"ABA" (space) message & send to 7575

ٹیپو سلطان کی مسکان اور بھارت کے مالکان ؟

کچھ عرصہ قبل بھارتی سیاسی رہنما‘ دانشور اور مصنف ڈاکٹر ششی تھرور نے اپنے انٹرویوز کے ذریعے ایک بڑا اہم سوال اُٹھایا کہ Are some indians more than others? یعنی کیا کچھ ہندوستانی باقی ہندوستانیوں سے زیادہ ہندوستان کے ٹھیکے دار ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی ڈاکٹر تھرور نے اپنی کتاب The Battle of Belonging کے ذریعے دیا۔ اُن کو یقین ہے کہ بھارت اب انتہا پسند لیڈروں کے چنگل میں پھنس گیا ہے جو اپنے آپ کو بھارت کی ہزاروں سال پر محیط تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ کا اکلوتا وارث سمجھتے ہیں۔ عجیب سوچ والے ان لوگوں کے لیے بھارت میں بسنے والی دیگر قومیں بشمول مسلمان foreigner اور alien کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ مسلمانوں کا بھارت کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ اقلیتوں کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنا اور ان کے دل و دماغ میں خوف قائم رکھنا ان انتہا پسند لیڈروں کا مشن ہے۔ تھرور کا یہ نکتہ بے حد اہم اور قابلِ غور ہے مگر اس سوال کو بہتر طریقے سے سمجھنے کیلئے اس مسئلے کا تاریخی پس منظر سمجھنا اور بھی ضروری ہے۔
برصغیر کی تاریخ عظیم بادشاہوں کی مساوات‘ pluralism اور tolerance کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب پارسی (یعنی زرتشت کے پیروکار) پہلی بار ہندوستان پہنچے تو بھارتی گجرات کے ساحلِ سمندر پر اُن کا استقبال ایک گجراتی بادشاہ کے وزیر نے کیا۔ چونکہ دونوں کی زبان ایک نہ تھی تو اشاروں سے گفتگو ہونے لگی۔ گجراتی وزیر نے پانی سے بھرا ہوا گھڑا اُٹھایا اور اُس میں کنکریاں ڈالنا شروع کردیں۔ جب پانی اُس سے بہنے لگا تو یہ نظارہ اپنے مہمانوں کو دکھایا۔ اُس زمانے میں (جیسا کہ اس زمانے میں بھی ہے) بھارتی گجرات کی آبادی بہت زیادہ تھی اور آبادی کے مسائل اُس سے بھی سینکڑوں گُنا زیادہ‘ اس لیے بادشاہ ایک نئی کمیونٹی کو اپنی ریاست میں settle کرنے کا خاص حامی نہ تھا۔ شاہی وزیر کو جواب دینے کے لیے پارسیوں نے اپنا ایک سفیر آگے کیا۔ سفیر نے دودھ سے بھرا ایک پیالہ لیا اور اُس میں شہد ڈالنا شروع کردی۔ نہ دودھ پیالے سے گرا اور نہ ضائع ہوا بلکہ اس کی مٹھاس میں مزید اضافہ ہوا (یعنی پیغام یہ دیا کہ ہم آپ کی مشکلات میں اضافہ کرنے نہیں آئے بلکہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے آئے ہیں) سفیر نے یہی پیالہ اپنے میزبانوں کو پیش کیا تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بادشاہ نے اُن کو گجرات میں آباد کاری کی فی الفور اجازت دے دی۔
یہاں اشوک کا ذکر کرنا بھی اہم ہے‘ جس کی سلطنت افغانستان سے بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی تھی۔ عرفِ عام میں اشوکا دی گریٹ کہلانے والے اس بادشاہ نے مساوی حقوق کے چارٹر ترتیب دیے اور ان قوانین کو بڑے کالمز اور ستونوں پر لکھوایا تاکہ رعایا بادشاہ کے احکامات اور اپنے حقوق اور ذمہ داریاں بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ اشوک کے احکامات یا edicts کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں جنگلی حیات کے حقوق کا بھی ذکر ہے۔ جنگلات کو نقصان پہنچانے اور آگ لگانے کو بھی اس زمانے میں غیر قانونی اور جرم قرار دیا گیا۔ جنوبی بھارت کا تاریخی بادشاہ راجہ راجہ (Rajaraja) جس کا تعلق ''چولا‘‘ (Chola) کے شاہی گھرانے سے تھا‘ عمر بھر تمام مذاہب کے درمیان امن اور سلامتی کا ماحول بنانے میں مصروف رہا۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے دربار تک رسائی دی اور ریاست کے اختیار و اقتدار میں حصہ داری بھی دی۔ اکبرِ اعظم کے خزانے کی کنجی اُس کے نورتن راجہ ٹوڈرمل کے پاس تھی‘ جو ہندو تھا۔ پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی اپنی حکومت اور فوج میں اہم عہدوں پر غیر سکھ فائز کئے اور ملکی معاملات میں اقلیتوں کی رائے کو اہمیت دی۔
آپ یہ سب مثالیں پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ بھارت تہذیبوں کے امتزاج کے مرحلے سے تہذیبوں کے تصادم کی طرف کیسے بڑھا؟ آج کا بھارت عدم برداشت‘ پُر تشدد سیاست‘ اقلیتوں پر مظالم اور مسلمانوں سے ناروا سلوک کے لیے دنیا بھر میں جانا پہچاناجاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہم نے بھارت کے شہر منڈیا میں دیکھی جو ٹیپو سلطان کے میسور سے صرف 45 کلومیٹر دور واقع ہے۔ منڈیا کی بہادر بیٹی مسکان نے ہندوتوا جتھے کی جانب سے ہراساں کئے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی کوشش کو ناکام بنایا اور جان کی پروا کئے بغیر نعرہ تکبیر بلند کیا۔
آج بھارت میں سب سے بڑا یہ سوال ہے کہ وہ کون سی سوچ یا ideology ہے‘ جو مودی کے ہاتھوں بھارت کے آئین اور اس کی تاریخ کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے؟ مودی کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے اس کے سیاسی اور نظریاتی ہیروز کو سمجھنا لازم ہے۔ مودی نے ہمیشہ اپنے بھاشنوں میں تین افراد سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ پہلا‘ ویزوینائیک دامودر ساورکر۔ اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ ساورکر اس وقت بھارت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی سیاسی سوچ کا نام ہے‘ شاید مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے بھی زیادہ۔ ساورکر نے بھی 1947ء سے قبل ہندوتوا کا نعرہ لگایا بلکہ اس موضوع پر کتاب تک لکھ ڈالی۔ بھارت آزاد ہوا تو 1950ء میں اس کا پہلا اور آخری آئین اسمبلی سے پاس ہوا‘ ساورکر نے اس آئین کی شدید مخالفت کی اور اس کے آرٹیکل نمبر ایک میں دی گئی ''بھارت‘‘ اور ''بھارتی‘‘ کی تعریف سے بھی اختلاف کیا۔ ساورکر کے لیے بھارت ہندو ملک تھا اور بھارتی ہندو اس کے اکلوتے وارث۔ باقی تمام قوموں کے لوگ‘ سینکڑوں سال بیت جانے کے باوجود بھی بھارت میں مہاجر ہی تھے‘ اس لیے وہ ''True Indian‘‘ کی definition پر پورانہیں اُترتے تھے۔
ایم ایس گول ولکر‘ مودی کا دوسرا ہیرو ہے۔ گول ولکر RSS کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ فاشزم اور نازی ازم کا کھلاسپورٹر تھا۔ ساورکر کے لکھے لٹریچر سے متاثر ہوکر گول ولکر نے ''ہندو راشٹرا‘‘ کا تصور پیش کیا۔ مودی کا تیسرا ہیرو دین دیال اپادھیائے ہے۔ جہاں ساورکر اور گول ولکر نے ہندوتوا کے نظریے اور سوچ کو بڑھاوا دیا وہیں اپادھیائے نے ان دونوں نعروں کو سیاسی مین سٹریم میں لانے کا کام کر دکھایا۔ اپادھیائے نے بھارتی جنا سنگھ پارٹی کی بنیاد رکھی جو بعد میں بھارتی جنتا پارٹی بن گئی۔ یہی بھارتی جنتا پارٹی اب ہندوتوا کا سیاسی چہرہ اور انتہا پسند ہندو ازم کی سرپرست جماعت ہے۔
تو کیا بھارت اب واقعی صرف اور صرف ہندوتوا کا ہے؟ ڈاکٹر تھرور نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا ''بی جے پی نے بھارت کے بنیادی آئینی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ صرف ہندو ہی اصل بھارتی ہوتے ہیں۔ یہی ساورکر کی سوچ تھی۔ ایک صدی سے زائد بیت جانے کے باوجود ساورکر کے خیالات کی طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے اور اب اربابِ اختیار بھی اسی سوچ کے ذریعے بھارت کا نظا م چلا رہے ہیں۔ ان کا اصل مقصد بھارت کے آئین میں تبدیلی ہے۔ اسی تبدیلی کے ذریعے بی جے پی لفظ ''بھارتی‘‘ کی definition ہمیشہ کیلئے بدل دے گی۔ بھارت کس کا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں اس آئینی تبدیلی کے نتیجے میں نظر آجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بھارت کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوگا‘‘۔ بقولِ اقبال ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا‘ ناپائدار ہو گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں