کورونا مریض کی فریاد

عہدِ اکبری میں جب دین الٰہی کا ہر طرف چرچہ ہو چکا تو کچھ علماء اور صوفیاء کرام نے مسلمانوں کو خبردار کرنے کی ٹھانی۔ اس نئے دین کے خلاف کھسر پھسر جب شور شرابے تک پہنچی تو جلال الدین اکبر قدرے پریشان ہوگیا۔ بیربل نے بادشاہ کی طبیعت کا بوجھل پن بھانپ کر کان میں سرگوشی کی: ''جہاں پناہ جس مسئلے کا کوئی حل نہ ہو اسے دبا دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے‘‘۔ اکبر نے پھر ایسا ہی کیا، دین الٰہی کے خلاف جو بات کرتا‘ اس کی زباں بندی ہو جاتی۔ گمان ہوتا ہے کہ چار صدیاں قبل بیربل کی پیش کردہ یہ تھیوری آج ہمارے حکمران آزما رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی عوامی نوعیت کا مسئلہ ہو‘ حکومت اس سے نظر چراتی نظر آتی ہے۔ پیٹرول سے کر لے چینی تک اور ادویات سے لے کر گندم تک‘ عوام کو انصاف نہیں مل سکا۔
آج بھی اگر مغلوں کی حکومت ہوتی تو خلق خدا کو چپ کروانا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا مگر اب یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جمہوریت کی رِیت الگ ہے، یہاں زور زبردستی نہیں چلتی، ذہنوں کو بدلنا پڑتا ہے یا دھیان کسی اور طرف لگانا ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے گزشتہ ایک ماہ سے حکومت ایک ایک کر کے ایسے نان ایشوز کو مارکیٹ میں لا رہی ہے جس کے باعث تمام عوامی مسائل پربحث ہی دم توڑچکی ہے۔ پہلے اسلام آباد میں مندر کے مسئلے کو میدان میں اتارا گیا جس نے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے کو نشانہ بنایا۔ کونے کھدروں میں چھپے لَٹھ بردار ایک دم سے وارد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ماحول کو گرد آلود کر گئے۔ پھر کون سا گندم کا بحران اور کہاں کی بیماری؟ ساری تکرارہی مندر کی بحث میں بدل گئی اور حاصل وصول کچھ نہ ہوا۔ اس کے کچھ دن بعد ہمارے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے اور پوری دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ ہمارے ملک کے تقریباً چالیس فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ وزیر موصوف کا یہ جملہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلا اور پوری دنیا کا میڈیا پاکستا ن کے خلاف زہر اگلنے لگا۔ پلک جھپکتے میں آدھی دنیا نے پی آئی اے پر پابندیاں لگا دیں اور یوں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر گیا۔ عوام اپنے مسائل کو بھول گئے اور پی آئی اے کو برے برے القاب سے نوازنے لگے۔ جب یہ مباحثہ کمزور پڑنے لگا تو وزیراعظم صاحب قومی اسمبلی میں تشریف لائے اور اسامہ بن لادن کو شہید کہہ کر چلے گئے۔ پھر وہی ہوا جو مندر اور پائلٹس کے معاملے پر ہوا تھا، ایک نئی لفظی جنگ نے پوری قوم کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ہر کوئی وزیراعظم عمران خان کے بیان کا پوسٹ مارٹم کرنے لگا۔ وزیراعظم کے بیان کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ وہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ لے کر قومی اسمبلی آئے اور پیپلز پارٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ مجبوراً پیپلز پارٹی نے بھی عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ ریلیز کر دی۔ ہر طرف جعلی اور اصلی جے آئی ٹی کی تقریریں ہونے لگیں، گالم گلوچ اور الزامات کی کالی آندھی نے ہر طرف اندھیرا کر دیا۔ سب کا چینی‘ پیٹرول اور گندم بحرا ن سے دھیان ہٹ گیا اور گینگسٹر کی کہانی نے پوری قوم کو داستان گوئی پر لگا دیا۔اب حال یہ ہے کہ حکومت کی پرفارمنس کہیں زیر بحث نہیں آتی اور ہر طرف غیر ضروری مباحثوں کا چرچا ہے۔
سارے عوام کو عزیر بلوچ کے پیچھے لگا کر ہماری حکومت شادیانے بجا رہی ہے کہ وزیراعظم کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کے باعث کورونا دم توڑ رہا ہے۔ یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور کھڑا ہے یا اصل صورتحال کی ترجمانی کرتا ہے‘ اس کا جواب ڈاکٹرز اور سائنسدان دے چکے۔ دنیا بھر کے ماہرین کا ماننا ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے نتائج کو کامیابی کہنا قبل از وقت ہے۔ کورونا وائرس عوام کی حد درجہ احتیاط سے ہی ختم ہو گا اور کوئی طریقہ سردست دستیاب نہیں ہے۔ ادھر بین الاقوامی ریسرچ کمپنی آئی پی ایس او ایس پاکستان کے نئے سروے میں عوام کی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ریسرچ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں مگر عوام حفاظتی اقدامات سے دور ہونے لگے ہیں۔ سروے کے مطابق گزشتہ ماہ کے مقابلے میں ہاتھ دھونے والوں کی شرح 89 فیصد سے کم ہوکر 71 فیصد ہو گئی ہے جبکہ ماسک پہننے والے افراد کی شرح 88 فیصد سے کم ہو کر 80 فیصد، ہاتھ ملانے سے گریز کرنے والے افراد کی شرح 66 فیصد سے کم ہو کر 51 فیصد اور پُرہجوم جگہوں سے پرہیز کرنے والوں کی شرح 47 فیصد سے گھٹ کر 40 فیصد پر آ گئی ہے۔ اس سروے سے بہ آسانی ہمارے عوام کی ذہنیت کو جانچا جا سکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جان لیوا وائرس تاحال ہمارے گلی محلوں میں موجود ہے اور ہم نے احتیاط کو ترک کرنا شروع کر دیا ہے۔
جانے حکومت عوام کو اندھیرے میں رکھ رہی ہے یا عوام خود کو تاریکیوں میں دھکیل رہے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ یہ بے احتیاطی کی روش ہماری قومی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ طرفہ تماشہ دیکھیں! ہمارے عوام اور حکومت‘ دونوں کورونا کے معاملے میںاب اتنے ''خود کفیل‘‘ ہوگئے ہیں کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ عالمی ادارۂ صحت نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ ''نیا کورونا وائرس ناقص ہوا والے کسی کمرے یا ہال (جیسے ریسٹورنٹس، دکانیں، مذہبی مقامات، کلب وغیرہ) میںہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے اور چھ فٹ سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود لوگوں تک جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے بعد بھی مجال ہے کہ ہم احتیاط کا دامن تھامیں اور کوئی مناسب راہ اختیار کریں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائنز ان قوموں کے لیے ہیں جن پر نصیحتیں اثر کرتی ہیں‘ ہم بھلا بطور قوم اتنے باشعور کہاں سے ہوگئے؟ ہماری حکومت نے جب بغیر کسی منصوبہ بندی کے سارے کاروبار کھول دیے تو ہم نے اُف تک نہ کی۔ حکومت مبینہ طور پر اجتماعی مدافعت کے راستے پر چل نکلی تو پوری قوم لبیک کہہ کر پیچھے چل پڑی۔ کسی نے نہیں سوچا کہ اس کھیل کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟ اب کنگز کالج لندن کی نئی تحقیق نے ہرڈ امیونٹی کے اس تصور کے تابوت میں بھی کیل ٹھونک دی ہے۔ برطانوی ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ''کورونا وائرس کو شکست دینے والے بیشتر مریضوں میں اس بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت چند ماہ کے بعد غائب ہو سکتی ہے جس کے بعد یہ وائرس مریض کو دوبارہ لگ سکتا ہے‘‘۔ طبی ماہرین کے جریدے دی لانسیٹ کے مطابق بھی ''امیونٹی نامکمل ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت مختصر وقت کے لیے ہوتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ یہاں میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ اب ہماری حکومت کیا راہ اختیار کرے گی؟ کیونکہ ہرڈ امیونٹی کی پالیسی تو پوری دنیا میں ناکام ہو چکی، ہم بھلا اس سے کیا حاصل کریں گے؟ 
کورونا وائرس کا گھاؤ کتنا گہرا ہوتا ہے‘ یہ صرف وہی جان سکتا ہے جس نے بیماری کاٹی ہو۔ گزرے ہفتے اپنے دیرینہ دوست کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو وہ بہت غم زدہ تھا۔ دوست نے کہا: ''میں قانون پسند شہری ہوں مگر اس بار دھوکا کھا گیا۔کورونا کے حوالے سے چار سو پھیلی کنفیوژن نے مجھے زندگی بھر کا پچھتاوا دے دیا۔ میری ذرا سی لاپروائی کے باعث وائرس نے پہلے مجھ پر حملہ کیا اور پھر میرے والد پر۔ میری حالت تو اب بہتر ہو رہی ہے مگر ابو یہ دکھ برداشت نہیں کر سکے۔ میری سارے پاکستانیوں سے التجا ہے کہ اگر انہیں اپنے والدین اور بچوں سے محبت ہے تو حکومت سے زیادہ ڈاکٹر ز کی بات سنیں۔ یہ اچھوت کی بیماری ہے‘ کوئی قصہ کہانی نہیں جسے دبا دیا جائے۔ اس مہلک وائرس سے بچنے میں ہی زندگی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں