔ مسٹر جِم بینکس نے بتایا کہ امریکہ جو ملٹری اثاثے افغان جنگجوئوں کے پاس چھوڑ آیا ہے‘ اُن میں 75 ہزار آرمرڈ وہیکلز ہیں‘ 200 جدید ترین ہوائی جہاز اور تازہ ترین ہیلی کاپٹرز جبکہ تقریباً چھ لاکھ سے زیادہ چھوٹے اور ہلکے میڈیم رینج ہتھیار بھی شامل ہیں۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس وقت ان جنگجوئوں کے قبضے میں دنیا کے 85 فیصد ملکوں سے زیادہ تعداد میں امریکہ کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز بھی جا چکے ہیں۔
چوتھا انکشاف: حیرت میں ڈوبے ہوئے امریکی پریس رپورٹروں کے سامنے مسٹر جم بینکس نے مزید حیران کر دینے والا اگلا انکشاف یوں کیا ''لیکن افغان جنگجوئوں کے پاس صرف امریکی جدید ترین ہتھیار نہیں آئے ہیں بلکہ اُن کے پاس نائٹ وژن گاگلز اور باڈی آرمرز بھی ہیں۔ ملٹری اینڈ سویلین میڈیکل سپلائز کے بڑے بڑے ذخیرے بھی اُن کے قبضے میں چلے گئے‘‘۔
پانچواں انکشاف: یہاں پہنچ کر مسٹر جم بینکس نے لمبی سانس لی اور بولے کہ یہ بات میرے لئے اور بہت سے دوسرے ایسے لوگوں کیلئے ناقابل یقین بھی ہے اور ناقابل فہم بھی جو اس معاملے کی اِن سائڈ سٹوریز جانتے ہیں کہ اب افغان جنگجوئوں کے پاس بائیو میٹرک جدید ترین ڈیوائسز ہیں جن میں اُن افغانوں کے فنگر پرنٹس‘ آئی سکینز اور بائیوگرافیکل سیکرٹ انفارمیشن پڑی ہے جنہوں نے پچھلے 20 سالوں کے دوران امریکہ کی مدد کی۔
مسٹر جم بینکس رُکے‘ اپنے ارد گرد کھڑے امریکہ کے پارلیمنٹری لیڈرز کی طرف دونوں ہاتھوں کا اشارہ کرکے بولے کہ ابھی ابھی ہم جس بریفنگ سے اُٹھ کر آرہے ہیں‘ اُس میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جو بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا اب بھی یہ ملٹری ایکویپمنٹ اور دیگر سپلائز واپس لینے کا سرے سے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ 20 سالہ طویل نیٹو افغان کانفلکٹ‘ جس میں 47 ملکوں کی فوجوں نے حصہ لیا‘ کے بارے میں بڑے مغربی لیڈروں نے کیا کیا دعوے کئے‘ ان میں سے چند پر نظر ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں۔
ٹونی بلیئر 2001ء میں بولے تھے: افغانوں سے ہماری کمٹمنٹ ہے‘ جس کا کانفلکٹ پر خاتمہ نہیں ہوگا‘ ہم ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اُسی سال جارج بش نے جنگجوئوں کے فوجی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کا اعلان کیا۔ پھر 2006ء میں کہا کہ اُن کے دن پورے ہو چکے ہیں۔
حیران کن یو ٹرن تب آیا‘ جب بارک اوباما نے 2009ء میں بطور کمانڈر ان چیف کہا: میں قومی مفاد میں 30 ہزار مزید ٹروپس افغانستان بھجوا رہا ہوں۔ ڈیوڈ کیمرون نے 2013ء میں انوکھی دلیل دی‘ بولے: میرے خیال میں ہمارے ٹروپس بہترین کام کرنے کے بعد اپنا سر اونچا کرکے یہاں سے نکل سکتے ہیں۔ 2018ء میں تھیریسا مے بولیں‘ ہم نیٹو کے افغانستان میں Resolute Support Mission میں 440 مزید فوجی بھیج رہے ہیں۔ پچھلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے2019ء میں سیدھی بات کہی کہ جنگجو ہم سے ڈیل کر سکتے ہیں۔ بورس جانسن نے 2021ء کے شروع میں 20 سالہ کانفلکٹ پر اپنا فلسفہ یوں پیش کیا‘ طالبان کے پاس اب جیت کا کوئی ملٹری راستہ نہیں ہے۔
تھری ڈی گریٹ سرنڈر نے امریکی صدر جو بائیڈن سمیت سب کے دعوے اور اندازے اُلٹا دیے۔ جب صدر بائیڈن سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کی اپنی انٹیلی جنس کمیونٹی نے تجزیہ کیا ہے کہ افغان حکومت گر جائے گی؟ جواب تھا: یہ سچ نہیں ہے۔ تین لاکھ سے زائد ٹرینڈ فوجی‘ جدید ترین اور تباہ کن ہتھیاروں سے لیس ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ یہ فوجی تاریخ کا سب سے بڑا سرپرائز اور پلٹا ہے۔ اس کی وجوہات پر تو بحث ہوتی رہے گی لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ ایک فوج تو تھی مگر لڑاکا ہرگز نہ تھی۔
اس گریٹ سرنڈر کی تیسری ''ڈی‘‘ مودی ہیں جو سمجھتے تھے کہ اربوں‘ کھربوں انویسٹ کرکے انہوں نے پاکستان کے مغربی بارڈر پر چھوٹے چھوٹے بھارت بسا لئے ہیں‘ کئی سرحدی بھارت۔ اسی وجہ سے مودی ہمیشہ پاکستان کو ''اندر گھس کر مارنے‘‘ کی دھمکی دیتے آئے ہیں۔
آج کل بھارت بہت مصروف ہے‘ گریٹ سرنڈر کے زخم چاٹنے میں۔ عراق وار کے ایک ویٹرن مائیکل پریسنر نے پورا سچ یوں بولا ''ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں۔ اصلی دہشت گرد میں تھا۔ اس ملک کے غریب لوگوں کو‘ دوسرے ملکوں کے غریب لوگوں کو مارنے بھیجا جاتا ہے تاکہ امیر اور زیادہ امیر ہو جائیں‘‘۔
2010ء کے ڈرون حملے میں 13 سالہ پاکستانی بچے کی دادی ماری گئی۔ مغربی ٹی وی کے سوال پر بچے نے کہا ''مجھے اب نیلا آسمان پسند نہیں‘ گرے پسند ہے۔ جب آسمان گرے ہوتا ہے تو ڈرون نہیں اُڑتے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں