"ABA" (space) message & send to 7575

(2)…Imran Khan in Russia

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیںجو تیز سے بھی زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے۔میرا پچھلا وکالت نامہ صرف72گھنٹے پہلے چھپا تھا۔ان 72 گھنٹوں میں روس اور یوکرین کاتنازع زبانی اختلاف سے اوپر اُٹھ کر بے رحم جنگ میں تبدیل ہوگیا۔24فروری 2022ء کو تاریخ میں اُس دن کے طور پر یاد کیا جائے گاجب صدر ولادیمیر پوتن نے روسی قوم سے خطاب میں یوکرین پر ''سپیشل آپریشن‘‘کرنے کا اعلان کرتے ہوئے افواجِ روس کو یوکرین کا بارڈر کراس کرنے کا حکم دیا تھا۔اس اعلان کے چند منٹ بعد ہی متعدد یوکرینین شہر‘زور دار دھماکوں سے لرز اُٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام ایئر ڈیفنس سسٹمز‘ اہم ملٹری بیسز اور اسلحہ ڈپو‘روسی میزائلوں اور ایئر سٹرائیکس کے نتیجے میں تباہ ہوگئے۔ خار کیف نامی شہرپر سب سے زیادہ میزائل داغے گئے اور یہاں دونوں اطراف کا شدید جانی نقصان ہوا۔
اب تک موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق روسی فوج یوکرین کے دارالحکومت Kyiv کے مضافات تک پہنچ چکی ہے‘ جہاں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔روسی فوج Kyivمیں قائم فوجی کیمپس اور تنصیبات پر شیلنگ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اپنے خطابات اور اعلانات کے ذریعے اپنی قوم کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اور مزاحمت جاری رکھنے کی تلقین بھی کررہے ہیں۔
جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی مغربی بلاک کے ممالک کا ری ایکشن سامنے آنے لگا۔امریکہ نے روس پر سخت ترین sanctions عائد کردیں۔ساتھ ہی ساتھ‘امریکی صدر جو بائیڈن نے ولادیمیر پوتن کو دنیا بھر کے امن و امان کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔شایدجو بائیڈن کو ایک history lessonکی ضرورت ہے کیونکہ وہ عراق‘ افغانستان‘ لیبیااور شام کی بے سبب جنگوں میں امریکی کردار سے بے خبر نظر آئے۔مزید دلچسپ مگر ظالمانہ لطیفہ یہ ہوا کہ بائیڈن نے پوتن کا احتساب کرنے کا بھی اعلان فرمادیا۔ جہاں امریکی صدر نے سخت رد عمل ظاہر کیا وہیں پہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ''Boots on the Ground‘‘ یعنی امریکی فوج کو یوکرین بھیجنے کے امکان کو رُول آئوٹ کردیا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے روس کو اپنی فوج واپس بلانے کا مشورہ دیا۔اُنہوں نے انسانیت کا واسطہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپ میں ایک اور جنگ نہ شروع کی جائے اور معاملات کو ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن‘ جو آج کل اپنے ملک میں شدید غیر مقبول ہیں‘نے روس کو زبردست جواب دینے کا برملا اعلان کیا مگر تاحال چند sanctionsاور حکومت کی خالی خولی بڑھکوں کے علاوہ برطانیہ کا کوئی عملی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر G7ممالک کا غیر معمولی اور غیر رسمی اجلاس بھی طلب کیا گیاجس میں روس کو سخت رسپانس دینے پر اتفاق کیا گیا۔سخت رسپانس ہوگا کیا‘یہ نہ بتایا گیا اور نہ ہی کوئی جانتا ہے۔
یہ تھے وہ پیچیدہ اور مشکل ترین حالات جن میںوزیر اعظم عمران خان نے سرزمینِ روس پر قدم رکھا۔ عمران خان کے پاس بظاہر دو ہی راستے نظر آرہے تھے‘یا تو اپنے دورے کو مختصر یا کینسل کرکے وطن واپس آ جاتے یا اپنا دورہ شیڈول کے مطابق مکمل کرکے پاکستان واپس لوٹتے۔ دوسرا آپشن اپنانے کی صورت میں یوکرین تنازع پر اپنا رد عمل دینا لازم تھامگر اس سوال کو کیسے tackleکیا جائے‘یہ بے حد اہم نکتہ تھا۔ ظاہر ہے وزیر اعظم عمران خان یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے عالمی لیڈر تھے جو صدر پوتن سے ملاقات کرنے جا رہے تھے۔ ایسے میں یوکرین جنگ پر پاکستان کے موقف کا سوال اُٹھنا طے تھا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے سے بہت کشیدہ ہیں اور امریکی انتظامیہ پاکستان اور چین کی economicپارٹنر شپ سے سخت ناخوش ہے جبکہ دوسری جانب پاک روس تعلقات بھی بہت حساس تھے‘ اور ہیں۔بہت طویل عرصے کے بعد روس پاکستان کے اتنا قریب آیا ہے‘اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا دانشمندی نہ ہوتی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورے کا آغازدوسری جنگ ِعظیم میموریل کے وزٹ سے کیااور وہاں سے وزیر اعظم اپنے وفد کے ہمراہ کریملن پہنچے۔کریملن پہنچنے پر صدر پوتن نے وزیر اعظم کا استقبال کیا اور دونوں لیڈرز کے درمیان میٹنگ تین گھنٹے تک چلتی رہی۔ملاقات ختم ہوئی تو اعلامیہ جاری کیا گیا جس نے پاکستان کا موقف دنیا بھر پہ واضح کر دیا۔وزیر اعظم عمران خان نے یوکرین جنگ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔یہی وزیر اعظم پاکستان کا consistentسٹینڈ رہا ہے اور غیر یقینی فضا میں بھی وزیر اعظم کے موقف کی clarityدنیا بھر میں قابلِ ستائش ٹھہری۔ ساتھ ہی ساتھ‘دونوں ممالک کے روابط کو تیز کرنے پر اتفاق بھی ہوا۔یوں پاکستان نے ایک مشکل مرحلے پہ عالمی سٹیج پر fumbleکرنے کی اپنی دیرینہ روایت توڑ ڈالی۔پاکستان کو ریجنل سیاست میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی balanced approachکی ضرورت ہے۔جن ممالک کی پاکستان نے بے سبب اور بے جا حمایت کی‘انہوں نے پاکستان کو ڈو مور کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری آئے گی؟کیا دونوں ممالک ماضی کی تلخیو ں اور اختلافات کو بھلا کرایک نئے اور مثبت دور کا آغاز کرسکتے ہیں؟جن تجزیہ کاروں کا یہ موقف ہے کہ ایسا ہونا مشکل ہی نہیںناممکن ہے‘روس روایتی طور پر ہمیشہ ہم سے دور اور بھارت کے بہت قریب رہے گا‘بھارت اور روس کا ساتھ دہائیوں کا ہے‘ روس کیسے بھارت کو ناخوش کرے گا اورپاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا؟میں ان کی رائے سے متفق نہیں۔دنیا کی تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ گلوبل سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی نے آپس میں دو عالمی جنگیں لڑیں مگر اب دونوں ممالک ایک دوسرے کے economicاور strategicپارٹنرز ہیں۔جاپان اور امریکہ‘جو کسی زمانے میں ایک دوسرے کے خوفناک ترین مخالف تھے‘اب عالمی سیاست میں پارٹنرز اور ایک ہی بلاک کا حصہ مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ماضی کے حالات و واقعات سے بالا تر ہو کرتیزی سے بدلتی گلوبل صورتحال کے پیشِ نظر‘ ریجنل اور عالمی پارٹنر شپ rethinkکرنا ہوں گی۔ اسی میں پاکستان اور اس کے22کروڑ باسیوں کا بھلا ہے۔
رہی جنگ‘اُس پہ ساحر لدھیانوی کا کہا کافی ہے ؎
خون اپنا ہو یا پرایا ہو‘ نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں‘ امنِ عالم کا خون ہے آخر
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں‘ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سو گ‘ زندگی میّتوں پہ روتی ہے
مشرق و مغرب سے یاد آیایوکرین کے سات ہزار فوجی نیٹو کے ساتھ عراق فتح کرنے گئے تھے۔صدر صدام کی حکومت ختم کی‘ قتلِ عام اور گینگ ریپ میں ملوث ہوئے‘سرزمینِ فلسطین پر چڑھ دوڑنے والے اسرائیل کے بعد یوکرین دوسرا ملک ہے جس کے صدر اور وزیر اعظم دونوں یہودی ہیں جن کی تعداد‘ آبادی کا 0.5 فیصد ہے۔ تاریخ اپناآپ دہراتی ہے۔کبھی شرق میں کبھی غرب میں۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں