معیشت کا مقدمہ …( 3)

قرآن ِمجیدکی سورۃ الشرح کی آیت 6ہے : ''اِنَّ مَعَ العْسرِ ْیسرًا‘‘ترجمہ:( بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)‘ یعنی قرآن ِ مجید نے زندگی کی اٹل حقیقت بیان کر دی ہے کہ مادی نقصان اور خسارہ ‘ رحمت اور برکت کا ذریعہ بنتا ہے ۔ یقین کا مل ہو تو راستے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ پاکستانی قوم پر بھی شاید قدرت کو رحم آگیاہے ‘ ایک در ہے ‘جو وَا ہوچکا ‘ ایک راستہ ہے‘ جو کھلنے والاہے ۔ حکومت ہوش سے کام لے تو معیشت کی پتنگ آسمانوں کو چھو سکتی ہے ۔ مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو سکتاہے ۔ 
کورونا وائرس پوری دنیا کے انسانوں کے لیے مہلک بن چکا ‘ ہر گزرتا دن خوف کو بڑھاوا دے رہاہے ‘جس کے باعث عالمی معیشت اوندھے منہ گر پڑی ہے ۔اس خوفناک وائرس سے جانوں کا ضیاع انسانی المیہ ہے۔ یہ دکھ سب کا سانجھا ہے ‘مگر معیشت کے میدان میں نفع ونقصان سب کا اپنا اپنا ہے ‘اسے ہماری خوش نصیبی سمجھ لیں کہ پاکستان کی معیشت کا انحصار برآمدات اور سیاحت پر زیادہ نہیں‘ ورنہ شاید ہم اور نقصان اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھے ۔ اس وقت دنیا بھر کی منڈیاں مندی میں ہیں۔ صنعتوں کو تالے لگے ہیں ‘ بازار بند ہیں اور سٹرکیں ویران ۔گو‘ ہمارے ہاں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں معطل ہیں ‘ مگر اس کے باوجود کورونا وائرس‘ اگر پاکستان میں وبائی شکل اختیار نہیں کرتا تو ہماری معیشت کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں‘کیونکہ تیل پچاس سال پرانی قیمتوں پر چلا گیا ہے ‘جو ترقی پذیر ممالک کے لیے خدائی مدد سے کم نہیں ۔ قدرت اپنا کام کر چکی۔ اب‘ ہمارے حکمرانوں پر ہے ‘وہ کس طرح اس موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہیں اور عوام کو مہنگائی کے بھنور سے نکالتے ہیں ۔خوف کے اس ماحول میں معیشت کو کھڑا کرنا آسان نہیں‘ مگر کچھ راستے ہیں‘ جو منزل کی طرف جاتے ہیں‘ اگر حکومت ان پرچل سکے تو دلی دُور نہیں ہے ۔ 
(1) تیل کی قیمت پچیس ڈالرفی بیرل سے بھی نیچے آگئی ہے‘ یعنی حکومت کوساٹھ روپے لیٹرتک فائدہ ہوا ہے ‘ اگر حکومت عوام اور معیشت کے ساتھ سنجیدہ ہے تویکم مئی تک پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے لیٹر تک کمی کر دے ‘چالیس فیصد مہنگائی خودبخود ختم ہو جائے گی ۔ پٹرول اور ڈیزل سستا ہونے سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی ہو گی‘ضروریات زندگی کی اشیا سستے داموں بازاروں میں ملیں گی‘ آمدورفت کے اخراجات آدھے رہ جائیں گے ‘ بجلی کے بل کم آئیں گے‘ جس کی وجہ سے عام آدمی کومجموعی طور پرپانچ سے پچاس ہزارروپے تک فائدہ ہوسکے گا ۔ 
(2) حکومت نے ہاٹ منی کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رکھا ہے‘ مگر اب کورونا وائرس کے باعث رضا باقر کی ہا ٹ منی کی دکان بند ہو رہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق کیری ٹریڈرز نے ایک ارب 59 کروڑ ڈالر پاکستان سے نکا ل لیے ہیں۔ اب‘ حکومت کو چاہیے کہ پالیسی ریٹ میں بڑی کمی کردے‘ 225 بیسز پوائنٹ کی کمی اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ موجودہ حالات میں شرح سود میں مزید دو فیصد کمی ناگزیر ہے ‘ورنہ معیشت کا الٹے قدموں کا سفر جاری رہے گا۔شرح سود میں مزید کمی سے صنعت کاروں کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا ‘ وہ اپنا سرمایہ بینکوں سے نکال کر مارکیٹ میں لائیں گے اورنئے قرضوں کے لیے بینکوں سے رجوع کریں گے‘ جس سے بندکارخانے چلنے لگیں گے ‘نئے کاروبار اور روزگارکے مواقع پیدا ہوگے ۔ شرح سود کم ہونے سے عوام ہی نہیں‘ حکومت بھی فیضیاب ہو گی ۔ حکومت کواس ساری صورت ِحال میں قرضوں کے سود کی مد میں آٹھ سو ارب کا فائدہ ہو گا‘ جس سے مالیاتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ 
(3) ہماری معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہیں اور یہ برآمدات کو بڑھا کر ہی حل ہو سکتا ہے۔ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا‘ جس کی برآمدات ‘درآمدات سے کم ہوں ‘ ہمیں برآمدات پر ہر صورت توجہ دینی ہے ۔ پچھلے مہینے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق ‘یہ اضافہ چین اور دوسرے ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوا ہے ‘ ان کے آرڈر ہمیں ملے ہیں ۔ اب‘ حکومت کو چاہیے کہ ایکسپورٹ کی پانچ بڑی صنعتوں کو مزید آسانیاں اور مراعات دے‘ تاکہ برآمدات میں اضافہ ہوتا چلا جائے‘ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بڑھاوا ہماری بیمار معیشت میں ویکسین کا کام کرے گا ۔ 
(4)حکومت کو فوری طور پر شرح نمو پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا‘ جب پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی۔ پٹرولیم مصنوعات اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں گراوٹ سے حکومت کے امپورٹ بل میں سات سے آٹھ ارب ڈالرسالانہ کی کمی متوقع ہے‘ جس کے بعد وفاق کو چاہیے کہ درآمدات پر بند دروازے کھول دے ۔ ہمارے ہاں امپورٹ کا کاروبار کباڑیے کی دکان نہیں‘ سونے کی کان ہوتاہے ۔زیادہ نہیں تو ضروری درآمدت سے پابندی اٹھنا بہت ضروری ہے ۔ 
(5)پاکستان کو اپنا اقتصادی ماڈل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج تک ہم قرضے لے کر غیر پیداواری اور غیر منافع بخش منصوبوں میں لگاتے رہے ‘جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ‘ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے توچین ‘ کوریا ‘ ملائیشیا اور بنگلہ دیش کی طرح اپنی اندرونی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے ۔ آپ خود سوچیں ایسے منصوبوں کا کیا فائدہ جو اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکیں ؟ ہمیں اپنے قومی وسائل کا رخ ان لوگوں کی طرف موڑنا ہے‘ جو ہنر مند ہیں اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں ۔ 
(6) ہمیں اس وقت ٹیکس کی شرح سے زیادہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ‘اگر ہم اپنی مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکسوں کا تناسب دس فیصد سے بڑھا کرچودہ یا پندر ہ فیصد پر لے جائیں تومعیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہو جائیں گے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا‘ جب ملک بھر کی تاجر برادری دستاویزی معیشت کا حصہ بنے گی ۔ یہ کام حکومت نے کرنا ہے اور یہ کام جتنی جلدی ہو سکے‘ اتنا اچھا ہے ۔ 
(7)پاکستان اس وقت 41 ہزار ارب کے بیرونی قرضوں اور 19سو ارب کے سرکلر ڈیٹ کے بم پر بیٹھا ہے‘ جس کے باعث سارے اقتصادی امور ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔قرضوں کے ذریعے ترقی کا ماڈل دنیا بھر میں ناکام ہو چکا ہے ‘ جب تک باہر سے پیسے آتے ہیں ترقی کی شرح اوپر جاتی دکھائی دیتی ہے‘ مگر جیسے ہی پیسے آنا بند ہو تے ہیں تو اکانومی دھڑام سے گر جاتی ہے ۔ حکومت کو یہ مان لینا چاہیے کہ قرضوں کے چکر سے نکلے بغیر معیشت کا کچھ نہیں ہو سکتا ہے ۔ 
(8) حکومت کو اپنی نان ٹیکس آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا ۔جو سرکاری ادارے سفید ہاتھی ہیں ‘انہیں بیچنے میں ہی عافیت ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو یہ قدم جلد یابدیر اٹھانا ہے ‘ کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ 
اس وقت کورونا وائرس ہٹلر کی طرح پوری دنیا پر حملہ آور ہے۔ یہ ملکوں ملکوں جا کر تباہی پھیلا رہا ہے ۔ پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔ خداکرے کہ اس کے اثرات اتنے بھیانک نہ ہوں ‘جو باقی دنیا میں نظر آرہے ہیں ‘ورنہ ہماری معیشت ایسی نہیں کہ اس کے وار سہہ سکے ۔یہ وائرس عالمی معیشت کے لیے بحران ثابت ہو رہا ہے اور دنیا کا ہر بحران کسی نہ کسی کے لیے مواقع پیدا کرتا ہے ۔اب ‘سارا انحصار ہماری حکومت پر ہے کہ وہ کیا پالیسی اپناتی ہے؟ عوام اب‘ بھی وزیر اعظم عمران خان اور تحریک ِانصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بقول فیض احمد فیض:ؔ ؎ 
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں