لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا؟

سکندر اعظم ملتان فتح کرنے کے ارادے سے نکلنے لگا تو راجہ پورس نے پوچھا ''اتنی کم عمری میں ناقابل ِیقین کامیابیاں کیسے حاصل کیں‘ یورپ فتح کیا ‘ایرانی بادشاہ ' دارا‘ کو مات دی‘ مصر ‘شام اور کابل پرجھنڈے گاڑے ‘ آدھی دنیا آپ کے قدموں میں کیسے آگری ؟ ‘‘۔ پورس کا سوال سن کر سکندراعظم تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گیا اور پھر بولا ''یہ صرف تلوار کا کام نہیں‘ بلکہ بروقت فیصلوں سے ممکن ہوا‘‘۔ یہی تاریخ کا سبق ہے کہ حکمرانی کی دنیا میں سب سے بڑا ہنر فیصلہ سازی ہے‘ جوحکمران دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے‘ وہ کبھی نامراد نہیں ٹھہرتا‘ شکست کبھی اس کی دہلیز پار نہیں کر پاتی۔ ؎
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں 
وہ پھول کھل کے رہیں گے جوکھلنے والے ہیں 
وزیراعظم عمران خان کی قوت ِفیصلہ کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے‘ کیونکہ ملک کی کشتی بھنور میں ہے اور عوام‘ ناخدا کی طرف بے بسی سے دیکھ رہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کو قریباً ڈیڑھ ماہ ہو چلا‘ اب انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ گرتی معیشت کو کیسے سنبھالا دینا ہے ؟ عام آدمی کو کیسے مایوسی اور خوف کی دلدل سے نکالناہے۔ یہ بات طے ہے کہ اب ہماری معیشت میں مزید تالابندی کی سکت ختم ہوچکی ‘ لہٰذافوری فیصلے نہ کیے گئے تو امن وامان کی صورت ِحال بگڑ سکتی ہے‘ بھوکے پیٹ عوام نے احتجاج کا راستہ اپنا لیا تو کوروناوائرس کیخلاف جنگ اورپیچیدہ ہوجائے گی ‘ جس کے ہم کسی طورمتحمل نہیں ہوسکیں گے۔
اگر ہم لاک ڈاؤن کی صورتِ حال کا کھلے دل سے تجزیہ کریں تو بہت مایوسی ہو تی ہے ‘ کیونکہ اس سارے عرصے میں حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی ۔یہ کیسا لاک ڈاؤن ہے؟ جہاں دکانیں ‘ بازار‘ مالزاورصنعتیں بند ہیں ‘مگر عوام دندناتے پھر رہے ہیں ‘ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ۔حکومت اتنا بتا دے‘ اگر عوام نے سنجیدہ نہیں ہونا تو کاروبار بندکرنے کا فائدہ ؟ وبا کے دنوں میں بھی افطاریاں اور کورنٹائن پارٹیاں جاری رہنا ہیں تو غریب دکان والے کا کیاقصور ؟ اس کے بچوں کا رزق کیوں بند ہو؟ ایک اندازے کے مطابق‘ پاکستانی معیشت کو اب تک دوہزار ارب روپے کا نقصا ن ہو چکا ۔ اس سے زیادہ حکومت اور کیا قیمت ادا کر سکتی ہے؟ عوام جان لے اب ہمیں بطورِ قوم کوروناوائرس اور خراب معیشت کے ساتھ لڑنا ہے‘ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ حکومت کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک کورونا کی ویکسین تیار نہیں ہوتی‘ اس کا خطرہ کم نہیں ہو سکتااور ویکسین بننے میں ابھی برسوں کے مراحل ہیں۔پوری دنیا میں کورونا ویکسین کیلئے90 منصوبوں پر کام ہورہا ہے‘ جن میں سے سات کلینکل ٹرائلز میں داخل ہوچکے ہیں ‘ مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ ماہرین ان منصوبوں کو ویکسین کیلئے محفوظ قرار نہیں دے رہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرویکسین کم عرصے میں بنی تو اس کے مضر اثرات کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے ‘ کیونکہ سارس اور ڈینگی بخار کی ایک ویکسین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا‘ جس کے بعد اس کی پیداوار روک دی گئی تھی ۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ عام طور پر کسی بھی مہلک بیماری کی ویکسین میں دس سے پندرہ سال کی تحقیق اور ٹیسٹنگ درکار ہوتی ہے اور اس میں سے بھی صرف چھ فیصد منصوبے کامیاب ہوتے ہیں ۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ ہمیں کم از کم اگلے ایک سال تک کورونا کے ساتھ جینا ہے اور اتنا لمبا عرصہ لاک ڈاؤن نہیں رہ سکتا ۔ پاکستانی عوام اپنے سماجی رویوں کو بہتر کریں‘تاکہ بیماری سے بچا جاسکے اور حکومت ‘ اپوزیشن مل کر ریاست کا بوجھ بانٹیں‘ ورنہ معیشت کا سانپ ڈسنے کیلئے تیار بیٹھا ہے ۔وزیر اعظم عمران حکومت کو چاہیے کہ وہ سب کو ساتھ ملائے اور یک زبان ہوکر مرحلہ وار بازار اور مالز کھولنے کا اعلان کریں ‘ پبلک ٹرانسپورٹ کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ جزوی طور پر چلا یا جائے‘ تاکہ غریب کو کام پر آنے جانے میں آسانی ہو ۔شادی ہالز اور ریسٹورنٹس پرلگی پابندیوں کو نرم کیا جائے‘ تاکہ بے روزگاری کا منہ بند ہوسکے‘ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تویہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوگا‘ بلکہ پوری دنیا کی حکومتیں اب یہ اعلان کر رہی ہیں کہ وہ مزید لاک ڈاؤن میں نہیں جی سکتے۔عالمی معیشت کیلئے کاروبار کی بحالی ناگزیر ہوچکی ہے۔
اٹلی میں ریسٹورنٹس اور ہول سیل کی مارکیٹیں کھول دی گئی ہیں‘جبکہ اٹھارہ مئی سے دکانیں ‘ سیاحتی مقامات اور گرجا گھربھی عوام کیلئے کھل جائیں گے۔ فرانس میںریٹیلرشاپس اورریسٹورنٹس پر کام شروع ہو گیا ہے‘ جبکہ گیارہ مئی سے بچے سکول جاسکیں گے ۔بھارت میں دس کروڑ لوگوں کی بے روزگاری کے بعد آدھے سٹاف کے ساتھ شورومز اور دکانوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ڈنمارک میں سکول اور بیوٹی سیلون کھول دیے گئے ہیں۔امریکہ میں تین کروڑ لوگوں کی بے روزگاری نے ہر طرف کہرام مچا رکھاہے۔ عوام سراپا احتجاج ہیں کہ معیشت کا پہیہ کسی طرح چلایا جائے ‘جس کے بعد پندرہ مئی سے نیویارک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان ہو گیا ہے ۔کینیڈا میں حفاظتی اقدامات کے ساتھ دس صوبوں میں کاروبار کی مکمل اجازت دے دی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں ریسٹورنٹس‘کھیل کے میدان ‘ یونان میں سکول‘ دکانیں اور دفاترکی رونقیں بحال ہوگئی ہیں ‘جبکہ ویتنام ‘ چین‘دبئی‘سعودی عرب‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں ۔
پاکستا ن میں رمضان اور عید پر کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کاروباری حضرات کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔ میرااحساس ہے کہ کاروبار کو رمضان کے دنوں میں چوبیس گھنٹوں کیلئے کھولنا زیادہ سود مندہو گا‘ نہ کہ مخصوص اوقات میں‘ کیونکہ تھوڑے وقت کی اجازت دینے سے رش کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور وبا کے ان دنوں میں رش ہماری قومی صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔وزیراعظم عمران خان اب فیصلہ سازی کے جوہر دکھائیں اور عوام کو بتائیں کہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا؟ عوام آ پ کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں