"ABA" (space) message & send to 7575

فالو دی ڈالر

شکریہ پانامہ لیکس کا، جن کے بعد اس جملے کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی کہ جہاں بہت بڑا مال ہوگا، اُس کے پیچھے بہت بڑا جرم چھپا ہوگا۔ اصل میں یہ پانامہ 2 تھا، جس نے ساری دنیا کے ڈالر بازوں کو ایک ہی حمام میں لا کھڑا کیا۔ بڑے شہزادے، بڑے لیڈر، بڑے بڑے ریاستی اور حکومتی عہدیدار، سب قطار اندر قطار، سرکاری جُبّہ اور اقتدار کی دَستار سے محروم ہوکر بے لباس ہوئے۔
پانامہ1 سال 1968 میں شروع ہوا تھا، جب نیشنل گارڈ کے ایک اہلکار نے منی لانڈرنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔ یہ اہلکار 1983 سے 1989 تک پانامہ کا خود ساختہ صدر بنا رہا، مینوئیل اینٹونیو نوریگا مورینو۔ یہ منی لانڈرنگ کا بادشاہ کہلاتا تھا، جس نے پانامہ میں ہلاکت خیز ہتھیاروں کا بزنس بھی شروع کیا۔ صدر اینٹونیو نوریگا کی منی لانڈرنگ اور ڈرَگ ٹریڈ کے تین ملکوں میں ٹرائل ہوئے: فرانس، امریکہ اور پانامہ۔ صدر اینٹونیو نوریگا کو پہلی بار 3 جنوری 1990 کو گرفتار کیا گیا، تب وہ جنرل نوریگا بن چکا تھا۔ اُسے 40 سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ اُسی کے دورِ حکومت میں امریکہ نے پانامہ پر فوجی چڑھائی کی اور اُسے گرفتار کرکے عدالت کے کٹہرے تک کھینچ لایا گیا۔
مغربی دنیا میں کرائم انویسٹی گیشن کی رپورٹنگ کے لیے مخصوص، جرنلزم کے سیکشن میں یہ پرانی کہاوت مشہور ہے، ''Follow the Money‘‘۔ اس لیے جب بھی کوئی سیاسی سکینڈل سامنے آتا ہے، سٹاک مارکیٹ کا فراڈ یا اکنامک کرائم سرزَد ہو یا پھر دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ چِھڑ جائے۔ ایسے میں Follow the Money کا فارمولا لگائیں، یعنی آپ ڈالر کا پیچھا کریں تو انویسٹی گیٹو جرنلسٹ کہتے ہیں آپ کو مجرم کا کُھرا مل جائے گا۔ اِن دنوں بھی مغرب کے بہت سے صحافتی ادارے اور افراد افغانستان کی 20سالہ جنگ میں ڈالر کو فالو کرنے کے فارمولے پر ناصرف تحقیقاتی کام کررہے ہیں، بلکہ بہت کچھ لکھ اور بول بھی رہے ہیں۔ ظاہر ہے 20 سال تک47 ممالک جس جنگ میں شریک رہے، اُس پر بات صرف رپورٹنگ کی حد تک محدود نہیں ہوسکتی بلکہ کتابیں اور فلمیں بھی آئیں گی۔
افغانستان کی جنگ میں 2.26 کھرب ڈالر سے زیادہ کا خرچہ ہوا یعنی تقریباً ایک دن کا 300 ملین یو ایس ڈالر۔ ایک اہم اور دلچسپ سوال اس جنگ کے پس منظر سے اُٹھ کر یہ سامنے آیا ہے کہ آخر اتنے سارے ڈالر گئے کہاں؟ مغربی صحافیوں نے پورا حساب کتاب لگاکر اپنی فائنڈنگ دی ہے کہ یہ پیسہ افغان باشندوں کے پاس تو یقینی طور پر نہیں ہے کیونکہ افغانستان کے 90 فیصد لوگ ایک دن کے 2 ڈالر سے بھی کم پہ گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کے کئی صدر صاحبان، امریکہ کے ہی ٹیکس پیئرز کے ڈالرز، افغانستان میں خرچ کئے جانے کے لمبے لمبے قصیدے پڑھتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے جو تحقیقاتی معلومات انویسٹی گیٹو رپورٹرز اب تک سامنے لے کر آئے، وہ خاصی دلچسپ ہے۔ مثال کے طور پہ، اس بِگ منی ٹریل کے اندر ہی بہت سارے مزید ٹریل بنے ہوئے ملتے ہیں۔
پہلا ٹریل: اس موضوع پر جانکاری رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اصل میں ان ڈالرز میں سے زیادہ تر پیسہ امریکہ میں ہی واپس چلا گیا ہے۔ اگلا سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ کیسے؟ جواب ہے ڈیفنس کمپنیز اور یو ایس کنٹریکٹرز کے ذریعے یہ پیسہ واپس پیسہ دینے والوں کے پاس چلا گیا۔ اس حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ یو ایس اے نے بنیادی طور پر افغان جنگ کو آئوٹ سورس کر رکھا تھا۔ وہ اس مَد میں جو فنڈنگ کر رہے تھے، اُس کا زیادہ تر کام پرائیویٹ کمپنیز کو مل رہا تھا۔ ظاہر ہے اس سے مراد ہے امریکی پرائیویٹ کمپنیز‘ جنہوں نے افغانستان میں سب سے بڑے ٹھیکے لے رکھے تھے‘ جن میں ہر طرح کی گاڑیوں کی سپلائی، ایئرکرافٹ، ہتھیار، گولا بارود کی سپلائی اور اے این اے کے فوجیوں کی تربیت شامل ہے اور کسی کمپنی نے کچھ بھی مفت میں نہیں کیا۔ اِن بڑے آپریشنز میں شامل کمپنیز بل پیش کرکے معاوضہ لیتی رہیں۔ ایک اور صحافی نے اسے revolving door قرار دیا، ایک طرف سے پیمنٹ کی گئی، دوسری طرف سے اس ڈور کا سرا یو ایس کمپنیز کے دفتر میں کھلتا رہا۔
دوسرا ٹریل: یو ایس اے کے اندر سے اُٹھنے والی اپوزیشن کی آوازوں کا کہنا ہے کہ نمبرز اس revolving door کی تھیوری کو سپورٹ کرتے ہیں‘ جس میں 5 ٹاپ ملٹری کنٹریکٹرز جیسے کہ لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، نارتھروپ، جنرل ڈائی نیمکس اور رے تھیون کمپنیوں کے نام سرفہرست ہیں‘ جن کو 2001 سے 2021 کے درمیانی عرصے میں 2.02 کھرب ڈالر پبلک فنڈنگ کی صورت میں ملا۔ ایسے میں اس کانفلکٹ کے اصل فاتح امریکی بزنس مین ہی ظاہر ہوتے ہیں۔
تیسرا ٹریل: یہ ٹریل امریکن سٹاک کی خریداری کا حال دیکھ کر پتہ چلتا ہے جہاں 9/11 کے7 دن بعد، یعنی 18 ستمبر2001 کو کسی نے بڑی کمپنیوں میں ایک ہزار ڈالر کا سٹاک خریدا تو کسی بھی دوسری کمپنی کے سٹاکس سے اُسے 20 سال میں 10 گنا زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس منافع کو ذہن میں رکھیں تو نیٹو افغان کانفلکٹ 20 سال تک گھسیٹنے کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں‘ جن کا تعلق کارپوریٹ وار کی دنیا سے ہے۔
چوتھا ٹریل: اس بارے میں اگرچہ اور بہت سے Whistle blowers کوشش کرتے رہے کہ معاملے کی نشاندہی ہو سکے لیکن وکی لیکس کے بانی جولین اَسانج جتنا رِسک کوئی نہ لے سکا۔ مسٹر اَسانج نے 2011 میں نیٹو افغان کانفلکٹ کے بارے میں انوکھی بات کی، ''افغانستان کو محکوم کرنا مقصد نہیں ہے۔ اصل مقصد افغانستان کے ذریعے پیسے کو امریکی اور یورپی ٹیکس بیس سے باہر نکال کر افغانستان سے ہوتے ہوئے واپس بین الاقوامی سکیورٹی ایلیٹس کی جیبوں میں ڈالنا ہے‘ یعنی مقصد یہ ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہو، کامیاب جنگ نہیں‘‘۔
امریکہ نے اس کانفلکٹ کے دوران ایک خاص ایجنسی افغان ری کنسٹرکشن کے حوالے سے بنائی، جس کا نام Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction رکھا گیا‘ جس نے سال 2018 میں آن گرائونڈ سٹڈی اور تحقیقاتی کوششوں پر ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں یہ تہلکہ خیز انکشاف سامنے آیا کہ تقریباً 15 ارب یو ایس ڈالر غبن ہو گئے ہیں، فراڈ اور ویسٹیج کے ذریعے سے۔ اس فنڈ میں ملٹری خرچہ شامل نہیں تھا، بلکہ سڑکیں، ڈیم اور گورنمنٹ بلڈنگز وغیرہ کی تعمیرات پر یہ بھاری رقم ایلیٹ طبقات کی جیبوں میں چلی گئی۔
نیٹو افغان کانفلکٹ میں مودی نے جو چھلانگ لگائی تھی، اُس کے نتیجے میں بھارت عشروں تک اپنے زخم چاٹتا رہے گا۔ پاکستان نے ایک بار پھر ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر عالمی کردار ادا کیا۔ انٹرنیشنل اداروں اور دُور دیس کے ملکوں سے آئے شہریوں، مغربی ڈپلومیٹک کور کے ارکان کو سَیف ایئر ٹریول کوریڈور اور عین حالتِ جنگ میں اپنے فلیگ کیریئر ہوائی جہاز فراہم کرکے۔ بھارت جو افغانوں کا ہمدرد بن کر پاکستان میں 20 سال سے وحشت گری کرواتا رہا، اُسے رات کے اندھیرے میں سلیپر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
اگر کوئی پاکستانی انویسٹی گیٹو جرنلسٹ تہلکے کا بھی تہلکہ دریافت کرنا چاہے، تو وہ پچھلے 20 سالوں میں بھارت کی طرف سے افغانستان میں پھینکے گئے ڈالرز کو فالو کرے۔ یقینا بھارت کے اس بڑے سرمائے کے پیچھے انسانیت کے خلاف بہت بڑے جرائم چُھپے ملیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں