ملک سے عشق کی انتہا

انسان جہان ِ فانی کی وہ واحد ہستی ہے ‘جو دوسروں کے لیے جینے اور مرنے کا حوصلہ رکھتاہے ۔ وہ اپنی ایک زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیاں بسر کرتا ہے ‘ کبھی اس کا واسطہ زندگی کی خوشگواریوں سے پڑتا ہے ‘تو کبھی حالات کی ناگواریوں سے ۔وہ مشکل سے مشکل مراحل سے گزرتا ہے ‘مگر اپنے دل کی تڑپ کو دھیمی نہیں پڑنے دیتا ۔ یو ں کہہ لیجیے انسانی زندگی ایک آئینہ خانہ ہے ‘ جہاں ہر چہرے کا عکس بیک وقت درجنوں آئینوں پر پڑتا ہے ۔ ایک چہرے پر غبار آجائے تو درجنوں چہرے گرد آلود ہو جاتے ہیں ۔ یقین مانیں ہماری کوئی خوشی ‘ کوئی غم صرف اپنا نہیں ہوتا ‘ کوئی نہ کوئی اس کا حصہ دار ضرور ہوتا ہے۔ ہم خود کو تلخ حالات کی بھٹی میں جلا کر اپنے پیاروں کو خوشیوں کے سنگھاسن پر بٹھاتے ہیں ۔یہ رِیت انسان صدیوں سے نبھا رہا ہے اور جانے کب تک نبھائے گا ۔انسان کا تلخ حالات کے ساتھ وہی تعلق ہے جو پھول کا کانٹے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ حضرت امیر خسرو نے یہ نقطہ یوں بیان کیاہے ۔ ع
گل بسے دیر نماند چوشداز خار جدا 
(جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا) 
پاکستان سمیت دنیا بھر میں وبا کا موسم ہے ؛یہ موسم باقی موسموں سے مختلف ہے اور شدت پسند بھی۔ اس کا علاج احتیاط ہے ‘ ذمہ داری ہے اور اپنوں سے محبت ۔ یہ مرض ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم نے سب سے پہلے خود کو وائرس سے بچانا ہے اور خود سے پہلے دوسروں کو ۔یہ وبا ہمارے کانوں میں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اب بھی وقت ہے خود غرضی اور بے احتیاطی کی چادر اتار پھینکیں ‘ورنہ باقی ماندہ زندگی روگ بن جائے گی اور روگ لگی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں عوام کو کورونا سے بچانا حکومت کی ذمہ داری تھی جو وہ پوری نہ کر سکی۔ اب لاک ڈاؤن کے کالے بادل پوری طرح چھٹ چکے ہیں‘ دکانیں ‘ بازار اور سڑکیں عوام کے لیے کھول دی گئی ہیں۔آپ لمحے بھر کے لیے اپنے دل سے پوچھیں ‘جو حکومت لوگوں کو گھروں میں قید کر کے کورونا کیخلا ف جنگ نہیں لڑ سکی ۔کیا اب وہ حکومت یہ بھاری بوجھ اٹھا سکے گی؟ جواب مل جائے تو اپنے گریبان میں جھانکیں کیا آپ بطورِشہری اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہیں ؟اگر نہیں تو گھر میں بیٹھے بوڑھے والدین کی پریشانی خود پر طاری کریں ‘ احساسِ ذمہ داری آپ کے اندر رقص کرنے لگے گا ۔ قدیم چینی کہاوت ہے کہ سب سے خوش نصیب آدمی وہ ہے ‘جو ہر حال میں جینا سیکھ لیتا لے ۔ پاکستانیوں کو بھی اگلے ڈیڑھ برس تک مختلف زندگی جینا ہے‘ انہیں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا ہے اور ملکی معیشت کو بھی چلانا ہے ۔ دونوں کام مشکل ہیں‘ مگر ناممکن نہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین 2021ء کے آخر تک ممکن ہو سکے گی ‘ جس کے بعد پاکستانی حکومت نے معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے لاک ڈاؤ ن کو پابند سلاسل کر دیا ہے ۔ اب‘ ساری ذمہ داری عوام کے کندھوں پر ہے کہ وہ کس طرح اپنی اور اپنے گھر والو ں کی جان کا پہرہ دیتے ہیں ۔ یہ ذمہ داری ان پر اخلاقی ہے‘ قانونی نہیں ‘مگر انہیں یہ بوجھ ہر صورت اٹھانا ہے‘ کیونکہ اب انہیں اپنے لیے نہیں ملک کیلئے جینا ہے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم بند گلی میں نہیں ہیں ‘ کچھ راستے ہیں جن پر پاکستانی چل پڑیں تو دھندلی منزل بھی روشن مینار کی صورت جگمگانے لگے گی ۔ 
(1) پاکستان کے پچاس فیصد شہری آج بھی کورونا وائرس کو وبا نہیں‘ بلکہ جھوٹ ‘ دھوکہ اور فریب سمجھتے ہیں اور باقی تیس فیصد میں سے بھی دس فیصد ہی احتیاط کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہے کہ یہ بیماری جان لیوا ہے اورہماری حالت کی چھو ت دوسروں کو بھی لگتی ہے‘ اس لیے سماجی رابطوں میں محتاط رہناہے ‘ ماسک اور سینی ٹائزر کو زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہے ۔ 
(2)کورونا وبا کے ان دنوں میں ہمیں اس بازار کا رخ نہیں کرنا جہاں بھیڑ ہو‘ اس دکان میں نہیں جانا جہاں پہلے سے چار لوگ موجود ہوں‘ شادی بیاہ کو خاندان تک محدود رکھنا ہے اورغیرضروری مذہبی و سماجی اجتماعات کا بائیکاٹ کرنا ہے ۔ 
(3)ملکی معیشت کو تاریخ کے بد ترین دنوں کا سامنا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے‘ جبکہ کروڑوں کی باری آسکتی ہے ۔ خدارا دکھاوے کی دنیا کو لات ماریں اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دیں ‘ورنہ آنے والے دنوں میں ڈالر کا دباؤ اتنا ہو گا کہ حکمران سنبھال نہیں سکیں گے۔ مہنگائی آپے سے باہر ہو جائے گی اور عوام کی زندگی اجیرن اور انتہائی بدصورت ۔ 
(4) موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان کا جو خواب چند ماہ پہلے دیکھا تھا۔ اب‘ اسے پورا کرنے کا سنہری موقع ہے۔ کاروباری حضرات کو چاہیے کہ آن لائن کاروبار کو فروغ دیں‘ تاکہ بازاروں میں رش کا راستہ روکا جا سکے ۔ آن لائن مصنوعات کی کوالٹی کوخاص ترجیح دی جائے ‘تاکہ خریداروں کا اعتماد بحال رہے ۔امریکہ کی ایمازون اور چین کی علی بابا کمپنیاں اگر آن لائن کاروبار سے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتی ہیں تو پاکستان کا کاروباری طبقہ پیچھے کیوں رہے ؟ 
(5) پاکستان ایک زرعی ملک ہے ‘مگر جی ڈی پی میں اس کا حصہ 19 فیصد سے بھی کم ہے ۔یہ بہترین موقع ہے کہ ہم اپنی زراعت کو فروغ دیں ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کو زرعی معیشت کا حصہ بنایا جائے ۔ چین میں سبزیوں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے ‘جس کو پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے اور بے روزگاری بھی کم ہو گی ۔ 
(6) دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے‘ جس کا مقابلہ درخت لگا کر کیا جا سکتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے اپنے وسائل کا رخ اس طرف موڑدے ‘ نیزڈیڑھ سال تک یہ مہم جنگ کی طرح لڑی جائے ‘ کیونکہ اس سے بے روزگاروں کو روزگار ملے گا اور بیش تر پاکستانیوں کو اچھی زندگی نصیب ہو گی ۔ 
جرمنی ‘ فرانس ‘ اٹلی ‘ سپین اور جنوبی کوریا میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس دوبارہ شدت پکڑ سکتا ہے‘ اگر ترقی یافتہ اور منظم قوموں کا یہ حال ہے تو ہم جیسے بھلا کس قطارشمار میں ہو ں گے ۔ ہمیں دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے خود کو وائرس سے محفوظ رکھنا ہے ‘ یہی ملک سے عشق کی انتہا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں