اگلی حکومت پھر تحریک انصاف کی ہوگی؟

اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا توحاکم وقت مرادبک نے جامعہ ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ علما ئے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامعہ ازہر میں صحیح بخاری کاختم شروع کر دینا چاہیے کہ یہ ان مقاصد کے لیے تیر بہ ہدف ہے ؛چنانچہ ایسا ہی کیا گیا‘ لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا‘اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے ۔ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں اور ادھر لوگ ختم خواجگان میں مصروف تھے ۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا‘ جوایک ایسے مقابلے کا نکلنا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بخارا روسیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ۔یہ دونوں تاریخی واقعات ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ''غبارِخاطر‘‘ میں تحریر کیے ہیں ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ'' دعائیں ضرو ر اثر کرتی ہیں‘ مگرصرف ان کے لیے جو حالات کا عزم وہمت سے مقابلہ کرتے ہیں‘‘ ۔ یقین مانیں یہ تاریخ کے روشن باب آج بھی بند نہیں ہوئے ۔ سیاسی حکمت کی یہ ناقابل فراموش داستانیںہر روز رنگین پرنٹ کے ساتھ دہرائی جارہی ہیں ۔؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا 
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں 
موجودہ حکومت کی یہ خوبی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو ‘وہ اس کا حل ضرور نکال لیتی ہے ۔ پیڑولیم مصنوعات کی قلت کو ہی لے لیں‘ چھبیس دن بعد جس دانائی سے بحران کو ختم کیا گیا یہ کرۂ ارض پرکوئی اور حکومت کر ہی نہیں سکتی تھی ‘ سانپ بھی مر گیا اورلاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔عوام ہر طرف بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ حکومت نے شوگر اور گندم کے بعد ایک اور مافیا کو شکست دے دی ہے ‘ ذخیرہ اندوزوں کوجرمانے کرکے تیل ان کے حلق سے نکال لیا ہے ۔ یہ ہوتی ہے حکومت اوریہ ہوتی ہے عوام کی خدمت !اس ملک کی اپوزیشن کو کیا معلوم تیل کی قیمت عالمی منڈی میں بڑھے تو ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں قیمت کو بڑھانا ضروری ہوتا ہے‘ ورنہ حکومت کو بہت نقصا ن اٹھانا پڑتاہے اور اگر کبھی بھولے سے عالمی سطح پر تیل کی قیمت کم ہوجائے تو پاکستان میں اس کا اطلاق فوری نہیں‘ بلکہ ڈیڑھ دو ماہ کی تاخیر سے ہوتا ہے‘ کیونکہ حکومت کے خرچے پورے کرنے کے لیے اضافی ٹیکس لگانا ناگزیر ہوتا ہے ۔وفاقی حکومت عوام دشمن ہوتی تو آج بھی ہر طرف مافیا کا راج ہوتا ‘جسم جھلساتی دھوپ میں لوگ سٹرکوں پر تیل کے لیے مارے مارے پھر رہے ہوتے‘ مگر حکومت نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 25 روپے تک بڑھا کر عوام کی یہ مشکل بھی دور کردی ۔ عوام اتنے بھولے بھی نہیں کہ یہ سیدھی سی بات سمجھ نہ پائیں کہ ایسے 74 روپے والے تیل کا کیا فائدہ جو دستیاب ہی نہ ہو ؟اب ‘پٹرول 100 روپے میں ہر طرف وافر مقدار میں مل رہا ہے۔کیا ہوا‘ اگر اس میں 46روپے ٹیکس شامل ہے ‘کون سی قیامت آ گئی ہے ؟ حکومت ٹیکس بھی تو عوام پر ہی خرچ کرتی ہے ‘ وہ کون سا ماضی کی حکومتوں کی طرح اپنے پیاروں کو نوازتی ہے۔ یقین کریں ‘ حکومت نے نیکی کر کے دریا میں ڈال دی ہے‘جس کے بعد عام آدمی اور اپوزیشن دونوں اس سے فیضیاب ہوسکتے ہیں ۔
وفاقی وزیربرائے پٹرولیم عمر ایوب کی منطق سنیں تو ان کی دانشمندی پر ایوارڈ دینے کو دل کرتا ہے‘ مگر اپوزیشن میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ سیاسی مخالف کے کسی زیرک فیصلے کو تسلیم کر سکے ۔ وزیرموصو ف کا کہنا ہے کہ بھارت میں پٹرول 180‘ بنگلہ دیش میں 174 ‘جاپان میں196اور تھائی لینڈ میں 159 روپے فی لیٹردستیاب ہے‘ مگر ہم 100 روپے میں پٹرول دے کر بھی طعنے سن رہے ہیں ۔بھلا ‘مجھ جیسے عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ مضبوط کرنسی اور کمزور کرنسی میںکیا فرق ہوتا ہے؟ یہ ہماری حکومت ہی ہے جو مضبوط کرنسی کو عیب بنا کر پیش کر سکتی ہے‘ ورنہ دنیا میں اور کون ہے جو اتنی سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کر سکے ؟ ایک اور حکومتی رکن فردوس شمیم نقوی نے تو وہ بیان دے دیا‘ جو آج تک کوئی معیشت دان یاسیاست کا گرونہیں دے سکا ۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ '' پٹرول کی قیمت ذخیرہ اندوزوں کو نکیل ڈالنے کے لیے بڑ ھائی گئی‘ ورنہ حکومت تو ایسا ہر گز نہیں چاہتی تھی ‘‘۔ ہمارے حکومتی لوگ اتنی ہوشمندی کا مظاہرہ اس لیے کر رہے‘ تاکہ حکومت کی رسوائی نہ ہو ۔عقل حیران ہے کہ اتنے سارے باکمال لوگ اتنی بالغ نظری کہاں سے لے آئے ہیں ؟ 
یہ حکومت کی دوراندیشی ہی تھی‘ جس نے پٹرول سستا ہونے پرہیجنگ(HEDGING) نہیں کی ‘ورنہ ایک سال تک عوام کو مافیا کے ہاتھوں ذلت کا سامنا کر نا پڑ تا ‘اگر حکومت ہیجنگ کر لیتی تو پٹرول 74 روپے کا رہتا اور پھر ذخیرہ اندوزوں نے کہاں سستا تیل بیچنا تھا ؟ ہیجنگ(HEDGING) کا ایک اور نقصان بھی تھا‘ اگرمستقبل میں تیل 15 ڈالرفی بیرل سے بھی نیچے چلا جاتا تو حکومت کس منہ سے عوام کا سامنا کرتی ؟ اب‘ عالمی مارکیٹ میں پٹرول 41ڈالر فی بیرل ہے تو کیا ہوا حکومت کو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ایل پی جی معاہد ے کی طرح کسی شرمندگی کااندیشہ تو نہیں ۔ ہمیں ہر حال میں اپنی عوام دوست حکومت کا شکر بجا لانا چاہیے‘ ورنہ مہنگائی کے اس دور میں اتنی سستی خدمت کون کر سکتا ہے ؟ یہ موجودہ حکومت کا ہی ظرف ہے‘ جو اپوزیشن کے سوتن والے طعنے برداشت کر لیتی ہے ‘ورنہ عام آدمی کے دکھ درد بانٹنے والی ایسی حکومت کہاں کسی کی سنتی ہے ۔ 
پٹرول کا معاملہ حل کرنے کے بعد حکومت اب ٹڈی دَل ‘ کورونا اور غذائی قلت کے خدشے کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترچکی ہے ۔ حکومتی ایم این اے ریاض فتیانہ نے جو مفت مشورہ اپنی حکومت کو دیا ہے ‘یہ نیک کام دنیا کا کوئی ڈاکٹر ‘ کوئی سائنسدان نہیں کر سکا ۔ فتیانہ صاحب کا کہنا ہے کہ عام خیال ہے کہ ٹڈی دَل کھانے سے کورونا وائرس ختم ہو سکتا ہے ۔ گو‘ اپوزیشن اس پر ٹھٹھہ اڑا رہی ہے‘ مگر انہیں کیامعلوم کہ حکومت اس پر عمل کر کے ایک تیر سے تین شکا ر کرسکتی ہے ۔ اول : کورونا وائرس کی قاتل لہراپنی موت آپ مرجائے گی ۔ دوم : پاکستان بھر کے کسانوں کا معاشی قتل کرنے والی ٹڈی دل کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا ۔ سوم : ٹڈی دَل نے فصلوں کو جو نقصان پہنچایا ہے‘ اس سے غذائی قلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے ۔ اب ٹڈی دل کھا کرعوام اپنا پیٹ بھر سکیں گے۔ آپ اپوزیشن کی طرح کسی قسم کے بغض کا شکار نہیں تو اپنے دل کو تھامیں اور بتائیں اتنا قیمتی مشورہ اور کون دے سکتا ہے؟ اگر عوام نے اب بھی ہمت کرکے ٹڈی دل نہ کھایا تو کورونا وائرس کے بڑھنے کا الزام حکومت پر نہیں ہوگا ۔ 
جب سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی ہے‘ کوئی بھی سیکنڈل ہو ‘حکومت قصوروار کو سزا ضروردیتی ہے ؛ادویات کا مسئلہ ہو یا گندم کا بحران ‘ حکومت نے اپنے وزیروں کی قربانی دی‘ مگر اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا ۔ چینی مافیا کے ذمہ داروں جس طرح اس حکومت نے پکڑا ہے ‘اس کی نظیر ماضی میں کہاں مل سکتی ہے ؟ حکومت نے یہاں بھی اپنے سب سے پیارے کو عبرت کا نشان بنایا ‘ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو لندن جاکر دیکھ لے حضرت بارہ ایکڑ کے گھر میں کتنی تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میرا یقین کامل ہے کہ مصر اور بخارا کے حکمرانوں کی طرز پر اتنی باشعور‘ معاملہ فہم اورصاحب ِعلم حکومت اس سے پہلے پاکستان کونصیب نہیں ہوئی ۔ دو سال بیت چکے‘ اگر آئندہ تین سال بھی حکومت ‘اسی ڈگر پر رہی تو عوام اور اپوزیشن لکھ کر رکھ لے اگلی باری پھر تحریک انصاف کی ہوگی ۔خداجانے مرزااسد اللہ غالبؔ کا لکھا آج حرف بہ حرف کیوں سر پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہاہے ۔؎
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش 
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں