"ABA" (space) message & send to 7575

مسلم بیا نیے کی جیت …(3)

قادسیہ کے میدانِ جنگ سے اُبھرنے والے مسلم قومی ترانے صرف قادسیہ کی فتح کے جنگی گیت نہیں تھے بلکہ یہ عالمِ انسانیت کے مستقبل کو ری شیپ کرنے کے کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کے نقطہ آغاز کا اعلان بھی تھا‘ بلکہ ایسا بڑا بیانیہ جس نے بالادست دو سپر طاقتوں کے تخت و تاج کو تاراج کرکے رکھ دیا۔ اس کا ری ایکشن جنگِ یرموک کی صورت میں جلد سامنے آگیا۔ قادسیہ کے میدان سے قادسیہ النصر‘ یعنی قادسیہ کی فتح‘ میرا انتظار کرنا‘ ہم آئیں گے‘ قبلہ اوّل اور حق کے غلبے تک لڑتے جائیں گے‘ ان عنوانات سے بہت بڑے پیمانے پر نیا شعری لٹریچر بھی سامنے آیا۔ اس طرح پہلی بار جزیرہ نما عرب سے نکل کر مسلم بیانیہ اُس وقت کی دوسری سپر پاور کے پرخچے اُڑانے میں کامیاب ہوگیا‘ یہ تھی فارس کی شہنشاہی۔
قادسیہ کے میدان میں دوسرے دن کا آغاز میدانِ قادسیہ کے مشرق والی سائیڈ پر 500 قبریں کھودنے سے ہوا‘ جہاں پچھلے روز کے شہدائے جنگ کو سپرد خاک کیا گیا۔ اس تدفین سے پہلے رات بھر غازی فوجیوں کی مرہم پٹی لشکر میں شامل خواتین اور طبیب کرتے رہے۔ جوں ہی شہیدوں کی تدفین مکمل ہوئی‘ اسلامی لشکر اور ایرانی فوجیں‘ دونوں دوسرے دن کی لڑائی لڑنے کیلئے آمنے سامنے صفوں کی ترتیب میں لگ گئے۔
جنگِ قادسیہ میں دوسرے دن کا معرکہ شروع ہونے سے پہلے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری بھی آگئی تھی‘ یہ تھی خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کی طرف سے ملک شام سے قادسیہ کی طرف روانہ کئے گئے لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر۔ شام کے اسلامی لشکر کے امیر ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے ہاشمؓ بن عتبہ کی سربراہی میں یہ لشکر عراق کی طرف بھجوایا تھا‘ جس کے مقدمۃ الجیش یعنی ایڈوانس فورسز پر قعقاعؓ بن عمرو کماندار مقرر ہوئے تھے‘ جن کی قیادت میں ایک ہزار ایڈوانس فوجی صبح سویرے قادسیہ کے میدان میں آن پہنچے۔
اس ایڈوانس بریگیڈ کا فوجی مورال اور جذبۂ جہاد کس عروج پہ تھا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قعقاعؓ بن عمرو نے سعد بن ابی وقاصؓ کو اپنی حاضری کی رپورٹ دی‘ اُس کے ساتھ ہی جلدی جلدی بڑے لشکر کی کمک جلد آجانے کی خوشخبری سناکر نہ تو آرام کیا اور نہ ہی کوئی لمبی بات چھیڑی بلکہ یہ مجاہد فوراً اجازت لے کر خود میدان جنگ میں جا نکلا اور سپاہ فارس سے مقابلہ کرنے کے لیے مبارز طلب کیا۔ مبارز کا مطلب ہے مخالف فوج کا ایک ایسا کمانڈر جو اُن سے ون آن ون لڑائی لڑ سکے۔ ایرانی فوج کی طرف سے اُن کے معروف کمانڈر اور پہلوان بہمن جادویہ کو میدان میں اُتارا گیا۔ دونوں کمانداروں نے فنِ حرب و ضرب اور میدانِ سپاہ گری کے دائو پیچ دکھانا شروع کئے لیکن عمرو کی مہارت اور برق رفتاری کے آگے بہمن جادویہ کی ایک نہ چلی۔ تھوڑے سے وقت میں ایرانی فوج کے اہم ترین کمانڈروں میں سے ایک کٹے ہوئے چارے کی طرح زمین پر ڈھیر ہوگیا۔
اس زمانے کی لڑائی میں ہاتھی کا وجود ایسے ہی تھا جیسے آج کے زمانے کا کوئی سپریم ٹینک۔ اس لئے بہمن جادویہ کے کٹ گرنے کے ساتھ ہی رستم فرخ زاد نے چن چن کر بہترین جنگجو آگے کئے مگر وہ گوشت کی ڈھیریاں بنتے چلے گئے۔ کئی مقابلوں کے بعد ایرانی فوج نے جنگ قادسیہ کے پہلے روز کے اپنے سب سے کامیاب ہتھیار‘ ہاتھیوں سے حملہ شروع کردیا۔ دوسری جانب ہاشمؓ بن عتبہ کو خبر پہنچی کہ جنگ کا میدان گرم ہوچکا ہے اور بڑے زوروشور سے لڑائی جاری ہے۔ ہاشمؓ بن عتبہ جنگ کے میدان کی سٹریٹیجی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اُنہوں نے دونوں فوجیں ٹکرا جانے کا احوال سنا تو اپنی قیادت میں آنے والے چھ ہزار کے لشکر کو چند 100 پر مشتمل چھوٹی چھوٹی چھاپہ مار ٹولیوں کی شکل میں تقسیم کردیا۔ ان چھوٹی بٹالینز کو حکم دیا گیا کہ وقفے وقفے سے ایک ایک بٹالین اونچی آواز میں تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جنگ میں ایرانی فوج پر حملہ آور ہو۔
ہاشمؓ بن عتبہ کی سٹریٹجی بڑی کامیاب ثابت ہوئی۔ وہ اس طرح کہ شام تک ایک کے بعد دوسرے دستے لشکر اسلام کی صفوں میں نیا ولولہ پیدا کرتے ہوئے نعرہ تکبیر لگا کر داخل ہوتے رہے جس کے نتیجے میں ایرانی فوج اتنی بڑی تعداد میں کمک کے فوجی دستوں کی آمد دیکھ کر حیران سے زیادہ خوف زدہ اور پریشان ہوتی رہی۔ اُن کے خیال میں یہ مختلف علاقوں کے عرب عسکری تھے جو قادسیہ کی لڑائی کا سن کر لشکر اسلام کی مدد کیلئے آرہے تھے۔
جنگ قادسیہ کے یوم ثانی پر اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاصؓ نے ہاتھیوں سے مقابلے کیلئے ایک نئی تکنیک دریافت کی۔ حضرت سعدؓ نے اپنے اونٹوں پر بڑی بڑی جھول نما چادریں ڈالیں جن کی وجہ سے اونٹوں کا سائز ہاتھیوں کی طرح سے ڈرا دینے والا اور مہیب نظر آیا۔ ان عجیب و غریب نئی طرز کے ہاتھیوں کو دیکھ کر ایرانی فوج کے گھوڑے بدک گئے جس کے نتیجے میں جس قدر ہاتھیوں سے اسلامی سپاہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا اُس سے کہیں زیادہ ان مصنوعی ہاتھیوں کے ذریعے ایرانی فوج کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔
جنگ قادسیہ کا دوسرا دن قعقاعؓ بن عمرو کا دن تھا۔ اس رجلِ جری کی تلوار نے آج بہت سے ایرانی سرداروں اور کئی مشہورومعروف شہ سواروں کو قتل کیا۔ رات کے اندھیرے آگے بڑھنے تک بازار جنگ میں گرمی عروج پر رہی جس میں ایک ہزار مسلمان مجاہدوں نے اپنا مقدس لہو ریاستِ مدینہ کے نام کردیا۔ سپۂ اسلام کے مقابلے میں 10ہزار ایرانی فوجی جنگ قادسیہ کے دوسرے دن مارے گئے۔ اس شام ایک ہزار شہادتوں اور بے پناہ غازیوں کے زخموں کے باوجود اللہ کی کبریائی کی تکبیر تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔ آج کی جنگ کا موڈ بتا رہا تھا کل قادسیہ کے میدان میں فیصلہ کن معرکہ لڑا جانے والا ہے۔ تیسری صبح نماز فجر کے ساتھ ہی شہدا کو دفن کردیا گیا اور مجروح مجاہد مرہم پٹی اور آرام کے لیے رُک گئے لیکن پچھلی رات دو مجاہد‘ قعقاع اور عاصم سر جوڑ کر بیٹھے‘ اُن کی باتوں میں بار بار فیلِ سفید کا ذکر آرہا تھا‘ جو ایرانی ہاتھیوں کا سردار تھا۔
تیسرے دن کی جنگ کے آغاز پر رستم فرخ زاد نے کسی ایرانی پہلوان‘ شہ سوار اور مبارز کو آگے کرنے کے بجائے فیلِ سفید کو آگے کیا‘ جس پر بجلی کی سی تیزی سے قعقاع اور عاصم حملہ آور ہوئے اور فیلِ سفید کو ڈھیر کرڈالا۔ سفید سردار ہاتھی مارے جانے کے بعد ایک اور ہاتھی پر حملہ ہوا تو وہ زخمی ہوکر میدان میں جان بچا کر بھاگنے لگا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا اور یوں سارے ہاتھی پیچھے مڑے اور ایرانی فوج پر چڑھ دوڑے۔
تیسرے دن کی لڑائی میں چھوٹے چھوٹے وقفے بھی آئے مگر صبح سے لے کر ساری رات جنگ جاری رہی۔ جنگ کی ایسی حیران کن فضا تھی جس میں دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں کو جنگ کا نتیجہ اور حالات کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ گُھپ اندھیرے میں ایک آواز اُبھری جو سارے شور پر بھاری تھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں