ایک اور لاک ڈاؤن کی تیاری

یہ چار عورتوں اور پانچ خاندانوں کی کہانی ہے ‘ یقین مانیں یہ کوئی افسانہ نہیں ‘بلکہ سچ کی منڈیر پر بیٹھا ہوا وہ قصہ ہے جو ہر گھر میں جھانک کر کہہ رہا ہے :حضرت احتیاط‘ احتیاط‘ احتیاط۔ گزشتہ روز ایک پکے لاہوری دوست کا فون آیا جو خاصا پریشان تھا‘ وجہ پوچھی تو ایاز نے بتایا کہ میں کورونا کے باعث بہت سخت بیمار ہوں ‘ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور بے ساختہ پوچھا‘ کیسے ؟ تم تو گھر سے باہرنکلے ہی نہیں؟ بس یہاں سے دل دہلا دینے والی افسوس ناک کہانی کا آغاز ہوتا ہے ۔ دوست نے بتایا کہ یہ سارا کیا دھرا چار نندوں کا ہے جس کی سزا خاندان کے بتیس لوگ کورونا کی صورت میں بھگت رہے ہیں ۔ حکومت نے پندرہ رمضان کو بازار کھولے تو میری بہن کی نندخریداری کرنے گئی اور کورونا وائرس کو ساتھ لے آئی ۔وہ ایک ہفتے بعد ہلکے بخار کے باوجود میری بہن کے گھر افطاری کرنے پہنچ گئی اور یوں وائرس ایک گھر سے دوسرے گھرمنتقل ہوگیا ۔ چاردن بعد میرے والد کی برسی تھی ‘ میری بہن ماں سے ملنے آئی اور وائرس ساتھ لے آئی ۔ یہاں پہنچ کر ایاز کی آواز قدرے نحیف ہوگئی اور لڑکھٹرانے لگی۔ میں نے اسے تھوڑی تسلی دی تو دوست پھر گویا ہوا : کچھ دن بعد عید تھی میری بیوی اپنے والدین سے ملنے گئی تو وائرس بھی چوتھے گھر چلا گیا اور پھر وہاں سے وائرس میری بیوی کی نند اپنی ماں کے گھر لے گئی ۔ آج حالت یہ ہے کہ پانچوں خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کورونا کا مریض نہ ہو۔ دکھ اس بات کا ہے کہ تھوڑی سی غفلت سے ہمارے سات بزرگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ایاز کے جذبات بے قابو ہو گئے اور اس نے فون بند کردیا ۔
یہ ایک خاندان کی کہانی تھی ‘ کون جانے ہمارے آس پاس کتنے ہی ایسے خاندان ہوں جہاں وائرس نے اسی طرح پر پھیلائے ہوں گے ۔ لاعلمی ‘ لاپروائی اور جہالت کا یہ سنگم کتنا خطرناک ہے یہ سوچ کر ہی انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے ۔ خدا جانے ہماری قوم کو وائرس کی حساسیت کا اندازہ کیوں نہیں ہورہا؟ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور سائنس دان کورونا وائرس کو ایٹم بم اور دہشت گردی سے زیادہ مہلک قرار دے چکے ہیں ‘مگر ہم ہیں کہ جہالت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔ ستم دیکھیں آج کے جدید دور میں بھی پاکستان کی آدھی آبادی کورونا کوحقیقت نہیں مانتی ۔ یقین کریں یہ کوئی تعلیم کا مسئلہ نہیں بلکہ احساس ِذمہ داری کا قتل ِعام ہے۔ 
اسلام کا دوسرا نام فہم وفراست اور دلیل ہے جبکہ رسول پاکﷺ کی ساری زندگی جہالت کے خلاف جہاد کرتے گزری ہے‘ مگر ہم اسلام کے کیسے پیروکار ہیں جو ماہرین کی رائے کواہمیت نہیں دیتے اورحکومت کا کہا ہوا میں اڑادیتے ہیں۔شاید اس کی بڑی وجہ عوام اور حکومت کے درمیان سوشل کنٹریکٹ کا نہ ہونا ہے ۔ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی اور عوام حکومت کی عزت کو لات مار کر رکھتے ہیں ‘ ورنہ کاروبار ہمارے ہاں انوکھے نہیں کھلے تھے جو ہم نے اودھم مچا دیا‘ اٹلی میں بھی عجائب گھر ‘ پبلک ٹرانسپورٹ ‘ریسٹورنٹس اور ہول سیل کی مارکیٹیں کھلی ہیں مگر مجال ہے کہیں رش لگتا ہو۔ فرانس میں ریٹیلرشاپس اورریسٹورنٹس پر کام جاری ہے مگر کہیں بھی عوام آپے سے باہر دکھائی نہیں دیے ۔ یونان میں دکانوں کے علاوہ سکول بھی کھلے ہیں اور ان کے بچے بھی ڈسپلن کا اعلیٰ مظاہرہ پیش کر رہے ہیں اور تو اور ویتنام کے عوام بھی اپنی حکومت کے فیصلے پرلبیک کہہ رہے ہیں اور بازاروں میں رش نہیں لگنے دے رہے ۔ ہمارے ہاں عجیب تماشالگا ہے‘ لوگ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے کو عیب سمجھ رہے ہیں ۔جب ہمارے رویے یہ ہوں تو کورونا کا پھیلاؤ کون مائی کا لعل روک سکتا ہے ؟ پنجاب حکومت نے رینڈم سیمپلنگ کے ذریعے اندازہ لگایا کہ لاہور میں کورونا کے سات لاکھ کے قریب مریض ہو سکتے ہیں تو عوام نے اس کو بھی دنیا سے پیسے مانگنے کا بہانا قرار دے دیا ۔جس قوم میں اتنے سارے'' بہادر‘‘افراد ہوں گے تو تباہی کا راستہ کیسے بند ہوسکتا ہے ؟ سازشی اور من گھڑت تھیوریاں صر ف ہمارے ہاں کا مسئلہ نہیں بلکہ اور ممالک بھی جہالت کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ دوروز قبل اٹلی کے سان ریفایلی ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ نیا کورونا وائرس اتنا جان لیوا نہیں ہے جتنا وبا کے آغاز میں تھا‘ مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد ڈبلیو ایچ او نے اسے مسترد کردیا۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو سائنس کی حقیقتوں کی تلاش میں نکلنا ہو گا ورنہ دنیا ہمیں قدموں تلے روندنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔عجیب بات ہے‘ رنگ‘ نسل سے بے نیاز سائنسدان انسانیت کے بچاؤ کا فارمولا ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج بھی کورونا کو نزلہ زکام اورعام بخار سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ۔ سڈنی یونیورسٹی اور شنگھائی کی فوجان یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق کووڈ 19 ایک سیزنل بیماری کی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ یہ ان دنوں نمودار ہوا کرے گا جب ہوا میں نمی کم ہوتی ہے ۔ ہوا میں ایک فیصد نمی کی کمی سے کیسز میں چھ فیصد اضافہ متوقع ہے اور لگتا یوں ہے کہ یہ مرض سردیوں میں مزید بڑھ سکتا ہے ۔ یہی نہیں‘ برطانوی حکومت کے سائنٹیفک ایڈوائزری گروپ آن ایمرجنسیز کی جانب سے جاری مقالے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس طویل المیعاد بنیادوں پر طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے ۔شدید بیماری کے بعد دماغی تنزلی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری کئی ماہ تک رہ سکتی ہے ۔ 
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو‘ کوئی تو بتائے کہ ایس او پیز کا غذ پر لکھنے سے نہیں بنتے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کروانا ہوتا ہے۔ بازاروں میں جس طرح ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کے ذمہ دار تاجر‘ عوام اورحکمران سبھی ہیں ۔ پاکستان میں کورونا کو ابھی اپنی انتہا کوپہنچنا ہے ‘بازاروں اور باقی پبلک مقامات پر یہی حال رہا تو حکومت ایک اور لاک ڈاؤن کرنے پر مجبورہوگی‘ جو سخت بھی ہو گا اور مشکل بھی ۔ آگے عوام خود سوچ لیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں