اُن کا کوئی قصورنہیں!

مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا ایک شعر ہے :؎
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا 
مگرپاکستان کے عوام نے غالبؔ کی ایک نہ سنی اور عمران خان صاحب پر اعتبار کر بیٹھی‘ مگر بدلے میں عوام کو کیا ملا ؟''وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘‘ لگتا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کا کہا‘انہوں نے سچ ثابت کردیا ۔ایک نہیں ‘ دو نہیں درجنوں وعدے ایسے ہیں‘ جن کو عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک ِانصاف بھول چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس پارٹی کامنشور کسی میلے میں گم ہوگیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا زدہ معیشت‘ پاکستان کے عوام کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے‘ مگر جوقہر ناتمام وعدوں نے ڈھایا ہے‘ اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے جو خواب‘عام آدمی کودکھائے گئے تھے‘ آج 22 ماہ بعد بھی وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ ذیل میں وعدے یاددہانی کیلئے پیش ِ خدمت ہیں:
(1) تعلیمی تفریق ختم کرکے یکساں نصاب لانے کا وعدہ کیاتھا‘ مگر وہ وزیراعظم بننے کے بعد تاحال اس طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکے ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں ساڑھے تین کروڑ‘ مدارس میں 25لاکھ اور انگلش میڈیم میں 8لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ یہی نہیں ‘ وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنا اپنا تعلیمی بجٹ بھی کم کیاہے ۔ نون لیگ کی حکومت نےHEC کا بجٹ 35 ارب رکھاتھا ‘جسے موجودہ حکومت نے کم کر کے 28 ارب کردیا ہے۔بیرونی سکالرشپس پر بھی پابندی لگائی گئی ‘ جسے بعدازاں تھوڑا نرم کیا گیا ۔ (2)سرکاری ہسپتالوں کی بہتری کا وعدہ بھی تاحال وفا نہیں ہو سکا۔ کوئی نیا ہسپتال بنا ہے‘ نہ ریسرچ سینٹر۔ حکومت نے ہسپتالوں میں غریب کا سہارا بننا تھا‘ مگر ٹیسٹ کی فیس بڑھادی گئی اور بہت سی مفت ادویات پر پابندی لگادی ۔پنجاب اور کے پی حکومتوں نے MTI ریفارمز ایکٹ کے ذریعے تمام بڑے ہسپتالوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی کوشش کی‘ جس پرتاحال اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔وفاقی حکومت نے صحت کا بجٹ13897 ملین سے کم کرکے11058ملین روپے کر دیا اور یوں بجٹ میں 20فیصد کٹوتی سے فی کس صحت پر خرچہ 62 روپے سے کم ہو کر50 روپے ہو گیاہے ۔ 
(3) سیاست سے پاک بیوروکریسی‘ بھی ان کا ایک خواب تھا ۔ 22 ماہ میں پنجاب میں چار چیف سیکرٹری اور چار آئی جی پولیس سیاست کی نذر ہو چکے ہیں ۔ وفاق ‘ پنجاب اور کے پی میں ایک ایک محکمے کا سیکرٹری چھ چھ بار تبدیل ہو چکا ‘جبکہ ڈی پی اوز تو سیاسی دباؤ کے باعث لباس کی طرح بدلتے ہیں۔(4) خارجہ پالیسی میں اصلاحات کا وعدہ کیا گیا‘مگر تاحال وہ ایساکرنے میں بے بس نظر آتے ہیں ۔ وفاقی حکومت آج بھی طاقت ور مسلم ممالک کے زیر اثر ہے ‘ جس کی سب سے بڑی مثال وزیراعظم کاملائیشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرنا ہے‘ کیونکہ مبینہ طور پرکچھ دوست ناراض ہوگئے تھے ۔ ایران ‘ یمن ‘شام اور عراق کے مسائل پر بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی آزادد کھائی نہیں دیتی ۔ امریکہ اور بھارت کے معاملے پر بھی ان کے ماضی کے بیانات اورتھے ‘جبکہ وزیراعظم صاحب کے عزائم اور دکھائی دیتے ہیں ۔ (5) وفاق کو مضبوط کرنے کاوعدہ بھی سراب ثابت ہوا۔ کورونا وائرس کے معاملے پر بھی سندھ ‘ کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں وفاق سے نالاں ہیں کہ وہ ان کی مدد کو نہیں آیا ہے ۔ (6)جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ بھی شاید ووٹ لینے کا بہانہ تھا۔ پنجاب حکومت کئی بار کہہ چکی ہمارے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ‘اس لیے صوبہ بننا مشکل ہے ۔ دوسال ہونے کوہیں‘ مگر انتظامی سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنانے کے اعلان اورتین ارب روپے مختص کرنے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ 
(7) بلدیاتی نظام کے بہت بڑے داعی تھے‘ مگر عملی طور پر وہ بلدیاتی اداروں کو ختم کیے بیٹھے ہیں ۔ ڈیڑھ سال ہونے کو ہے کہ ملک میں کوئی بلدیاتی نظام نہیں ۔ ترقیاتی فنڈز کوقومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران استعمال کررہے ہیں ‘جو کسی طور پی ٹی آئی کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتا ۔(8) کراچی کو ترقی دینے اور قبضہ مافیا سے پاک کرنے کے حوالے سے جناب وزیر اعظم صاحب بڑے پُر عزم تھے ۔ کراچی کی ترقی کے لیے 162ارب دینے کا وعدہ کیا تھا‘ مگر یہ وعدہ ابھی تک وعدہ ہی ہے ۔ چودہ سیٹیں جیتنے کے باوجود کراچی کا کوئی مسئلہ حکومت نے حل نہیں کیا ۔پانی کچرا‘ ٹرانسپورٹ ‘ سٹرکیں اور پل نعرہ بازی کی نظر ہو چکے ہیں ۔ (9)ایک کروڑنوکریاں حکومت نے کیا دینا تھیں ‘ 20 ماہ میں 22 لاکھ افراد بے روزگاری کی دلدل میں چلے گئے ۔ رہی سہی کسر کورونا لاک ڈاؤن نے پوری کر دی‘ جس کی وجہ سے تاحال ایک کروڑ سے زائد لوگوں کا روزگار بحال نہیں ہوسکا ۔(10) پچاس لاکھ گھروں کا خواب بھی آنکھوں میں چبھن دے کر چلا گیا ۔نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی مطلوبہ رفتارسے کام نہ کرسکی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی تک چند ہزار گھروں پر ہی کام شروع ہوسکا ہے ۔ پانچ سال میںدو لاکھ گھر بھی بن جائیں تو بہت بڑی کامیابی ہوگی۔(11)کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لگایا گیا‘ مگر ایک کے بعد ایک کرپشن کی غضب کہانی سامنے آ رہی ہے ۔ ادویات ‘ شوگر‘ گندم ‘ بی آر ٹی پشاور‘ آئی پی پیز اور گیس سکینڈل اس حکومت کے ماتھے کا جھومر بن چکے ہیں‘ مگر کسی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ (12) حکومت نے احتساب کو مضبوط کرناتھا‘ مگر ایک آرڈیننس کے ذریعے اس کو کمزور کر دیا گیا ‘ جس کے بعد بہت سے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ریلیف مل گیا ہے۔(13)وہ ‘قوم سے آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس اکھٹا کرنے کے خواہاں تھے ‘مگر یہاں بھی معاملہ الٹ ہوا ۔پہلے مالی سال میں حکومت‘ سابق حکومت سے بھی سات سو ارب روپے کم ٹیکس اکھٹا کرسکی ۔ رواں مالی سال میں حکومت کا ہدف 5500 ارب روپے ہے‘ جس میں ماہرین کے مطابق‘ 1500 ارب روپے شارٹ فال کا خدشہ ہے‘ کیونکہ اپریل کے اختتام تک 3307.5 ارب روپے ہی اکٹھے ہوسکے ہیں ۔ 
جناب وزیراعظم کو شاید اقتدار میں آنے کے بعد احساس ہوا ہو کہ پاکستان جیسے ملک میں حکومت کرنا کانٹوں پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے‘ جہاں روز نیا دکھ ملتا ہے اور تلووں سے زخم ختم نہیں ہوتے ۔الغرض سیاسی وعدوں کے اس کھیل میں ان کا کوئی قصور نظر نہیں‘ سارا قصور عوام کا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں