یہ داغ داغ اجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر

انسان نے جب سے آگہی حاصل کی ہے‘ وہ فطرت کی نامعلوم گہرائیوں کا قدم قدم پر کھوج لگاتا نظر آیا ہے۔علم وحکمت کے اس سفر میں انسان جتنی پچھلی گتھیاں سلجھاتا جاتا ہے‘ اتنے ہی نئے نئے سوالات اس سے بغل گیر ہوتے رہتے ہیں۔ آج ہزاروں سال کی مسافت کے بعد شاید ہی کوئی سوال ہو ‘جس کا جواب حضرتِ انسان نے نہ ڈھونڈنکالا ہو‘ مگر میرے ہم وطنوں قسمت دیکھیں کہ انہیں مبادیات ِ سیاست کا بھی علم نہیں ۔ درجنوں سوالات میرے معصوم عوام کے لبوںپر ہیں‘ مگر ایسادور دور تک کوئی نظر نہیں آتا کہ جو ان کی رہنمائی کرسکے ۔ موجودہ سیاست دانوں دیکھ لیں‘مسئلہ جتنا بھی گمبھیرہو یہ خود پر آنچ نہیں آنے دیتے ہیں اور دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ 
ہماری حکومت کا کمال دیکھیں کہ! ادھر جہانگیر ترین نے لندن کے لیے اڑان بھری‘ ادھر حکومت نے شوگر مافیا کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا فیصلہ سنا دیا ۔یہ محض اتفاق تھایا پھر کسی پلاننگ کاحصہ؟حکومت کو آج نہیں تو کل اس سوال کا جواب دینا ہو گا‘ ورنہ احتساب کا نعرہ بے معانی ہو کر رہ جائے گا ۔حکومت کے مطابق‘ نئی اور پرانی سبسڈی‘ انکم ٹیکس ‘سیلز ٹیکس‘بے نامی لین دین‘کارٹیلائزیشن‘جعلی برآمدات ‘ قرض معافی ‘ کارپوریٹ فراڈ‘منی لانڈرنگ اور صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات اداروں کے ذمے لگا دی گئی ہیں‘ جو اگلے نوے روز کے اندر اندر ان مافیاز کو دن میں تارے دکھا دیں گے ۔ اس اعلان کے بعد حکومت نے خوب داد سمیٹ لی ہے‘ مگر وہ سوال وہیں دھرا ہے‘ جس کی ذمہ داری سو فیصد حکومت نے اٹھائی تھی ۔سوال بہت سادہ ہے کہ چینی 54 روپے سے 85‘ 90اور 100 روپے تک کیسے پہنچی ؟ شوگر کمیشن کہہ چکا کہ اس سال شوگر کی لاگت 46 روپے فی کلو تک رہی تو اس کے بعد بھی چینی ابھی تک 85 روپے میں کیوں بک رہی ہے ؟ سب کو معلوم ہے کہ سارا مسئلہ چینی مہنگی ہونے کی وجہ سے شروع ہواتھا‘ مگر حکومت کی کامیاب حکمت ِعملی دیکھیں کہ اس نے ساری قوم کو سبسڈی کے پیچھے لگا دیا ‘جس کی حیثیت اس پورے معاملے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ حکومت نے سارے سکینڈل کا رخ ماضی کی حکومتوں کی طرف موڑ کر خود کو صاف چلی شفاف چلی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے حصے کا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھاتی اور ہر الزام کو دوسروں کے کندھوں پر کیوں لاد دیتی ہے؟یقین مانیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے‘۔ اس لے پیچھے ایک پوری ٹائم لائن ہے‘ جو حکمرانوں کی ذہنیت کو عیاں کرتی ہے ‘ جسے درج ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے:
(1) ان دنوں پورے ملک میں پیڑول کی قلت ہے ۔ امریکہ اورسعودی عرب میں تیل کوئی مفت لینے کوتیار نہیں ‘مگر شومئی قسمت ! ہمار ی عوام کو پٹرول ڈھونڈے سے نہیں مل رہا ہے ‘ جبکہ اس کی مکمل ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہے‘ مگر وزیراعظم صاحب کے اس وزارت کے معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ تیل کا بحران مصنوعی ہے اور اس کی ذمہ دار نجی پیڑول کمپنیاں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا نجی پٹرول کمپنیوں کو کنٹرول کرنا حکومت کاکام نہیں ہے؟ 
(2) تین ماہ ہونے کو ہیں کہ پوری وفاقی کابینہ نے کورونا وبا کو سنجیدہ نہیں لیا ۔ وزیراعظم اسے 80فیصد پاکستانیوں کے لیے عام فلو قراردیتے رہے ۔ اب‘ جبکہ یہ وائرس خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے‘حکام کہتے ہیں کہ عوام سنجیدہ نہیں‘ اس لیے وائرس پھیلا۔ سوال یہ ہے کہ حکام نے عوام کو اس خطرے سے آگا ہ کب کیا تھا؟ حکام تو یہاں تک کہتے رہے کہ کورونا وائرس نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے‘ دو تین فیصد اموات ہوں گی‘ کوئی مسئلہ نہیں ‘ گھبرانا نہیں ۔ اب‘ سارا ملبہ عوام پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے ؟ 
(3) لاک ڈاؤن کے معاملے میں بھی ایساہی ہوا۔ وفاق کی مخالفت کے باوجود صوبوں نے تالا بندی کی تو وزیراعظم صاحب بولے: یہ اشرافیہ کا کیا دھرا ہے ‘ پیسے والے لوگ اپنی زندگیاں بچانے کے لیے معیشت کا گلا دباناچاہتے ہیں ۔ یہاں بھی حکومت ذمہ داری اٹھانے سے قاصر نظر آئی اور اپنافیصلہ دوسروں کے سر تھوپ دیا ۔یہاںسوال یہ ہے کہ حکومت اشرافیہ سے کمزور کیسے ہوگئی ؟ 
(4)اس سال کے شروع میں گندم بحران نے سر اٹھا یا تو کہا گیا کہ یہ فلور ملز مافیا کی کارستانی ہے ۔45 روپے کلو والا آٹا 75 روپے تک بکتا رہا اور حکومت دیکھتی رہی۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں یہاں بھی اپنی ذمہ داری سے مکرتی نظر آئیں اور حکام بالا نے اس معاملے میں بھی سارا الزام مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں پر لگا دیا ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت مافیاز کے سامنے بے بس کیسے رہی اور انہیں کیفرکردار تک کیوں نہ پہنچایاگیا ؟ 
(5)جنوری 2019ء میں ہونے والا گیس سکینڈل عوام کو بھولے نہیں بھولتا ہے۔ 143 فیصد گیس کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام پر ڈھائی ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا‘ مگر یہاں بھی ذمہ داری پچھلی کابینہ پرڈال کر خود کو بچا لیا گیا ۔ پیڑولیم وزیر کو بدل کر دوسری وزارت دے دی گئی‘ مگر خود پر ایک حرف نہ آنے دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر اووربلنگ کا فیصلہ گزشتہ حکومت کا تھا تو آپ سات ماہ سے کیا کر رہے تھے؟ 
(6) پاکستان میں کون ہے‘ جو ادویات مہنگی ہونے کو بھولا ہو ۔ دوائیوں کی قیمت کئی سو فیصد بڑھنے کے بعدہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا ‘مگر حسب ِ عادت حکومت نے سارا الزام فارماسوٹیکل کمپنیوں پر ڈال کر اپنا دامن صاف رکھنے کی کوشش کی ۔ یہاں بھی ایک وزیرصحت کی قربانی دے کربعد ازاں اسے پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا‘ مگر الزام کواپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا ۔ 
(7) موجودہ حکومت آئی تو ڈالر بے قابو ہوگیااورہر چیز کی قیمت دوگنی ہوگئی۔وزیرخزانہ نے کہا کہ اس معاملے میںہمارا کوئی قصور نہیں‘ ہم بے قصور ہیں۔ سابق حکومت نے ڈالر کو مصنوعی طور پر روکا ہواتھا‘ جسے ہم نے مارکیٹ میں کھلا چھوڑ دیا ہے ۔ اب‘ مارکیٹ جانے اور ڈالر‘ ہمارا اس سے کیا لینا دینا ۔ 
مجھے یہاں چرچل کاایک معروف خطاب یاد آرہا ہے‘ جو اس نے عین جنگ کے بیچ کیا تھا کہ ''جوقومیں اپنے کیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں ‘وہ کبھی فاتح عالم نہیں ہو سکتیں‘‘ ۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی اگر بحرانوں سے نکلنا ہے تو سب سے پہلے ان کا سامنا کرنا سیکھنا ہوگا ۔حکومت کواپنے حصے کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانا ہوگا۔ مافیاز کیخلاف کارروائی ناگزیر ہیں‘ مگر مذکورہ بالا سوالات کے جوابات بھی عوام کو دئیے جائیں‘ کیونکہ یہ وہ سوالات ہیں‘ جو حکومت کا پیچھا کرتے رہے گے ‘ جب تک کہ ان کے جوابات آنہیں جاتے۔ دکھ کے اس موسم میں فیض احمد فیض ؔبے پناہ یاد آرہے ہیں ۔ ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں