معیشت کا مقدمہ … (2)

کیا ہوا دریا اگر قبریں بہا کر لے گیا 
خفتگانِ خاک کو یہ سانحہ کچھ بھی نہیں 
عباس تابش کا مذکورہ بالا شعر ہماری سیاسی قیادت کے عمومی رویوں کا عکاس ہے‘ مگربحیثیت قوم جھپٹنا‘ پلٹنا ‘ پلٹ کر جھپٹنا ہی ہمارا شیوہ ہے۔ حکومت تحمل اور فہم وفراست سے کام لے تو معیشت کے خاکے میں رنگ بھرے جا سکتے ہیں ۔ عمران حکومت کی خوش بختی ہے کہ ابھی ساڑھے تین سال اس کے باقی ہیں ‘ زیادہ پانی پلوں کے نیچے سے نہیں گزرا۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ سعودی عرب جیسا ملک معاشی اصلاحات لا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ؟ معیشت ہمارا روگ بن رہی ہے‘ ہمیں اس روگ کو ختم کرنا ہے ‘ چاہے کسی سے بھی سیکھنا پڑے ۔ 
آپ امریکہ‘ جرمنی ‘فرانس‘ برطانیہ ‘چین اورجاپان کو چھوڑیں یہ صدیوں کی مسافت اور تلخ تجربات کانتیجہ ہیں ۔ آپ صرف بنگلہ دیش کا گھونگھٹ اٹھائیں تو حیرتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ پچاس سال کا بنگلہ دیش ایک سو پچاس سال کا سفرطے کر چکا ہے ۔ وہاں کی معیشت ساؤتھ ایشیا کی سب سے اُبھرتی ہو ئی معیشت ہے ۔ آپ زیادہ پیچھے مت جائیں گزشتہ دس سالوں میں ان کی معیشت کا حجم 188 فیصد بڑھا ہے ‘ انہوں نے ڈیڑھ کروڑسے زائد لوگوں کو غربت سے نکالا ہے اور ہر بنگالی کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہو ا ہے جو ہر پاکستانی کو سر پیٹنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اب بنگلہ دیش صرف پٹ سن کا بیوپاری نہیں ہے‘ وہاں کی صنعت و معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکی ہے ‘ صرف ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمد سے 38ارب ڈالرسالانہ کمائی ہو رہی ہے‘ جو اگلے سال تک بنگلہ دیش حکومت کو50ارب ڈالر ہونے کی امید ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی 75فیصد برآمدات امریکہ اور یورپ میں ہوتی ہیں ۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جی ڈی پی کا 347 ارب ڈالر کا حجم اور 32ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ہمارا منہ چڑھانے کے لیے کافی ہیں ۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس سال بنگلہ دیش کی ترقی کی شرح آٹھ فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے جو ایشیا بھرمیں سب سے زیادہ ہو گی ۔ یہی نہیں‘ ایچ ایس بی سی بینک کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش میں ترقی کرنے کی صلاحیت ناروے سے بھی زیادہ ہے اور شاید اسی بنا پر ایچ ایس بی سی بینک نے پیشگوئی کی ہے کہ 2030 ء میں بنگلہ دیش دنیا کی چھبیسویں بڑی معیشت ہو گا ‘ جو اس وقت 42ویں نمبر پر ہے ۔ 
ایسا نہیں کہ بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام اور امن امان کی صورت حال مثالی ہے ‘ وہاں بھی احتجاج اور ہڑتالیں ہوتیں ہیں‘ سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ مگر بیرونی دنیا کے لیے بنگلہ دیش کا کاروباری ماڈل بنئے کی ہٹی جیسا ہے‘ جس کا کوئی دوست ہوتا ہے نہ دشمن‘ مگرہم کیا کریں ؟ہم تو دشمن دار قوم ہیں‘جو اپنی پیدائش سے لے کر آج تک یہ قبائلی رسم بخوبی نبھا رہے ہیں ۔ انڈیا اور ہماری منڈیر سانجھی ہے‘ اس لیے تلخی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ بٹوارہ ہوئے بہتربرس بیت گئے‘ مگر لہجوں میں کڑواہٹ آج بھی قائم ہے ‘ ہم لاکھ جتن کریں مگر سرحد پار بی جے پی کا راج ہے جو امن کی ازلی دشمن ہے ۔ بھارت رقبے اور آبادی میں ہم سے چار گنا بڑا ہے‘ مگر ہمارے حوصلے ان سے چار گنا زیادہ ہیں ۔ 1948ء کی لڑائی ہو یا 65ء کا معرکہ‘ 71 ء کے آنسو ہوں یا کارگل کا ٹھٹھرتا محاذ ‘ ہم نے ہر دفعہ انڈیا کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ بندوق سے لے کر ایٹم بم تک ہم نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ‘مگر معیشت ہمارے گلے کی ہڈی کیسے بن گئی؟ یہاں ہم فیل کیوں ہو گئے ؟ اہل سیاست میں کوئی ہے‘ جو اس کا جواب دے سکے ؟ 
حالیہ معاشی اتارچڑھاو ٔکے باوجودآئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بن چکا ہے۔ اس نے گزشتہ نو سالوں میں فرانس ‘ برطانیہ ‘ اٹلی اور برازیل کی معیشت کو پچھاڑا ہے ۔ یہ کارنامہ سر انجام دینے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے جو بھارت جیسے شدت پسند ملک نے کی ہے ۔انڈیا گزشتہ پندرہ سال سے چھ‘ سات اور آٹھ فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے‘ مگر ہم آج بھی دو اور تین فیصد کے درمیان اٹکے ہوئے ہیں ۔ انڈین معیشت کا حجم تین ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ ہم 314ارب ڈالر کی سیڑھی پھلانگ کر واپس 284ارب ڈالر پر آگئے ہیں ۔ بھارت کی برآمدات 330ارب ڈالر کی ہیں مگر ہم 23ارب ڈالر پر کھڑے ہیں ۔ بھارت کے پاس غیر ملکی کرنسی کے ذخائر 481ارب ڈالر ہیں تو ہماراکل سرمایہ 18ارب 90کروڑ ڈالر ہے ‘ جس میں زیادہ تر اُدھار کا مال ہے ۔ 
پاکستانی اکانومی کا حال دردناک ہے تو انڈیا میں بھی سب اچھا نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق آج بھی دنیا بھر کے غریبوں میں سے ایک چوتھائی بھارت کے باسی ہیں ‘ بھارت کی دیہی آبادی میں سے صرف 39 فیصد لوگوں کو صحت وصفائی کی سہولیات میسر ہیں‘ جبکہ آدھے بھارتی آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ٹائلٹ سے محروم ہیں ۔ بی جے پی کی چھتری تلے انڈیا ان ممالک میں شامل ہے جو اپنے شہریوں کو غربت سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں یا کم کامیاب ہوئے ہیں ‘ 160ملین انڈین خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو مودی سرکار کی کالک ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔دنیا کی پانچویں بڑی معیشت سست روی کا شکارہے‘ اس سال ترقی کی شرح گھٹ کر 4.5 فیصد رہنے کی توقع ہے ‘ جس کے باعث بھار ت کا پانچ ٹریلین ڈالر اکانومی کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔
کوئی مانے یا نہ مانے مودی کا جنگی جنون بھارتی معیشت کا قبرستان ثابت ہو رہا ہے‘ تمام بڑے ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں مگر مودی ہوش میں آنے کو تیار نہیں ۔ وہ بنگلہ دیشی معاشی ماڈل کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ بنگال کی ترقی کی چھ وجوہات اگر انڈیا اور پاکستان سمجھ جائیں تو یہ خطہ یورپ بن سکتا ہے ۔ (1 ) تجارت کی کوئی سوتن نہیں ہوتی ‘ اپنی باہیں سب کے لیے کھلی رکھنی پڑتی ہیں ۔ (2)تعلیم اور ہنر پر سب کا حق ہے ۔(3) عورتیں گھروں سے باہر آئیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں ۔ (4) معیشت سیاست سے الگ ہو ‘ حکومت لاکھ بدلے مگر معاشی پالیسی وہی رہے ۔(5) بیرونی سرمایہ کاروں کو ہرممکن سہولیات ہوں ‘ ٹیکس میں چھوٹ ہو اور قانونی الجھنوں سے آزاد ی۔ (6) جمہوریت کا تسلسل ۔ 
ہم اگر آئی ایم ایف اوردوسرے مالیاتی اداروں کی غلامی سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور آزادانہ طور پر ترقی کرنے کے خواہاں ہیں تو یہ چھ تعویز ہیں جو ہمیں گھول کر پینے ہوں گے۔ہماری معیشت اٹھ کھڑی ہوگی اور ہمارے بیچارے روپے کی حیثیت بھی ٹکے سے بڑھ جائے گی ‘ وگرنہ دوٹکے کی اوقات والا طعنہ دو روپے کی اوقات میں بدلا چاہتا ہے ۔ اقبال ؔکے شاہین‘ ٹیگور کی کہانیوں سے کچھ سیکھ لیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں