جمہوریت ہم شرمندہ ہیں

کبھی عالمی سطح پر جمہوریت اور سوشلزم کو ایک ترازو میں تولا جاتا تھا‘ غلط اور صحیح کی قید سے دور یہ ددنوں نظام دنیا کو اپنی خصوصیات کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے۔آدھی دنیا میں سوشلزم کا طوطی بولتا تھا‘ ترقی اور خوشحالی اس کے گھر کی باندی تھی‘ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام انسان کی وہم پرستیوں اور غلط اندیشیوں کی ایک صورت گری ثابت ہوا او ر یہ موسمی پھولوں کی طرح مرجھاتا چلا گیا ۔انسان بھلا اپنے موروثی عقائد پر کہاں ٹھہرتا ہے‘ وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے نئی راہوں کا مسافر ہو جاتا ہے‘ اور یوں جمہوریت نئے ڈھنگ سے دنیا پر وارد ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سرمائے کی فراوانی نے سب کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔جاوید اختر نے جمہوریت کی پرواز کو یوں بیان کیا ہے ؎ 
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہاہے 
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا 
پھر ایساہی ہوا، سوویت یونین کی آخری ہچکی کے بعد جمہوریت پیا من بھاگئی اور پوری دنیا کی آنکھ کا تارا بن گئی ۔ اس کے جوبن کو ابھی تیس سال ہی گزرے تھے کہ کوروناوائرس نے اس نظام کی ساری کمزوریاں بے نقاب کردیں ۔گمان ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی جنگ میں سوشلزم اور ڈکٹیٹرشپ جیت رہی ہے جبکہ جمہوری ممالک تاحال انسانیت کی لاش پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں‘ جوہر سانس کے ساتھ شکست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔بظاہر جن ملکوں میں ڈکٹیٹرشپ ہے یا جہاں ون پارٹی رُول ہے وہاں کورونا وائرس کے جبر کو روکنا بہت آسان رہا‘ مگر جن ملکوں میں جمہوریت فیصلے کر رہی ہے وہاں لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں اور حکومتیں اپنا ووٹ بینک بچانے میں لگی ہیں یا سیاسی پارٹیاں آپس کی لڑائی میں ایک دوسرے کو بے لباس کرنے میں مگن ہیں ۔ چین کی مثال سب کے سامنے ہے‘ کورونا وائرس نے وہاں کہرام برپاکر دیا تھا‘پھر دنیا نے دیکھا کہ چینی حکومت کے بروقت اور مثالی فیصلوں سے وبا پر قابو پا لیا گیا اوروہاں زندگی پھر سے مسکرانے لگی ۔ سعودی عرب مسلمانوں کے لیے مقدس ترین دھرتی ہے‘ وہاں ہزاروں لوگوں کا روزانہ آنا جانا لگا رہتا ہے‘ سعودی حکومت بھی اگرسپین‘ اٹلی‘فرانس اور جرمنی کی طرح قومی اتفاق رائے کی بھول بھلیوں میں پڑجاتی تو مسلسل گریہ عالم اسلام کا مقدر بن جاتا۔یہی نہیں یو اے ای‘ کویت‘ قطر، شمالی کوریا اور ہانگ کانگ میں بھی جمہوریت نہیں ہے اس لیے وہاں بھی کورونا کے خلاف جنگ بہتر انداز میں لڑی جارہی ہے ۔ ان ممالک میںحکومتیں جلدی فیصلے کرتی ہیں اور عوام انہیں ماننے کے پابندہوتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میںکورونا کا پھیلاؤ کم ہے اور شرحٔ اموات کم تر ۔ 
دوسری طرف جمہور ی ممالک میں دیکھیں تو سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ہر طرف لیڈر شپ کا بحران ہے، ٹرمپ ہو یا بورس جانسن‘ انگیلا مرکل ہو یا عمران خان‘ ہرسو کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے ۔قانون کی بیڑیاں انہیں روکتی رہیں یا کچھ اور‘مگرکوئی بھی لیڈر فیصلے کرنے میں پہل نہیں کرسکا‘ جس کا نتیجہ پوری جمہوریت کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ کبھی اتفاقِ رائے جمہوریت کا حسن کہلاتا تھا‘مگر اب یہ حسن ماندپڑچکاہے۔ امریکی صدریکم مئی کو لاک ڈاؤن ختم کرنا چاہتے ہیں تو ریاستوں نے اس کے خلاف علم بغاو ت اٹھا لیا ہے ۔ صدرکی مخالفت اور حق میں امریکی سٹرکو ں پر نکل آئے ہیں جوبذاتِ خود کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی فیصلے کرنے میں ہچکچاتے رہے جس کی قیمت عوام کوخوف اور موت کی صورت میں چکانا پڑرہی ہے ۔ دنیا کی نویں بڑی معیشت برازیل کا بھی یہی حال ہے‘ صدرعوام سے معاشی پابندیاں اٹھانا چاہتا ہے مگرریاستیں اپنی مرضی کر رہی ہیں ‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر کو عوام کے ساتھ مل کر لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرنا پڑا ۔یہ جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟ آپ ذراکورونا وائرس کے اعدادوشمارپر نظر ڈالیں تو دنیا بھر میں 85 فیصدکیسز جمہوریت پسند ملکوں میں ہو رہے ہیں اور 95 فیصد سے بھی زائد اموات ۔پاکستان بھی جمہوریت کا چیمپئن ہے اور موجودہ حکومت اس کی سب سے بڑی داعی۔یہاں بھی وہی ہوا جو جمہوری ملکوں کی ریت بن چکی تھی ۔ جو فیصلے جنوری میں کرنا تھے وہ مارچ کے وسط میں شروع ہوئے اور تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں ۔ دو ماہ تک نہ بارڈر محفوظ کیے نہ ائیرپورٹس‘ قرنطینہ سینٹر بنائے گئے نہ وینٹی لیٹرز کا انتظام کیا گیا۔ ہنگامی وقت کے لیے حکومتی سطح پر ماسک ذخیرہ کیے گئے نہ سینی ٹائزر۔ کورونا سے پہلی موت ہوئی تو حکومت جاگی ضرور‘ مگر اس کی انانیت اور بے پروائی ختم نہ ہوئی ۔ وفاق سارے ملک کے لیے ایک پالیسی بنانے میں ناکام رہا اور صوبے سیاسی مصلحت کے باعث اپنااختیار استعمال کرنے میں بے بس۔ لاک ڈاؤن ہوا ‘مگر ناکام‘ مسجدیں بند ہوئی نہ سٹرکیں ویران ۔ہر طرف پلاننگ کا فقدان تھا اور ہے۔ اگرحکومت لوگوں کو گھروں میں قید کرنے سے پہلے بارہ ہزارروپے مستحق افراد کو دے دیتی تو شاید اتنی تنقید اس کے حصے میں نہ آتی ۔ یہ تصویر کا ایک رخ تھا دوسرارخ ہیومن رائٹس واچ نے پیش کیا ہے‘ اس ادارے کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد جمہوریت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ دنیا بھر کی حکومتیں ڈکٹیٹرشپ کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ ہر جگہ انسانی حقوق پر تلواریں چلائی جارہی ہیں ۔شاید جمہوری حکومتوں نے پہلی بار اپنی طاقت کو جانا ہے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کررہی ہیں جو آمرانہ ا دوار کا خاصہ ہوتا ہے ۔ساؤتھ افریقہ کی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران فوج اور پولیس کے ذریعے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے‘ جب کوئی گھر سے نکلتا ہے تو سپاہی اس کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اورگھروں میں گھس کر لوگوں کو دھمکیاں دیتے ہیں ۔ان دنوں پورے یورپ میں تارکین وطن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے جو یورپی یونین کے قوانین کے منافی ہے ۔ یونانی حکومت نے سیاسی پناہ کے منتظر ہزاروں افراد کو ایک جگہ بند کر دیا ہے جو کسی طور جمہوری طرز عمل نہیں ہے ۔ ہنگری کے وزیراعظم نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کراپنے اختیارات کو وسعت دے دی ہے تاکہ عوام کو کنٹرول کرنے میں آسانی رہے ۔یہی نہیں انڈیا‘ بنگلہ دیش‘ میانماراور ایتھوپیا کی حکومتوں نے عوام پر انٹر نیٹ کے استعمال پرپابندی لگا دی ہے جو مکمل طور پر جمہوری اقدار کی نفی ہے ۔
مجھ سمیت دنیا بھر کے جمہوریت پسند شہری پریشان ہیں کہ ہم بہترین نظام حکومت کے ساتھ وفا کیوں نہیں کرپارہے ؟اس میں شاید قصور جمہوریت کا نہیں بلکہ ان حکمرانوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں اس وقت جمہوریت کی باگ ڈور ہے ۔ چرچل زندہ ہوتے تو برطانیہ کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘ ابراہم لنکن ہوتے تو شاید امریکہ اتنی پستی کو نہ پہنچتا‘ قائد اعظم ہوتے تو پاکستان سوچوں کے سمند ر میں غرق کسی دوراہے پر نہ کھڑا ہوتا ۔ آ ج لینن اور ماؤزے تنگ کہیں دور کھڑے جمہوریت کی بے بسی پر مسکرا رہے ہوں گے ‘جس کے لیے جمہوریت ہم شرمندہ ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں