"ABA" (space) message & send to 7575

جی!یہ کھلا تضاد نہیں …(آخری حصہ)

چشم دید راوی نے ایک اور کھلا تضاد بھی بیان کر دیا۔ بولے‘ بڑے بھا جی کی جانشین بیٹی کو اپنے ابا جی کی یہ کھلی کھلی عزت افزائی پسند نہ آئی؛ چنانچہ اس کے نتیجے میں راتوں رات سفید لہو نے کالی سیاہی کا فیصلہ دھو ڈالا۔ اگلی صبح کی سفیدی اس شان سے پھوٹی کہ شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزدگی 'دلہن ایک رات کی‘ ثابت ہوئی۔ نون لیگ کے لیڈ ر سہمے سہمے‘ شرمندہ شرمندہ‘ شاہد خاقان عباسی کے کاغذاتِ نامزدگی برائے وزیر اعظم ہاتھوں میں تھامے شاہراہ دستور کے کونے پر اُن کے حق میں میڈیا ٹاک کر رہے تھے۔ دوسری جانب پچھلی رات کا 'شہباز‘ ''ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا‘‘ کی تصویر بن چکے تھے۔ اسے کہتے ہیں وژن۔ جی ہاں! یہ کھلا تضاد بالکل بھی نہیں‘ نہ ہی کوئی اسے ہائوس آف شریف کا یو ٹرن سمجھے۔ جس ڈیل پر 20 اگست 2018ء سے آج تک ہمارے انویسٹی گیٹو تجزیہ کار بول بول کر تھک چکے ہیں اُس کے چند پہلو واشگاف کرنے سے پہلے فالس فلیگ ٹیبل سٹوریز کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گزرے بدھ کے دن ریمارکس پر ہلکی سی نظر ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ریمارکس صحافیوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے حوالے سے مقدمے میں سامنے آئے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہتکِ عزت کے بارے میں مناسب قوانین موجود نہیں ہیں۔ یہاں پہ انگلینڈ میں میڈیا کی آزادی پر بات کرتے ہوئے لوگوں کو موت پڑتی ہے۔ ملک کی آخری عدالت نے غیر سیاسی خاتون جن کے پاس کوئی پبلک آفس بھی نہیں (خاتون اول) کے بارے میں کی جانے والی جنات والی بات کو غیر اخلاقی قرار دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے یو کے اور پاکستان میں ہتکِ عزت کے قوانین کے تقابل کے تناظر میں یہ آبزرویشن بھی دی کہ وہاں ایسی بات پر گھر بیچ کر بھی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ یہاں جھوٹی خبریں دینے والے جو چاہیں کہتے پھریں‘ اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایسی زرد صحافت کی کریڈیبلٹی پر با معنی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نقصان بھی جھوٹی خبریں دینے والوں کا ہی ہوتا ہے۔
خبر اور خواہش کے اس کھلے تضاد کو کچھ لوگوں نے میگا کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے‘ جس کے نتیجے میں فریڈم آف ایکسپریشن پیچھے رہ گیا اور اس کے نام پر دکان داری کے لنڈا بازار لگ گئے۔ ہمہ جہتی بزنس آف دی ڈے کے چند پہلو آزادیٔ اظہار کا منہ چڑا رہے ہیں:
کذبِ اوّل : یہ عدالتی سزا یافتہ اور مفرور سابق وزیر اعظم کو مقتدرہ کی طرف سے واپس تشریف لا کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے منّت ترلا کے تبصروں‘ تجزیوں اور خبروں کے ذریعے سامنے آیا جن میں یہ بھی بتایا گیا کہ نواز شریف صاحب واپس آ کر سیدھے اقتدار میں جا بیٹھنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ بہانہ لگا کر قید سے بھاگا ہوا آدمی بغیر کسی عدالت کا سامنا کیے اس طرح کے خواب نہیں دیکھ سکتا‘ یہ سب جانتے ہیں۔ اس کے باوجود قوم‘ رائے عامہ اور اداروں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسی مہم چلی‘ جس میں مفرور قیدی کے مسخروں نے قیدی کی واپسی کا سال اور مہینہ بھی بتایا جو اب دونوں گزر چکے ہیں۔ جب بے رحمانہ جھوٹ کی انتہا ہوئی تو ایک قومی ادارے کے ڈی جی صاحب کو بولنا پڑ گیا لیکن جہاں بقول نون لیگ نہ شرم ہوتی ہے نہ حیا وہاں کسی بات کی پروا نہیں ہوتی۔
کذبِ ثانی: اب باری تھی سفارشی خدمتِ اعلیٰ سے محروم ہونے والے بلکہ ڈیل اور سفارش والے خادم کی۔ موصوف نے ایک بار آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اُنہیں سڑکو ں پر گھسیٹنے کے اعلان جیسا سچ بولا۔ اُن کے شین لیگ والے جتھے سے گُرگِ باراں دیدہ باہر نکلے اور بے دیدہ وروں نے اُنہیں متبادل قیادت دے کر تقریباً تقریباً انقلاب کی آمد کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان بھی ویسا ہی نکلا جیسا معزول و محروم خادمِ اعلیٰ نے اپنے اشتہاری بھائی کی لاہور لینڈنگ کے وقت کروڑوں لوگ جمع کر کے لاہور کی استقبالیہ تاریخ تہس نہس کرنا تھی۔ پھر یوں ہوا کہ لاہور ایئر پورٹ نے اپنے اوپر اندھیرے کی چادر لپیٹی اور رات کی سیاہی میں کہیں غائب ہو گیا۔ یہی کام لاہور کی سڑکوں نے کیا‘ اس لیے بردرانِ یوسف کی تاریخ تو رقم ہو گئی لیکن شہر لاہور کی استقبالیہ کی تعریف کی تاریخ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔ ہاں البتہ بڑے بھا جی اور اُن کی بیٹی سبکی کے بحرِ مُردار میں ڈوب گئے۔
کذبِ ثالث: اب اسی سلسلے کی تازہ قسط ملک کے نظام کو تبدیل کرنے والی بحث ہے‘ جس کا واویلا اور اُس سے پہلے ایجاد کا سہرا سوشل میڈیا کے اسی قبیل کے فنکاروں کے سر جاتا ہے۔ آناً فاناً سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گئے اور ایسے لگا کہ اب آر یا پار مہینوں اور دنوں کی بات نہیں‘ منٹوں اور سیکنڈز کی بات ہے۔ یہ حق کسی بھی ملک کے عوام کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے کسی بھی طرزِ حکومت والے نظام کا انتخاب کریں۔ ماسوائے کنگڈم‘ فائفڈم‘ شیخ ڈم‘ ڈکٹیٹرشپ‘ سنگل پارٹی سسٹم‘ مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست کی انتہا کے طور پر مذہبی پاپائیت کی حکومت کے۔ پاکستان میں عوام اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدے کا نام ہے آئینِ پاکستان مجریہ 1973۔ اس عمرانی معاہدے کے مطابق پاکستان میں نظامِ سلطنت کے لیے پارلیمانی طرز حکومت چنا گیا۔ یو ایس اے‘ فرانس سمیت بے شمار ملکوں میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بھی ہیں لیکن صدر کا پورے ملک کے تمام یونٹس سے براہِ راست انتخاب ہوتا ہے۔
ظاہر ہے پاکستان میں صدارتی نظام کی خواہش پوری کرنے کے دو ہی ممکنہ راستے ہو سکتے ہیں‘ پہلا راستہ آئین کے اندر سے کھلتا ہے‘ جس کے لیے آرٹیکل 238 اور 239 موجود ہیں۔ ان آرٹیکلز میں دیے گئے آئینی طریقہ کار کے تحت کوئی چاہے تو آئین کی ترتیب بدلے یا آئین کے سارے خد و خال اور سٹرکچر کو ہی بدل ڈالے۔ ظاہر ہے نظامِ حکومت یا سسٹم آف گورننس کو تبدیل کرنے کا آئینی راستہ ایک ہی ہے جو یہی ہے۔ ہاں اگر کوئی مایوس سیاسی اداکار محروم ہو کر اپنی پسندیدہ آواز سننا چاہتے ہیں‘ تو وہ پہلے ملکِ خدا داد کی پانچ ہائی کورٹس اور عدالتِ عظمیٰ پہ نظر ڈال لے۔ 74 سال بعد آج پاکستان کے لوگ اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے جدید ترین ذرائع وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں سانچ کو آنچ نہیں۔ وہ ہم نے پوچھنا یہ تھا کہ نظام بدلنے والے اتنا تو بتا دیں کہ اسے بدل کر صدارتی نظام لانا کون چاہ رہا ہے؟ خواہش کو افواہ بنانا‘ پھر اُسے خبر کے بانس پر چڑھانا وہاں سے اُس پر تبصرے کی پالش کرنا۔ جی! یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں