شادی بیاہ کی مختلف تقریبات میں شرکت کے دوران میں نے کئی مرتبہ اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بیٹی کی جدائی بہت سے والدین کے لیے صدمے کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ بیٹی کو اس انداز میں الوداع کرتے ہیں ‘گویا کہ اپنے سر سے بوجھ اتار رہے ہیں۔ایسے لوگ بیٹیوں کے بارے میں اسلامی اصول اور ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جاہلانہ سماجی تصورات میں جکڑے رہتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں کئی مقامات پر بیٹیوں کی حق تلفی کے مناظر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹیوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کاآغاز کا اس کی پیدائش کے دن سے ہی ہو جاتا ہے۔ ناعاقبت اندیش لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیٹیوں کی پیدائش پر انتہائی مضطرب ہو جاتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ بیٹی کی پیدائش ان کے لیے ایک صدمے یا رسوائی کا سبب ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی بہت سے لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر غمگین ہو جایا کرتے تھے اور بعض لوگ اس حد تک چلے جاتے تھے کہ ان کو زندہ درگور کرنے پر بھی آمادہ وتیار ہو جایا کرتے تھے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تکویر کی آیت نمبر 8اور 9 میں ارشاد فرمایا : ''اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا (کہ)کس گناہ کے بدلے وہ قتل کی گئی۔‘‘
دیکھنے میں آیا ہے کہ شوہر اورسسرالی رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد بیٹی کی ولادت پر بیوی اور بہو کو طعن کرتی ہے ؛حالانکہ بیٹے یا بیٹی دینا یہ خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کا اختیار ہے‘ وہ جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرما دیتا ہے‘ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے بیٹیاں ملا کے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اولاد کی نعمت سے محروم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ان فیصلوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کے لائق ہے کہ حیاتیاتی اعتبار سے بھی لڑکے یا لڑکی کی ولادت کا تعلق مرد کے ساتھ ہے۔ اس حوالے سے عورت کو کسی بھی طرح طعن نہیں کیا جا سکتا۔ گھریلو سطح پر یہ بات بھی دیکھنے میںآتی ہے کہ بیٹوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جبکہ بیٹیوں کے لیے مناسب یا اوسط سے بھی کم درجے کی تعلیم کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ نتیجتاً بیٹے اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہوتے ہیں ‘جبکہ بیٹیاں نیم خواندہ یا غیر تعلیم یافتہ رہ جاتی ہے۔ بیٹے جدید اور پیشہ وارانہ علوم کی تحصیل میں مصروف ہوتے ہیں‘ جبکہ اس کے مدمقابل بیٹیاں فقط گھر داری کے فریضے کو انجام دیتی رہتی ہیں۔ نتیجتاً ذہنی نشوونما کے اعتبار سے بیٹے بیٹیوںکے مقابلے میں فوقیت حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی گھروں میں نفسیاتی اعتبار سے بھی بیٹوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور بیٹوں کی بڑی بڑی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ‘جبکہ بیٹیوں کو معمولی معمولی باتوں پر سرزنش کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان لباس اور خوردونوش کے حوالے سے بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے اچھے لباس اور اچھی خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے‘ جبکہ بیٹیوں کی خوراک اور لباس پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے ۔اس سارے عمل کے نتیجے میں بیٹیوں کی صحت اور جسمانی نشوونما پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بالغ ہونے کے بعد جب لڑکے لڑکیوں کے رشتوں کے چناؤ کا وقت آتا ہے تو لڑکوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ‘جبکہ اس کے مدمقابل بیٹیوں کے انتخاب یا ان کی رائے کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے؛ اگرچہ لڑکی کی شادی بیاہ کا معاملہ ولی کی رضامندی اور اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اگر لڑکی کی مرضی کے خلاف زبردستی اس کی شادی کر دی جائے ‘تو ایسی شادی کو بھی اسلام درست نہیں سمجھتا۔ لڑکی کی شادی کے موقع پر ولی کی اجازت اور لڑکی کی رضا مندی کا بیک وقت ہونا انتہائی ضروری ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے :جعفر ؓکی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی ( جن کی وہ زیر پرورش تھیں ) ان کا نکاح کر دے گا؛ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے ‘کہلا بھیجا‘ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں‘ کیونکہ خنساء بنت خذام ؓ کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لڑکی کی رضا مندی کے بغیر اس کو نکاح پر مجبور کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر سسرال والے بڑے پیمانے پر جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں ‘جس کو پورا کرنے کے لیے والدین اپنی بساط کی حد تک بڑی تگ ودو کرتے ہیں اور اس حوالے سے کئی مرتبہ قرضہ اُٹھانے تک چلے جاتے ہیں ‘لیکن اس جہیز کے دینے کے بعد لڑکی کو اس کے حق وراثت سے محروم تصور کیا جاتا ہے۔ لڑکے کی شادی کے موقع پر ہونے والے ان اخراجات کو لڑکے کا حق اور لڑکی کی شادی پر دیئے جانے والے جہیز اور تحائف کو ایک بوجھ سمجھ کر ادا کر دیا جاتا ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والے ان اخراجات کے بعد بیٹے اور بیٹی کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان امتیاز کرنے والوں کو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیٹیاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑھاپے میں معاشی دباؤکا شکار ہو کر بہت سے بیٹے اپنے والدین سے لا تعلقی کو اختیار کر لیتے اور ان کو معاشی اعتبار سے تنہائی اور ابتلا کی زندگی میں دھکیل دیتے ہیں ‘جبکہ اس کے مدمقابل بیٹیاں اپنے والدین کی خبر گیری کرنے میں بالعموم سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور معاشی فراحی کی صورت میں والدین کی معاشی تلخی کو دور کرنے کے لیے نمایاں کردار اد اکرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس اُمت کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ اپنی بیٹیوں کے ساتھ انتہائی شفقت والا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ خصوصاً حضرت فاطمۃ الزہرا ؓکے ساتھ آپ کا سلوک اور رویہ امت کے باپوں کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی شفقت کے حوالے سے مختلف واقعات مذکور ہیں ‘جن میں سے دو اہم درج ذیل ہیں :۔
1۔صحیح بخاری میں حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوتی۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺکے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ اس لیے وہ بھی ان میں سے ایک لونڈی یا غلام کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں‘ لیکن آپ ﷺموجود نہیں تھے۔ وہ عائشہ ؓسے اس کے متعلق کہہ کر ( واپس ) چلی آئیں‘ پھر جب آپ ﷺتشریف لائے تو عائشہ ؓنے آپ ﷺکے سامنے ان کی درخواست پیش کر دی۔ علی ؓکہتے ہیں کہ اسے سن کر آپ ﷺ ہمارے یہاں ( رات ہی کو) تشریف لائے۔ جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (جب ہم نے آپ ﷺکو دیکھا )تو ہم لوگ کھڑے ہونے لگے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جس طرح ہو ویسے ہی لیٹے رہو ( پھر آپ ﷺ میرے اور فاطمہ ؓ کے بیچ میں بیٹھ گئے اور اتنے قریب ہو گئے کہ ) میں نے آپ کے دونوں قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر پائی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ تم نے (لونڈی یا غلام ) مانگے ہیں ‘ میں تمہیں اس سے بہتر بات کیوں نہ بتاؤں ‘ جب تم دونوں اپنے بستر پر لیٹ جاؤ ( تو سونے سے پہلے ) اللہ اکبر 34 مرتبہ اور الحمداللہ 33 مرتبہ اور سبحان اللہ 33 مرتبہ پڑھ لیا کرو ‘ یہ عمل بہتر ہے اس سے جو تم دونوں نے مانگا ہے۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ ؓ آئیں‘ ان کی چال میں نبی کریم ﷺ کی چال سے بڑی مشابہت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیٹی آؤ مرحبا! اس کے بعد آپ ﷺ نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا‘ پھر ان کے کان میں آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہو؟ پھر دوبارہ آپ ﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا ‘تو وہ ہنس دیں۔ میں نے ان سے کہا؛ آج غم کے فوراً بعد ہی خوشی کی جو کیفیت میں نے آپ کے چہرے پر دیکھی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں‘ میں آپ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی؛ چنانچہ میں نے آپﷺ کی وفات کے بعد پوچھا‘تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی‘ میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپﷺ نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی ‘تو میں ہنسی تھی۔
نبی کریم ﷺ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓکی اس والہانہ محبت میں تمام اہل ایمان کے لیے سبق ہے کہ ہمیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور پیار والا برتاؤ کرتے رہنا چاہیے اور بیٹے اور بیٹیوںکے درمیان کسی قسم کی تفریق کو نہیں کر نا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی بیٹیوںکے ساتھ حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین )