"AIZ" (space) message & send to 7575

حج کا بیان :ادائیگی کا طریقہ (2)

حاجی کو احرام باندھنے کے ساتھ ہی بآواز بلند تلبیہ پڑھنا چاہیے ۔ تلبیہ کے الفاظ کاسلیس ترجمہ یہ ہے: ’’حاضر ہوں اے اللہ ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘ بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘‘۔تلبیہ پڑھنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ، جنت کا سوال اور آگ سے پنا ہ مانگنی چاہیے‘ اس لیے کہ یہ عمل مسنون ہے ۔بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے سے حج اورعمرے کے اجر وثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔جامع ترمذی میں حضرت ابوبکر صدیق صسے روایت کی گئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا‘ کون سا حج افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس میں بلند آواز سے تلبیہ پکارا جائے اور قربانی دی جائے ۔جب حاجی یا معتمر‘ عمرہ کے لیے طواف کا آغاز کرتا ہے اس وقت تلبیہ کہنا بند کردینا ہیے ۔ جب حاجی مکہ مکرمہ پہنچ جاتا ہے تو اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ فوراً عمرے کا آغاز کردے یا وقتی طور پر عمرے سے رکا رہے اور کچھ وقت آرام کرلے ۔جب حاجی عمرے کاارادہ کرلے تو اس کو مسجد الحرام میں داخل ہونے کے لیے باب بنی شیبہ‘ جس کو اب باب السلا م کہتے ہیں کا انتخاب کرنا چاہیے ۔ابنِ خزیمہ سے مذکور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ثسے روایت ہے کہ جب رسو ل کریم ﷺ قریش ِ مکہ سے معاہدہ کے تحت تشریف لائے تو اسی عظیم باب سے داخل ہوئے ۔ مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے جو رسو ل اللہ ﷺ مساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے تھے: ’’اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں ، اللہ کے رسول ﷺ پر سلام ہو۔اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے‘‘۔ مسجد الحرام میں اگر انسان با وضو داخل ہو تو ٹھیک‘ اگر وضو نہ ہوتو وضو کرکے سب سے پہلے طواف کرنا چاہیے ۔صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرث کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے حج کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے مجھے بتایا کہ جب رسو ل کریم ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے وضو کیا پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ طواف کی ابتدا حجر ِ اسود کو بوسہ دینے ،چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے ۔طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے اور یہ سات چکر گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے الٹی جہت (Anticlock)پر لگائے جاتے ہیں ۔طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیز رفتاری سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں ۔رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃوقنا عذاب النار ‘‘کا کثرت سے ورد کرنا چاہیے ۔جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو اس کے بعد مقام ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اور اگر مقام ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو انسان کو مقام ابراہیم کے دائیں ،بائیں یا عقب میں جو بھی جگہ ملے وہاں آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں۔ طواف مکمل کرنے کے بعد حاجی کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے اور صفا پر پہنچ کر وہ دعا مانگنی چاہیے جو نبی کریمﷺ نے مانگی تھی ۔ حضرت جابر بن عبد اللہث فرماتے ہیں کہ آپﷺباب الصفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے ۔جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں ‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا میں سعی کی ابتدا اسی پہاڑی سے کرتا ہوں جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتدا کی ہے۔پس آپ ﷺ نے سعی کی ابتدا صفا سے کی۔ آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آگیا‘ پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر ان الفاظ میں بیان فرمائی: ’’اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس نے وعدہ پورا کیا ،اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی‘‘۔ پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ کیا ۔ صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور حاجی مروہ تک جاتا ہے۔ صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو حاجی کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہوجائے تو حاجی کو رفتا ر دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔ تیزی سے چلنے والے علاقے کے تعین کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں۔ ان نشانات کے درمیان تیز چلنا چاہیے اور باقی حصّے میں آرام سے چلنا چاہیے ،اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کوئی تیز نہ چل سکے تو آرام سے چلنا درست ہے ۔صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر مکمل ہوتا ہے۔ ان چکروں کے درمیان حاجی کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو حاجی کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کرکے آخر سے کاٹ یا کٹوا لینے چاہئیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور حاجی عمرے کا احرام اتار کر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ 8 ذی الحجہ تک حاجی کو چاہیے کہ کثرت سے دعائیں ، استغفار،درودشریف کا ورد ، بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے ۔ اس کے بعد جب 8 ذی الحجہ آجائے تو حاجیوں کو اپنی قیام گاہوں میں ہی دوبارہ احرام باندھ لینے چاہئیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباسث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میقات کے اندر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھیں‘ حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میںرہائش پذیر لوگ مکہ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔ احرام باندھنے کے بعد حاجیوں کو منیٰ کا قصد کرنا چاہیے اور ظہر سے پہلے وہاں پہنچنے کی جدوجہد کرنی چاہیے ۔ حضرت جابر صسے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ جب یوم ترویہ آیا تو صحابہ کرامؓ نے مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھا اور منیٰ کے لیے روانہ ہوئے ۔رسول کریمﷺ سواری پر نکلے اور منیٰ میں ظہر ،عصر ،مغرب ،عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں‘ پھر تھوڑی دیر رکے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا ۔اگرچہ 8ذی الحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص وقت پر وہاں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ادا ہوجاتا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھامکہ مکرمہ سے جب منیٰ پہنچیں تو ایک تہائی رات بیت چکی تھی ۔8ذی الحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد پانچ نمازوں کی ادائیگی مکمل ہونے پر 9ذی الحجہ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ 9ذی الحجہ اور اس کے بعد کے اعمال کے حوالے سے وضاحت آئندہ کالم میں کی جائیگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ارکان اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں