"ABA" (space) message & send to 7575

Criminals in Politics…(1)

اپنے ہاں تو انتظار فرمایئے کی پالیسی چل رہی ہے۔ فادر آف دی نیشن حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کے بعد سے اب تلک‘ گھوم پھر کر انتظار فرمائیے پھر آجاتا ہے۔ آٹوکریٹ‘ ٹیکنوکریٹ‘ ڈیموکریٹ‘ اسلامسٹ‘ مارشل لائی لیڈرز‘ صدارتی نظام‘ ماڈرن امپورٹڈ چیف ایگزیکٹوز‘ سب آتے رہے‘ چلے جاتے رہے اور اُن میں سے کچھ پھر نہ آئے‘ مگر انتظار فرمائیے مُڑ مُڑ کے آتا رہتا ہے۔
معاشی انصاف اور رُول آف لاء کی دنیا میں مسئلے کی بنیاد‘ یعنی روٹ کاز کہاں ہے‘ کیا ہے؟ شاید ہی ہم میں سے کوئی نہ جانتا ہو‘ لیکن اس کھلی سچائی کو بیان کرنے کی راہ میں بھی نظریہ ضرورت ''انتظار فرمائیے‘‘ کا بینر پکڑے ہمیشہ کھڑا نظر آتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں باریک جرائم‘ سنڈیکیٹڈ کرائم اور آرگنائزڈ جرائم کے تانے بانے کہیں نہ کہیں پہنچ کر ریاستی طاقت کے مراکز سے ضرور ملتے ہیں یعنی وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے۔ اسی لئے مغربی دنیا نے ترقی پذیری سے آگے نکل کر ترقی یافتہ ویلفیئر سٹیٹ کی سٹیج تک پہنچنے کے لئے قانون کے لانگ آرم کی مدد سے لانگ جمپ لگایا تھا‘ جس کے ذریعے کریمنلز اِن پالیٹکس پر ریاست نے بھاری ہاتھ ڈالا اور ریاست کے مقابلے میں آلٹرنیٹ اکانومی کی دنیائے جرائم کو تخت سے تختے پر پہنچا دیا۔ اس کی بے شمار مثالیں مغربی دنیا سے ہی پیش کی جا سکتی ہیں۔ امریکہ کا ایل کپون ہو یا کولمبیا کا پابلو ایسکوبار‘ پانامہ کا مینوئل اینٹونیو نور یگا مورینو‘ نیو یارک کی پانچ اٹالین کرائم فیملیز‘ امریکہ کا بَگزی سیگل‘ سسلی کا لکی لوچیانو‘ امریکہ کا جان گوٹی‘ اٹلی کا ویٹو جینوویز‘ اٹلی کا فرینک کاسٹیلو‘ شکاگو کا ٹونی اکارڈو‘ امریکہ کا سیم جیا نکانہ‘ نیو یارک کا پال کاسٹیلانویا‘ امریکہ کا فرینک لوکس۔
اوپر لکھے ہوئے ناموں میں بہت سے نام ایسے ہیں جو اپنے ملک کی پارلیمان‘ کئی ایک وزارتوں بلکہ ریاست کی صدارت کے عہدے تک بھی جا پہنچے مگر ریاست کی رٹ نے اُنہیں پسِ دیوارِ زنداں پہنچا کر سیاست سے کِک آئوٹ کر ڈالا۔ ہم اگرچہ ابھی تک انتظار فرمائیے کے فیز سے آگے نہیں بڑھ سکے لیکن پڑوسی ملک بھارت میں سپریم کورٹ نے تین مقدمات میں ایسے فیصلے صادر کئے جن کو ریاست کی اعلیٰ ترین سیاست کو ڈی کریمنلائز کرنے کے اہم لینڈ مارک اقدامات کہا جا سکتا ہے۔
یہ سفر کریمنل اپیل نمبر1714 اور 1715 آف 2007ء سے شروع ہوا جب سپریم کورٹ آف انڈیا کی سو ل اوریجنل جُورسڈکشن میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی۔ پھر 2011ء میں کریمنل رٹ پٹیشن نمبر2008 فائل کی گئی جس کے بعد 2015ء میں سول رٹ پٹیشن نمبر800 کے ساتھ اکٹھا کرکے چیف جسٹس شری دیپک مشرا نے یوگندرا کمار جیسوال بنام سٹیٹ آف بہار نامی مقدمے میں تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس کی بنیاد یوں رکھی گئی ''ملک کے وہ کانسٹی ٹیوشنل افراد اور ادارے جنہوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے کہ وہ پرنسپلز آف کانسٹی ٹیوشن کو مقدس ذمہ داری سمجھ کر اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ملک کے موجودہ سیاسی فریم ورک پر شیطانی قسم کی کرپشن کا داغ نہ لگے‘ مگر ہمارے آئین میں دیے گئے بھاری مینڈیٹ کے مطابق انڈین ڈیموکریسی جو دنیا میں سب سے بڑی ڈیموکریسی ہے‘ کی ریاستی سیاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کریمنلائزیشن کا درجہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ نہ رُکنے والے آگے بڑھتے ہوئے ٹرینڈ آف کریمنلائزیشن اِن پالیٹکس کے مظاہرے کھلی آنکھ سے ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس ٹرینڈ نے سوسائٹی میں آئینی ابہام پیدا کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اب یہ انڈین ڈیموکریٹک فارم آف دی گورنمنٹ کی بنیاد اور جڑوں پر بھی حملہ آور ہے۔ اس کا نتیجہ انڈین شہریوں کے خلاف ملک کے چند مجرموں کی طرف سے تکلیفوں میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ آف انڈیا میں اس مقدمے کی شنوائی کے دوران عدالت نے آبزرویشن دی کہ کریمنل ریکارڈ رکھنے والے بہت سے لوگوں کے پالیٹکس میں آ جانے کی وجہ سے قومی ادارے ہیجان اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں کیونکہ ملک میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت میں آئینی مقدمات لڑنے کے لئے مشہور اور اُس وقت کے اٹارنی جنرل آف انڈیا مسٹر کے کے وینو گوپال نے عدالت سے گزارش کی کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کو جوڈیشل سٹیٹس مین شپ کا کردار ادا کرنا ہو گا۔
دوسری جانب بھارت کے بڑے قلم کار اور علمی اشرافیہ بھی کریمنل اِن پالیٹکس کے رجحان سے پریشان ہے‘ لیکن اس پریشانی میں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے بلکہ قوم کے ایک زندہ فرد کی حیثیت سے اپنے قلم کو بحث مباحثے یا وقتی فائدے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اپنا عملی کردار ادا کررہے ہیں‘ جس کی بڑی مثال Milan Vishnav کی لندن کے Yale University press سے چھپنے والی کتاب : When Crime Pays: Money and Muscle in Indian Politics سے ملتی ہے۔ مسٹر Milan Vishnav نے لاء میکرز اور لاء بریکرز کا عنوان باندھ کر انڈیا کی بڑی سیاسی اشرافیہ کو بہادری سے ایکسپوز کیا۔ اس کتاب میں دی پَزل آف انڈین ڈیموکریسی اور انڈیا کا کرپشن ایکو سسٹم باب میں اپنے ملک کی سیاست کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔
آپ اسے تکرار نہ سمجھیں بلکہ اصرار کہہ لیں کہ اپنے ہاں ایسی تحقیقاتی کتابوں اور مضامین کا دورِ انتظار فرمائیے گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کتاب میں بڑے دلچسپ پیرائے میں 2014ء کے انڈین جنرل الیکشن کے فیکٹس اینڈ فِگرز پیش کئے گئے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے 2014ء والے جنرل الیکشن دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریٹک ایکسرسائز تھی جس میں پولنگ کا عمل نو دن تک جاری رہا۔ یہ نو دن چھ ہفتوں میں پورے کئے گئے۔ اس دوران 554 ملین ووٹرز نے لمبی لائنوں میں لگ کر نو لاکھ پولنگ سٹیشنز پر اپنا بیلٹ پیپر کاسٹ کیا۔ ووٹ مانگنے والے 8,251 امید وار تھے جو 464 پولیٹیکل پارٹیز کی نمائندگی کررہے تھے۔
مصنف نے اس دور کا ذکر کیا جب بھارتیہ جنتا پارٹی اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی اور رُولنگ انڈین نیشنل کانگریس کی دوسری ٹرم اِن آفس چل رہی تھی۔ اس دور میں کرپشن کے سکینڈل کی سیریز چل نکلی۔ کانگریس کے مقابلے میں انتہا پسند ہندوئوں کو خوش کرنے والا مودی بی جے پی کی الیکشن مہم کو لیڈ کر رہا تھا۔ مصنف نے موضوع سے 100 فیصد انصاف کیا ہے۔ اس سے عشروں پہلے 1931ء میں نیویارک‘ یو ایس اے پر گینگ آف کریمنلز کی حکمرانی تھی۔ اس زمانے میں برکلین کے بوٹ لیگر سیلواٹور مارنزانو نے کھلم کھلا اٹالین امریکن کریمنل مافیا کو آرگنائز کیا‘ جس میں امریکہ کے بااثر سیاست کار بھی شامل تھے۔ سیلواٹور نے اپنے آپ کو ''Capo de tutti capi‘‘ ڈکلیئر کیا‘ جس کا مطلب تھا‘سارے باسز کا باس۔
اسی تناظر میں پاکستانی سیاست کے کئی نام کچے کے ڈاکوئوں کی پشت پناہی میں اتنے آگے چلے گئے کہ ان ڈاکوئوں نے اپنے باسز کو فخر کے ساتھ 'پکے‘ کا ڈاکو کہنا شروع کردیا۔ وہ ہیں کون؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں