"ABA" (space) message & send to 7575

اُدھم سنگھ اور مٹی کی محبت… (آخری حصہ)

مٹی کی محبت کا چراغ جلتا رہا اور اُس کے سہارے اُدھم سنگھ نے چھ سال برصغیر سے باہر گزار دیے۔ لندن پہنچنے پر اُسے ایک ورکشاپ میں موٹر مکینک کی نوکری ملی تھی۔ اُدھم سنگھ کی جلاوطنی میں گزرے ہوئے سالوں کے بارے میں مورخین کے پاس زیادہ معلومات نہیں‘ جو تھوڑی بہت معلومات دستیاب ہیں وہ اُدھم سنگھ کی ڈائریوں اور خطوط میں موجود ہیں۔ اپنے خطوط میں (جو اُس نے دوستوں اور کامریڈز کو لکھے تھے) اُدھم سنگھ اصلی پنجابی کے طور پر نظر آتا ہے۔ زبردست sense of humour کا مالک‘ دوستوں اور برطانوی حکومت کو جگتیں لگاتا ہوا‘ زندہ دل اور ہنس مکھ انسان جبکہ اپنی ڈائری میں اُدھم ایک نہایت سنجیدہ‘ متحرک ''کرانتی کاری‘‘ کے روپ میں اُبھرتا ہے۔ یہی ڈائری اُس کا سیاسی منشور بھی ہے اور اپنی مٹی سے محبت کی لازوال داستان بھی۔ برٹش انڈیا کے شہریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی کہانی بھی اور برٹش حکومت سے اعلانِ جنگ بھی۔ اس ڈائری میں ایک نام اُس نے بار بار لکھ رکھا تھا۔ یہ نام اُس شخص کا تھا جو جلیاں والا باغ واقعے کے وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے پر فائز تھا۔ وہ تھا: سر مائیکل فرانسس او ڈوائر۔
سر مائیکل او ڈوائر ایک کیریئر برٹش سول سرونٹ ہونے کے ساتھ ساتھ تاجِ برطانیہ کا خاص آدمی سمجھا جاتا تھا۔ حکومتِ وقت اُس کو ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر سمجھتی تھی۔ اُن دنوں ہندوستان جیسی حساس کالونی کے حساس ترین علاقے متحدہ پنجاب کے لیے بھی ایک تگڑے ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ پنجاب انقلابی خیالات‘ مزاحمتی تحریکوں اور بہادر جاں بازوں کا گڑھ تھا؛ چنانچہ برٹش ایمپائر کو سب سے زیادہ خطرات اسی صوبے میں لاحق تھے۔ ایسے میں جب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو برٹش حکومت کے بڑوں نے سرمائیکل کے نام پر اتفاق کر لیا۔ سر مائیکل 1913ء سے 1919ء تک پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر رہا۔ پُرامن مظاہروں پر بے رحمانہ لاٹھی چارج‘ پُر تشددگرفتاریاں‘ کھلے عام ماورائے عدالت قتل‘ گورنر اوڈوائر کے پنجاب میں یہ سب روز کا معمول تھا۔
اسی تسلسل میں 1919ء میں جب رولیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج بڑھنے لگا تو سر مائیکل نے صوبے بھر میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ جنرل ڈائر نے امرتسر میں قتلِ عام کے بعد جب واقعے کی رپورٹ لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجی تو گورنر نے ٹیلی گرام کے ذریعے اپنے جواب میں قتل عام پر یہ تبصرہ لکھا: ''Your actions were correct. Lieutenant Governer approves‘‘۔ صرف یہی نہیں‘ او ڈوائر نے وائسرائے چیمسفرڈ کے سامنے بھی جنرل ڈائر کے ایکشن کا بھرپور دفاع کیا اور جلیاں والا باغ کے واقعے کو ''ناگزیر‘‘ قرار دیا۔
اُدھم سنگھ سر مائیکل کے ماضی سے بخوبی واقف تھا۔ وہ سر مائیکل کے مارشل لاء کے دوران کئے جانے والے مظالم کا چشم دید گواہ بھی تھا۔ حکومتی سرپرستی میں پُرامن احتجاج کرنے والوں کو کوڑے لگنا‘ سکھوں کے کیس (یعنی پگڑی اور بال) اُتروا کر اُنہیں پیٹ کے بل گلیوں میں رینگنے پر مجبور کرنا‘ مذہبی مقامات و رسومات کی مسلسل بے حرمتی۔ نہ جانے کیا کیا ستم برٹش انڈیا میں ڈھائے جاتے رہے۔ اس لیے اُدھم سنگھ کی ہٹ لسٹ پر سر مائیکل سرِ فہرست تھا۔ کچھ عرصہ تک اُدھم اُس کی ریکی کرتا رہا اور اُس پہ حملے کی پلاننگ بھی۔ پھر اُسے معلوم ہوا کہ مارچ 1940ء میں مائیکل او ڈوائر ایک تقریب سے خطاب کرنے لندن آئے گا۔ یہ فنکشن Caxton ہال لندن میں منعقد کیا جارہا تھا‘ اُدھم نے اُسی روز اٹیک کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ دن تھا 13 مارچ 1940ء‘ قراردادِ پاکستان آنے سے ٹھیک 10 روز قبل۔ اُدھم سنگھ سکون سے چلتا ہوا ہاتھ میں ایک کتاب پکڑے Caxton ہال میں مین دروازے سے داخل ہوا۔ اُس نے سامنے دیکھا جہاں سر مائیکل اوڈوائر برصغیر سے متعلق خطاب کر رہا تھا۔ بات ختم ہوئی تو اُدھم سنگھ سٹیج کی جانب بڑھا‘ کتاب بائیں ہتھیلی پر رکھی‘ اُسے کھولا اور اس میں چھپائے ہوئے ریوالور کو دائیں ہاتھ سے نکالا اور بڑی تیزی سے سر مائیکل پر فائر کردیے۔ فائرنگ کے نتیجے میں سرمائیکل موقع پر ہلاک ہوگیا جبکہ اُدھم سنگھ کے دوسرے اور تیسرے ٹارگٹ‘ سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا لارڈ زیٹلینڈ‘ لارنس ڈنڈاس اور چارلس کا کرن بیلی شدید زخمی ہوئے۔ اُدھم سکون سے کھڑا رہا اور بھاگنے کی کوئی کوشش نہ کی؛ چنانچہ اُسے فوری طور پر گرفتار کرکے جیل منتقل کر دیا گیا۔
یکم اپریل 1940ء کے روز اُدھم سنگھ پہ فردِ جرم عائد کی گئی اور لندن کے مشہور عدالتی کمپلیکس Old Bailey کو مقدمے کے وینیو کے طور پر چنا گیا۔ مقدمہ شروع ہونے سے قبل اُدھم سنگھ نے جیل میں بھوک ہڑتال بھی کی جو مسلسل 42 روز تک جاری رہی۔ اُدھم سنگھ کے خلاف قتل کے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز جون 1940ء میں ہوا۔ اُدھم کی وکالت وی کے کرشنا مینن نے کی‘ جو بعد میں بھارت کے وزیرِدفاع بھی رہے۔
نیلسن منڈیلا کی عدالت میں کی گئی تقریر‘ آج جنوبی افریقہ کے ہر بچے کی زبان پر ہے۔ اس تقریر میں جسے ''I am prepared to die‘‘ سپیچ کہا جاتا ہے‘ منڈیلا نے اپنی سرزمین کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور مادرِ وطن کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کا وعدہ بھی کیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے کٹہرے میں کھڑے‘ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ذو الفقار علی بھٹو کی ''اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ تقریر کون بھول سکتا ہے؟ یہ بھٹو کی جانب سے آمریت کے خلاف final act of defiance تھا‘ جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ اُدھم سنگھ کی عدالتی تقریر بھی اسی پائے کی تھی‘ جب ایک بہادر‘ جانباز‘ آزادی کے متوالے نے برطانوی تاج و تخت یوں ہلا کر رکھ دیے۔
''21 سال تک میں نے (جلیاں والا باغ قتلِ عام کا) بدلہ لینے کا انتظار کیا۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میں موت سے ڈرتا نہیں‘ میں اپنے وطن کی خاطر قربان ہونے جا رہا ہوں۔ میں نے برٹش حکومت کو اپنے لوگوں پر ظلم کرتے دیکھا‘ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کو میں فرض سمجھتا ہوں۔ میرے سامنے تمہارے‘ سزائے موت کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔ میں ایک مقصد کے لیے اپنی جان دے رہا ہوں۔ مجھے برطانوی عوام سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ میں صرف برطانوی ایمپائر کا مخالف ہوں‘‘۔
جولائی31 کے روز‘ سال 1940 میں اُدھم سنگھ کو Pentonville Prison میں پھانسی دے دی گئی۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسے لگا جیسے نیلسن منڈیلا‘ ذوالفقار علی بھٹو اور اُدھم سنگھ کی آوازیں اکٹھی سنائی دے رہی ہیں۔ ان کے سحر میں‘ میں کافی دیر تک Caxton ہال کو دیکھتا رہا۔ پھر اچانک خیال آیا کہ رات کافی ہو گئی ہے‘ اب گھر واپسی کا وقت ہے۔ گھر واپسی کے لیے قریب ٹیوب سٹیشن Westminster پہنچا اور پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ احمد فراز کا یہ شعر ذہن میں آیا ؎
اگرچہ زور ہوائوں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لَو کو سنبھال رکھا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں