اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

انسانی بستیوںمیں وعدوں کا وجود شاید علامتی ہوتا ہے‘ اسی لیے سیاستدان مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی سارے وعدوں کو بھول جاتے ہیں اورپھر ستم یہ کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ۔وعدے ظاہری وجود رکھتے تو ہمارے حکمرانوں کو اتنی وعدہ خلافی کی عادت نہ ہوتی۔ عوام اہل ِمنصب کی زبان سے نکلے ہر لفظ کو صبح شام دُہراتے یا میر ؔکی طرح گریہ کرتے : ع
خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تووعدہ وفا کرو ‘اب 
کراچی کے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر محترم وزیراعظم عمران خان نے کتنی سادگی سے کہہ دیا کہ صوبائی حکومتوں نے اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل نہیں کیے۔ وزیراعظم صاحب کاگلہ جائز تھا کہ سندھ میں بلدیاتی ادارے تو ہیں‘ مگر اختیارات نہیں ۔ کاش ! ان کے دل میں اتنی محبت پنجاب ‘ کے پی اور بلوچستان کے لوگوں کیلئے بھی ابھرتی ‘ جہاں پورے کا پورابلدیاتی نظام ہی لاپتا ہے۔ شاید سیاست کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ دوسروں کے عیب تو دیکھ لیتی ہے‘ مگر اپنے بدن پرلگے داغ اسے نظر نہیں آتے ۔یقین مانیں ‘اگر ایسانہ ہوتا تومقامی حکومتوں کی بربادی کا نوحہ لاہور اور پشاور میں بھی ضرورپڑھا جاتا ۔ 
کورونا وائرس نے جہاں یہ احساس دلایا ہے کہ ہمارا نظامِ صحت بوسیدہ اورعوام کا شعورکالے پانی کی طرح اندھا ہے‘ وہیں یہ دکھ بھی شامل حال ہوا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کی نبض سے کوسوں دُور کھڑی ہیں ۔ عام آدمی ان کی بات کو اپنے دل کی بات نہیں سمجھتا ۔ وفاق جتنے مرضی نعرے لگائے اور صوبے جیسے بھی سر بکھیریں عوام کی منشا کو نہیں بدل سکتے ۔یہ بلدیاتی ادارے ہی ہیں‘ جو گلی محلے میں بیٹھے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں ۔ کاش ! آج ملک میں تیسرے درجے کی حکومتیں کام کر رہی ہوتی تو کورونا وائرس کو لے کر اتنی کنفیوژن نہ ہوتی ۔ لوگوں میں آگہی مہم چلانے میں کتنی آسانی ہوتی ‘ کھانے پینے کا بدوبست اور مریضوں کو ٹیسٹ کروانے کے لیے راضی کرنا توکوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا ‘ مگر افسوس! صد افسوس ایسا نہ ہو سکا ۔ حکومت یہاں بھی سیاست کرنے سے باز نہ آئی اور انہوں نے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کی بجائے بے روزگار اور غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی ٹائیگر فورس بنا کر اپنی اور عوام کی مشکلات کو دو گناکر دیا ۔اپوزیشن نے ٹائیگر فورس کو ماننے سے انکار کردیا اور یوں یہ فورس متنازع ہو کر حکومت کے کا م آئی نہ عوام کے ۔عثمان ڈار تین ماہ سے وزارت کے کام کاج چھوڑکر ٹائیگرفورس کو منظم کرنے میں لگے ہیں ‘مگر ان کی کارکردگی سیالکوٹ سے باہر نہیں نکل سکی ۔  
ہماری بدقسمتی دیکھیں‘وفاقی اورصوبائی حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو مقامی حکومتیں انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔گزشتہ بارہ برسوں کے دوران صرف ایک بار بلدیاتی الیکشن ہوئے اور وہ بھی تحریک انصاف کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہ کرسکے ۔یہاں ایک اورالمیہ ملاحظہ ہو ! حکومت نے الیکشن سے قبل بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے کا جو وعدہ کیا تھا‘ وہ دو سال بعد بھی وفا نہ ہوسکا ‘ اگر تحریک انصاف بلدیاتی نظام کے ساتھ مخلص رہتی اور اس میں رخنہ نہ ڈالتی تو آج صرف پنجاب میں 22000ولیج کونسلز‘9 میٹروپولیٹن کارپوریشنز ‘ 182میونسپل کمیٹیز‘40 ٹاؤن کمیٹیز‘222 ٹاؤن اور150تحصیل حکومتیں کا م کر رہی ہوتی ۔ ٹائیگرفورس کے چند ہزار نوجوانوں کی بجائے دس لاکھ سے زائد افراد حکومت کی مدد کے لیے ہر وقت موجود ہوتے ۔ ہم بھی باقی دنیا کی طرح موثر لاک ڈاؤن کرتے اور حکومت کو کسی کے فاقوں سے مرنے کا ڈر نہ ہوتا ۔مقام حیرت ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے ‘جہاں مقامی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا فقدان رہا‘ جس کی وجہ سے کورونا کو کھل کھیلنے کاموقع ملا‘ورنہ دنیا میں چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی اس وبا میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے متاثر کن کام کیے ہیں۔ آپ زیادہ دور مت جائیں ‘اپنے پڑوس بھارت میں دیکھ لیں کہ کس طرح مقامی حکومتوں کی مدد سے کورونا کے پھیلاؤ کو کم کیا گیا ۔ ریاست کیرالا میں ولیج کونسلزنے حیرت انگیز اقدامات کرکے باقی ریاستوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ وہاں مقامی نمائندے لوگوں کی تربیت سے لے کر کھانا مہیا کرنے تک ہر کام کر رہے ہیں ۔ کورونا کے مریضوں کو قرنطینہ کرنے کا بدوبست بھی ولیج کونسل کے ذمہ ہے اورریاستی ایس او پیز پر عمل کروانا بھی۔ یوگنڈاکو دیکھ لیں ‘وہاں کی حکومت نے بلدیاتی اداروں سے کہاکہ وہ کچھ نہ کریں‘ سوائے لوگوں کو کھانا اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیا پہنچانے کے ‘ اسی طرح میکسیکو میں بھی مقامی حکومتوں نے فوڈ سکیورٹی کی ذمہ داری لی اور گلی گلی گھوم کر لوگوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کیا ۔ یوروگوئے کے بلدیاتی اداروں نے تو کمال ہی کر دیا‘ انہوں نے اپنے بوڑھو ں اور پہلے سے بیمار افراد کو کورونا سے بچانے کیلئے گھر گھر جا کر آگہی دی‘ جس باعث اموات کی شرح باقی دنیا سے کم رہی ۔ یہی نہیں ‘ ترکی ‘ بنگلہ دیش ‘ کولمبیا ‘اٹلی ‘انگلینڈاور جرمنی میں بھی مقامی اداروں نے مرکزی حکومتوں سے بڑھ کر کا م کیا اور اپنے لوگوں کی قیمتی جانیں بچائیں۔
کون جانے ہماری حکومت کو کیوں اندازہ نہیں کہ وبااور آفات کے دنوں میں بلدیاتی حکومتیں لیبارٹری کا کام کرتی ہیں اور عوام کو ہر ممکن سہولیات مہیاکرتی ہیں ۔زیادہ نہیں ‘اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک موقف ہی اختیار کر لیتیں تو شاید ہماری اتنی جگ ہنسائی نہ ہوتی ۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی) کاکہنا ہے کہ ''دنیا بھر میں مقامی حکومتیں موجودہ کورونا بحران میں سب سے آگے ہیں‘مگر پاکستان میں یہ حکومتیں اپنے شہریوں سے دور ہیں۔اس کی وجہ سے ریاست اورمعاشرے کے درمیان رابطہ کمزور ہوا ہے ۔ منتخب بلدیاتی سسٹم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں پر عمل درآمدکرنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے‘ کیونکہ ان کا اعتماد آبادی کے اندرونی سطح پر ہوتا ہے‘‘اگر وزیراعظم عمران خان کے پاس وقت ہو تو ضرور سوچیں کہ پاکستان میں کووڈ19 کے خلاف خاطر خواہ کوششوں کے باوجود نتائج ناقص کیوں رہے ؟ غریب پروری کے نعروں کے باوجود بڑے پیمانے پر بے روزگاری کیوں ہورہی ہے ؟اور سب سے بڑھ کر ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت عوام کا اعتمادکیوں کھورہی ہے ؟ اگران سوالات کے جوابا ت مل جائیں تو وہ اپنی حکمت ِعملی پر ضرور نظر ثانی کریں ‘وقت کی رفتار تیز ضرور ہے‘ مگر وقت ابھی ہاتھ سے نکلا نہیں ۔ 
مجھے یہاں نیویارک کے سابق گورنر ماریوکومو کی بات یا د آرہی ہے ـ ''سیاستدان الیکشن مہم میں شاعری کرتے ہیں اور امور حکومت سنبھالتے ہی نثر پر آجاتے ہیں‘‘ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہماری حکومت آج بھی الیکشن موڈ سے باہر نہیں نکلی اور مسلسل شاعری کرکے عوام کا درد بڑھا رہی ہے ۔ خدارا‘ حکومت زمینی حقائق کاادراک کرے اور ٹائیگر فورس کی ضد چھوڑ کر مقامی نمائندوں کو بحال کردے ۔ ابھی کورونا وائرس کا عروج آنا باقی ہے۔حکومت معاملہ فہمی کرے تو بگڑے معاملات سنبھل سکتے ہیں ۔ آج نہ جانے کیوں عباس تابش ؔکا شعر دل کوبے چین کررہا ہے :؎
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے 
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں