"ABA" (space) message & send to 7575

محفوظ شہید کے لہو کی خوشبو

گائوں میں وہ عجیب دن تھا۔ جون کا مہینہ‘ شدید ترین گرمی‘ ایسی گرمی جس کے بارے میں پوٹھوہاری زبان میں کہتے ہیں 'کوے کی آنکھیں باہر نکل رہی تھیں‘۔ گائوں کی عورتیں ایک گھر کے آنگن میں سوگوار بیٹھی تھیں جبکہ مرد گائوں کے قبرستان سے ذرا ہٹ کر ایک نئی قبر کھود رہے تھے۔ قبر تیار ہوئی تو کچھ لوگ اس گھر کی طرف چل پڑے جہاں سوگوار خواتین جمع تھیں۔ تھوڑی دیر میں ایک چارپائی جس پر سفید چادر ڈالی گئی تھی‘ اُسے پرانے قبرستان میں پہنچایا گیا جہاں پہ ایک پرانی قبر کو پھر سے کھودنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ لوگ گھبرائے ہوئے تھے‘ کچھ بحث کررہے تھے کہ اتنے عرصے بعد اس طرح کے موسم میں میت کو باہر نہیں نکالنا چاہئے۔ نہ جانے اندر کی کیفیت کیا ہو۔
یہ جمعہ کا دن تھا‘ گائوں کے ارد گرد کی بستیوں سے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ پرانی قبر میں چھ مہینے 13 دن پہلے ایک میّت دفنائی گئی تھی۔ سخت دھوپ میں قبر کشائی ہوئی تو لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے وہاں سایہ کر لیا اور ہلکی سی پھوار بھی گرنے لگی۔ باہر گائوں میں چاروں طرف دھوپ تھی مگر قبرستان پہ سایہ تھا۔ جب قبر کی مٹی ہٹائی گئی تو ایسی انوکھی خوشبو آئی جو اس سے پہلے نہ کسی نے محسوس کی اور نہ اس کے بارے میں سنا تھا۔ تابوت کو قبر سے نکالنے کیلئے اس کے نیچے جن لوگوں نے ہاتھ ڈالے اُن کے ہاتھ خون سے لت پت ہو گئے۔ تابوت کو قبر سے باہر نکال کر چارپائی پر رکھا گیا۔ تب تک متعدد قریبی دیہاتوں سے تین‘ چار ہزار کا مجمع جمع ہو چکا تھا۔ کسی نے کہا کہ تازہ خون کے قطرے چارپائی سے زمین پہ نیچے گر رہے ہیں‘ فوراً قریبی گھر سے پلیٹ منگوا کر خون کے قطروں والی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
پہلے گائوں والوں کا پروگرام یہ تھا کہ میت قبر سے نکال کر چارپائی کے ذریعے فوری طور پر دوسری قبر میں دفنا دی جائے گی لیکن جونہی خوشبو پھیلی اور لوگوں نے صحیح سلامت تابوت سے تازہ خون کے گرتے ہوئے قطرے دیکھے تو اُن پر ایک اور کیفیت چھا گئی اور سب اس جری جوان کی محبت میں سرشار ہو گئے۔ مرحوم کا بھائی محمد معروف 1971ء کی جنگ میں اگلے محاذ پر تھا مگر آج اُسے کرنل کمانڈنٹ نے خصوصی طور پر گائوں بھیجا تھا تاکہ اُس کے بھائی کی میّت کو عام قبرستان سے علیحدہ جگہ پر دوبارہ دفنایا جا سکے۔ معروف نے بزرگوں سے درخواست کی کہ وہ بھائی کی تدفین میں شریک نہیں ہو سکا تھا اس لئے اُسے بھائی کا چہرہ دیکھنے کی اجازت دے دیں۔ جن لوگوں نے چھ ماہ 13 دن پہلے میت کو دفنایا تھا‘ انہوں نے اس کا چہرہ تازہ شیو شدہ دیکھا تھا جبکہ آج مرحوم کے چہرے پر ڈھائی تین انچ بڑھی ہوئی داڑھی کے بال تھے۔ چہرے کے ارد گرد عرصہ پہلے جو پھول میت پر رکھے گئے تھے‘ وہ ایسے تروتازہ تھے جیسے کسی نے ابھی انہیں پودے سے توڑ کر میت کے احترام میں رکھا ہو۔
لاء پریکٹس شروع کرنے کے بعد میں اپنے آبائی گھر کہوٹہ جانے کیلئے پہلی مرتبہ اکیلا اس گائوں میں سے گزر رہا تھا جس کا نام پنڈ ملکاں ہے۔ میری آبائی یو سی ہوتھلہ دریائے سواں کی دوسری جانب اس گائوں سے جُڑی ہوئی ہے جس کا پہلا بازار آڑی سیداں ہے۔ آڑی سیداں میں سے گزرنے والی سڑک کے بائیں طرف اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کا علاقہ آتا ہے جبکہ اس کی دائیں جانب تحصیل کہوٹہ‘ پنجاب کا پہلا گائوں یو سی ہوتھلہ ہے۔ پوٹھوہار کے ہر دوسرے گھر میں پچھلی تین چار نسلوں سے یا کوئی شہید پایا جاتا ہے‘ یا کوئی غازی۔ اس لئے یہاں کے لوگوں کی روحانی کیفیت کا اندازہ لگانے کیلئے اس مارشل علاقے کی رہتل اور وسیب کو جاننا ضروری ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ میرے خاندان کے نانکا سائیڈ پر کلیام اعوان اور چونترہ جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر سنگھوری گائوں آتا ہے جو کیپٹن سرور شہید نشان حیدر کی ابدی آرام گاہ ہے۔ میں نے لاء آفس کے منیجر چودھری شبیر کو پنڈ ملکاں چلنے کیلئے کہا‘ جاپان روڈ سے اتر کر تھوڑی دیر بعد ہم لانس نائک محمد محفوظ شہید نشان حیدر کے مزار پر ادب سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ مادرِ وطن کا ایک ایسا شہید بیٹا جس نے قیامت تک کیلئے ہمارے سر فخر سے بلند کر دیے۔
لانس نائیک محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944ء کو پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے۔ تب یہ علاقہ راولپنڈی تحصیل کا حصہ تھا۔ پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں محفوظ شہید نے بے لاگ اور بے پناہ بے جگری کے ساتھ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔ دسمبر 1971ء میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا تو پاک فوج نے اپنی کارروائیاں 16 دسمبر کو روک دیں مگر بھارت کی مکار عسکری قیادت نے پل کنجری کا جو علاقہ پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا اسے واپس لینے کیلئے 17اور 18دسمبر کی درمیانی شب بڑے ہتھیاروں سے زبردست حملہ کردیا۔ اُس وقت لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی پلاٹون نمبر تین ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے تھی؛ چنانچہ اُنہیں ان خودکار ہتھیاروں کا پہلے سامنا کرنا پڑا۔ دشمن کی گولہ باری میں محفوظ شہید نے ایڈوانس جاری رکھی۔ اسی دوران ان کی ایک ٹانگ گولہ لگنے سے جسم سے علیحدہ ہوگئی۔ آخری سانس اور آخری گولی تک آگے بڑھتے ہوئے محفوظ شہید خالی ہاتھ دشمن کے بنکر میں جا گھسے۔ جہاں سے خودکار ہتھیار سے پاکستانی فوج پر فائر کرنے والے ہندوستانی سولجر کو گردن سے دبوچ لیا۔ لانس نائیک محفوظ شہید نے ایسی حالت میں جامِ شہادت نوش کیا کہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن ان کے ہاتھوں میں تھی اور دشمن کے ارادے اور گردن دونوں چکنا چور ہوچکے تھے۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی بہادری کا اعتراف ہندوستانی فوجیوں نے بھی کیا۔ شہادت کے بعد 23 مارچ 1971ء کو انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ٹکا خان‘ جن کا گائوں میرے گائوں سے ذرا آگے ہے‘ خود شہید کے مزار پر سلامی دینے آئے اور اُن کے گھر اہلِ خانہ کے ساتھ فاتحہ خوانی بھی کی۔ تب سے اس گائوں کا نام پنڈ ملکاں سے تبدیل کرکے محفوظ آباد رکھ دیا گیا۔
جنگ کے بعد محفوظ شہید کے ساتھ لڑنے والی دشمن کی فوج تین لائٹ انفنٹری سکھ رجمنٹ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل پوری‘ جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا‘ نے بتایا کہ جب یہ معرکہ ختم ہوا تو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے محفوظ شہید کے جسدِ خاکی کے حصوں کو اُٹھا کر کے احترام سے جمع کیا۔ کرنل پوری کے الفاظ میں: میں نے اپنی ساری زندگی اور اپنی پوری فوجی سروس کے دوران لانس نائیک محمد محفوظ شہید سے زیادہ بہادر جوان نہیں دیکھا۔ کرنل پوری نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ جوان میری فوج میں ہوتا تو میں اسے بھارتی فوج کا سب سے بڑا اعزاز دیتا۔
قرآن میں مالکِ ارض و سماء نے فرمایا: شہید زندہ ہوتے ہیں۔ اس کا عملی تجربہ کرنے کیلئے اپنے علاقے کے شہید فوجی کے مزار پر حاضری دیجئے۔
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسین پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں