’’ارطغرل غازی ‘‘اور’’عشقِ ممنوع‘‘… (1)

صدیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے تقلیدی عقائدہوتے ہیں۔یہ عقائد اسے ابھرنے نہیں دیتے‘ ورنہ کوئی ایسی بندش نہیں ‘جو کسی بھی انسان کو آئن سٹائن بننے سے روکتی ہو ۔ انسان کا ہر عمل ‘ ہر عقیدہ اور ہر نقطۂ نظر جو اسے خاندانی روایات ‘ ابتدائی تعلیم اور صحبت کے ہاتھوں ملا ہو ‘ اس کیلئے ایک مقدس ورثہ ہوتاہے‘ وہ اس ورثے کی جان پر کھیل کر حفاظت کرتاہے ۔ بسااوقات موروثی عقائدکی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اور گردوپیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا ۔وہ اپنے عقائد کی دنیا اپنے اند ر بسائے رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی بھی اس سے اختلاف نہ کرے ‘ یہی وہ بنیاد ہے‘ جس سے معاشروں میں انتہا پسندی اور شدت انگیزی جنم لیتی ہے ‘ جبکہ اعتدال پسند معاشروں میں ہمیشہ بامقصد اور علمی مباحثے ہوتے ہیں ‘جو فکرونظر کو وسعت دیتے ہیں ‘مگر بیمارمعاشروں کا حال بھی عجیب ہوتا ہے‘ وہاں ہر دم بے معنی اورغیرضروری بحث کے چڑھاوے چڑھتے ہیں‘ جو خیالات کی چبھن کواور شدید کر دیتے ہیں ۔
پاکستا ن میں ان دنوں دو موضوعات پر تکرا ر عام ہے؛ ایک ڈراما ''ارطغرل غازی‘‘ جبکہ دوسرا''محمد بن قاسم اور راجہ داہر‘‘۔ آپ ملاحظہ کریں ‘جہاں دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ویکسین بنانے پر مقابلہ جاری ہے‘ وہاں ہم کن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں؟ انسانیت کو لہو لہان ہوتے دیکھ کر بھی ہم بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہیں اوراوپر سے ستم یہ کہ ہمیں کوئی جگانے والا بھی نہیں ۔
اگر ہم گزشتہ دس سال کا جائزہ لیں توپاکستان میں تین ڈرامے سب سے زیادہ مقبول ہوئے ۔ایک'' عشق ِممنوع ‘‘ دوسرا ''میرے پاس تم ہو‘‘ اور تیسرا ''ارطغرل غازی‘‘ ۔عشق ممنوع اور میرے پاس تم ہو کی مقبولیت کی وجوہ ایک جیسی تھیں؛ دونوں میں ممنوعہ جذبات کو عشق کی رنگین چادر میں لپیٹ کر دکھایا گیا تھا ‘ جسے عوام نے جی بھر کر دیکھا ۔ ہاں البتہ ! ارطغرل غازی کے مشہور ہونے کی دو وجوہ ہیں؛ایک نظریاتی اور دوسری سیاسی ۔نظریاتی جنگ اب صرف نظریاتی نہیں رہی‘ بلکہ دو انتہاؤں کا جھگڑا بن چکی ہے ۔ ایک طرف وہ ہیں‘ جن کا ڈراما ‘ فلم ‘ موسیقی اور فنون لطیفہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ جبکہ دوسری طرف وہ عالم فاضل لوگ ہیں ‘جن کا اسلامی تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ان لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ ان میں توازن اور اعتدال پسندی چاہ کر بھی نہیں آتی۔ دونوں طرف کا انتہا پسند طبقہ اپنے اپنے خیالات کو دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے موروثی عقائد اور گروہی مفادات سے مجبور ہوکر بحث برائے بحث کر رہے ہیں‘ ورنہ ڈرامے کو ڈراما سمجھ کردیکھنے میں کیا قباحت ہے؟ ''ارطغرل غازی ‘‘کبھی اتنا مشہور نہ ہوتا‘ اگر وزیر اعظم عمران خان اس کی تعریف نہ کرتے ۔ وزیراعظم کے ایک بیان نے ان کے حامیوں اور مخالفین کی تلواروں کو بے نیام کردیا ۔ پی ٹی آئی کے ٹائیگروں کو موقعہ مل گیا اور انہوں نے ''ارطغرل غازی ‘‘کو ڈرامے سے زیادہ سمجھ لیا ۔ ہر طرف تعریفیں ایسے ہونے لگیں‘ جیسے پاکستان لال قلعے پر جھنڈے گاڑ آیا ہو۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین تو جیسے اسی موقعہ کی تاک میں تھے ‘انہوں نے اس ڈرامے کو دیکھے بغیر تنقید کے نشتر چلانا شروع کردیے ۔ اسلامی تاریخ اور ترکوں کی تاریخ کو گڈمڈ کر دیا اورعمران خان کی ضد میں ترک فنکاروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘جو کسی طور بھی مناسب فعل نہیں ۔ 
اب ان کی بات کرتے ہیں‘ جنہوں نے شاید ہی کبھی زندگی میں کوئی ڈراما یا فلم دیکھی ہو ‘ لیکن ''ارطغرل غازی‘‘ کے وہ بھی دیوانے ہیں‘ کیونکہ سلطنت ِعثمانیہ ان کے دلوں میں بستی ہے ۔وہ ڈرامے کے کرداروں سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ انہیں حقیقی زندگی میں بھی اتنا اجلا دیکھنا چاہتے ہیں‘ جتنا وہ ڈرامے میں ہیں ۔ یہ ان کی آرٹ سے دوری کی پہلی جھلک ہے ۔ شیکسپیئرنے کہا تھا کہ'' ڈرامے کو تعصب کی عینک سے نہیں‘ بلکہ دل ودماغ کی نظر سے دیکھنا چاہیے‘‘۔ کتنے پاکستانی ہیں‘ جو اس پر عمل کر رہے ہیں ؟ ادب اور تاریخ کے طالب علموں کو یہ بات نہیں بھولناچاہیے کہ کوئی بھی ڈراما یا فلم تاریخ کی پوری کہانی بیان نہیں کرتا‘ رائٹر کو فکشن کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اس کے کمرشل مفادات اسے کہانی بدلنے کا جواز پیش کرتے ہیں‘ لہٰذا جو لوگ ''ارطغرل غازی ‘‘ ڈرامے پر تنقید کر رہے ہیں ‘ان کے پاس کوئی علمی دلیل ہے تو ضرورموضوعِ بحث بنائیں‘ اگر کہیں تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے تو یہ نکتہ عیاں ہونا چاہیے ‘ورنہ یقین مانیں یہ بحث لاحاصلی کا کھیل ہے ‘جس کا انجام محض وقت کا ضیاع ہے ۔
سوشل میڈیا پر '' ارطغرل غازی‘‘ پر بحث لبرلز نے شروع کی اور انتہا ان لوگوں نے کی جو ڈرامے کو گناہ سمجھتے ہیں ۔ یہ کیا بچگانہ منطق ہے کہ ایک ڈراما دیکھنے سے ہمارا کلچر تباہ ہو جائے گا ؟ ہم ترکوں کو فالو کرنے لگیں گے ‘ ہمیں اسلامی تاریخ سے زیادہ برصغیر کی تاریخ کا پیچھا کرنا چاہیے‘ اگر ڈراما پورا چل گیا تو ہماری پاکستانیت ترکی کے جھنڈے میں لپٹ کر لال ہو جائے گی ۔ یہ عقلی دلائل ہیں یا غیر منطقی ؟ فیصلہ آپ خود کر لیں‘ مگر خدارا یاد رکھیں ہمارا کلچر اتنا بوسیدہ نہیں کہ ایک ڈرامے سے لیرولیر ہو جائے گا ۔ یہاں افغانی حملہ آور آئے‘ منگولوں نے حکومت کی ‘ ترک اور عرب حکمران رہے ‘ یونانی اور انگریز حاکم بنے‘ کیا ہمارے آباؤاجداد نے شلوار قمیص پہننا چھوڑ دی ؟ کیا آلو گوشت‘ مکئی کی روٹی اور ساگ ہمارے دسترخوانوں کا حصہ نہیں رہے؟ کیا شادیوں میں ڈھول اور بھنگڑا اب نہیں ہوتا ؟ کیا ہیر رانجھا اور سوہنی ماہیوال کی داستان اگلی نسلوں کو منتقل نہیں ہوئی ؟ کیا بلھے شاہ گور تلے جا سویا ہے ؟یاد رکھیں لوگ مذہب بدل لیتے ہیں‘ مگر کلچر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا ‘ پنجابی لندن میں بھی پنجابی ہی ہوتا ہے اور سندھی‘ سندھی ! 
''ا رطغرل غازی‘‘ پر تنقید کرنے والے Roman Empire دیکھتے ہیں تو پاکستانی روایات اورثقافت کو کیوں یاد نہیں رکھتے ؟ علاوہ ازیں امریکی ویب سیریز Marco Polo ‘ The Last Kingdom اور Spartacus کو دیکھتے وقت انہیں پاکستانی ہونا کیوں بھول جاتا ہے؟ یہی نہیں ‘ بلکہ بھارتی فلمساز سنجے لیلا بھنسالی نے ''پدماوت‘‘ میں علاؤالدین خلجی کو عیاش دکھایا‘ تو پاکستان میں کن لوگوں نے تالیاں بجائی تھیں ؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں