نون لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا جرم

جانے نہ جانے‘ گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ احتساب کے باب میں کون مجرم ہے، کون نہیں، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ یہ بھاری پتھر کس کی خواہش پر آج تک راہ میں پڑا ہے۔ چینی کہاوت ہے کہ موسمی پھل ہمیشہ شفا بخشتا ہے جبکہ بے موسمی غذا‘ کھانے والے کو کڑواہٹ کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ جب راستے کے کانٹے چننے کا وقت تھا پیپلز پارٹی اور نون لیگ لیت ولعل سے کام لیتی رہیں، اس وقت سیاسی مصلحتوں اور ذاتی مفادات نے انہیں ابھرنے نہ دیا۔ آج جب دونوں پارٹیاں ٹھوکر کھا کر اوندھے منہ گر پڑی ہیں تو ان کی گریہ زاری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نیب کے قوانین کتنے ہی ''متنازع‘‘ کتنے ہی ''یکطرفہ‘‘ کیوں نہ ہوں، بنائے تو ہمارے سیاستدانوں نے ہی ہیں۔ قدرت کا قانون ہے آپ کسی کے لیے گڑھا کھودیں‘ وہ گرے نہ گرے‘ آپ ضرور گرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور قاف لیگ آج اپنے ہی تضادات کا شکار ہو رہی ہیں تو گلہ کیسا؟ 
تحریک انصاف کی حکومت سے لاکھ اختلافات کریں‘ معیشت کی بدحالی کا رونا روئیں، مہنگائی اور بیروزگاری کا گریہ کریں، وزرا کے اناڑی پن پر سر پیٹیں یا حکومتی وعدہ خلافیوں پر آواز بلند کریں‘ جناب آپ کو کس نے روکا ہے؟ مگر خدارا! نیب کا بوجھ وزیراعظم عمران خان کے کندھوں پر مت لادیں۔ یہ قوانین مسلم لیگ نون اور قاف لیگ کی دین ہیں، پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے اعتماد کا مظہر ہیں۔ آپ ہمت کریں اور اپنے کیے کا بوجھ خود اٹھائیں، تحریک انصاف کو اس پر موردِ الزام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ سارا پاکستان جانتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے وقت نواز شریف نے خود نیب قوانین کو بدلنے نہیں دیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق کیس میں سپریم کورٹ نے جو کہا‘ درست کہا، سر آنکھوں پر‘ مگر کیا سیاسی جماعتیں اس فیصلے سے متعلق مخصوص حصے کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو حرفِ تنقید بنا سکتی ہیں؟ مشہورکہاوت ہے کہ بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے ہی بچوں کو پاؤں تلے لے لیتی ہے۔ معذرت کے ساتھ‘ ہماری سیاسی جماعتیں بھی آج کل اسی ڈگر پر ہیں، اپنے بنائے گئے قوانین کی اپنی زبان سے بے توقیری کر رہی ہیں۔ نیب نہ سہی‘ احتساب کمیشن تو میاں نواز شریف کے ذہن کی اختراع تھی۔ وہی احتساب کمیشن جس نے آصف زرداری اور محترمہ بینظیرکے خلاف گیارہ ریفرنسز بنائے تھے۔ بھلے آج کوئی مانے یا نہ مانے‘ مگرنیب اسی احتساب کمیشن کا اگلا باب ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کی غیر جانبداری، پروفیشنلزم اور مہارت پر کڑے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ برادران کے خلاف کیس انسانیت کی تذلیل، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر قانونی طور پر آزادی سلب کرنے کی بدترین مثال ہے۔ سپریم کورٹ کا کہا محترم! مگر اپوزیشن کو کیا حق ہے کہ وہ ایک کیس میں دیے گئے مخصوص ریمارکس کی بنیاد پر پورے ادارے کی تالہ بندی کے منصوبے بنائے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک کیس کا فیصلہ ہے نہ کہ پورے نیب کے کردار کا۔ اگر ملک کے تمام اداروں اور محکموں کا جائزہ لیں تو اچھے برے لوگ ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہماری پولیس بدنامی میں اپنی مثال آپ ہے‘ مگر کیا کوئی ہے جو پورے محکمے کو بر ا ثابت کر سکے؟ ڈاکٹر ز کو سنگدلی کا سرٹیفکیٹ تو سب دیتے ہیں مگر دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کیا سارے ڈاکٹرز بے رحم ہوتے ہیں؟ کیاکوئی ہے جو کہہ سکے کہ سارے پٹواری، سارے کلرک، سارے ٹیچر، سارے بیورو کریٹ اور سارے سیاست دان ایک جیسے ہیں؟ نہیں! یقینا ایسا ہرگز نہیں ہے! ایک جھولی میں سارے انڈے گندے کیسے ہو سکتے ہیں؟ دوچار کیسز میں اوپر تلے ہو سکتا ہے، اس سے کون انکاری ہے؟ مگر یہ بھی سب جانتے ہیں کہ نیب ہی پورے ملک میں کرپشن کے خلاف سب سے توانا آواز ہے، خدارا! اس کو بند مت کریں۔ مانتا ہوں یہ آواز اتنی سریلی نہیں ہے مگر کبھی کبھی گہری خاموشی میں پتھر کی آواز بھی بھلی لگتی ہے۔
سیاستدانوں کی نوحہ گری کو چند لمحو ں کے لیے ایک طرف رکھیں تو عوام کی آہ و زاری سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ عوام تو الٹا نیب سے گلہ گزار ہیں کہ انہوں نے سیاستدانوں کی بھری تجوریوں کو ٹھیک سے خالی نہیں کروایا۔ جو مبینہ کرپشن پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ہوئی‘ اس کا حساب کسی سے نہیں لیا گیا۔ جنوبی پنجاب میں یہ بات عام ہے کہ 2008ء میں پی پی کے مشہور رہنما گاڑی میں ادھار تیل ڈلوا کر اسلام آباد کے لیے نکلے تھے مگر تقریباً چار سال بعد لوٹے تو وہ ارب پتی تھے۔ نون لیگ کے دور میں کسی ادارے میں ہمت نہ ہوئی کہ ان کا محاصرہ کر سکے۔ کیا یہ عوام کے دیے ہوئے اختیار کے ساتھ کھلا کھلواڑ نہیں تھا؟ نواز شریف پر نیب کے کیسز عدالتوں میں ثابت ہوئے مگر ابھی تک ایک دھیلے کی ریکوری نہیں ہوئی۔ وہ آ ج بھی انہی لندن کے فلیٹس میں رہتے ہیں جنہیں عدالتوں نے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔مذکورہ کیس کے بعد تو یوں گمان ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑے لوگوں کے احتساب کیلئے نیب کے اختیارات چھوٹے پڑ گئے ہیں۔ 
ہمارے ملک کے سیاستدانوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ بھی بنگلا دیش کی طرح احتساب کے ادارے کو موم کی گڑیا بنا دیں۔ بنگلا حکومت نے 2004ء میں اینٹی کرپشن کمیشن بنایا تو وہاں کے سیاست دانوں کی چیخیں نکل گئیں۔ خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ واجد جیسی طاقتور شخصیات سے مختلف اوقات میں کرپشن کے بارے پو چھ گچھ کی گئی تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، پھر کیا تھا نو سال بعد ہی اس کمیشن کے پر کاٹ دیے گئے اور تمام سیاسی گرفتاریوں کو حکومتی اجازت سے مشروط کر دیا گیا۔ اب وہاں کھلے عام سیاسی انتقام لیے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انڈیا کے سی بی آئی کی کہانی بھی بنگلا دیش کے اینٹی کرپشن کمیشن جیسی ہی ہے۔ وہاں بھی احتساب کا یہ ادارہ حکومت کی من مرضی سے چلتا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں کہہ چکی کہ سی بی آئی حکومت کا پالتو طوطا ہے، جو حکومت نے مخالفین کو لگام ڈالنے کے لیے پال رکھا ہے۔ سی بی آئی کے ایک سابق جوائنٹ ڈائریکٹر بی آر لال نے اپنی مشہور کتا ب Who Owns CBI میں حکومتی اثر و رسوخ کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ سی بی آئی کرپشن کو روکنے کے بجائے سیاسی آقاؤں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر کبھی بھولے سے کسی کیس میں حکومتی شخصیت کا نام آ جائے تو اس فائل کو پاتال میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بی آر لال آگے لکھتا ہے کہ بدنامِ زمانہ ''حوالہ کیس‘‘ میں ایل کے ایڈوانی اور این آر راؤ کا نام سامنے آیا تو ڈائریکٹر نے میری خوب سرزنش کی۔ آپ خود فیصلہ کریں کیا پاکستان اس طرح کے کسی ادارے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا ہماری معیشت اس قابل ہے کہ تجوری کو چوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور اوپر سے یہ خام خیالی کہ کوئی نقصان بھی نہیں ہوگا؟
ہماری اپوزیشن جماعتو ں کے ہاں الٹی رسم چل پڑی ہے کہ وہ احتساب کے قوانین سے زیادہ احتسابی ادارے سے چڑ کھانے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بلاول بھٹو اور مسلم لیگ نون ہم آوا ز ہو چکے ہیں کہ نیب کو بند کیا جائے۔ کیا ان جماعتوں کو بتانے والا کوئی نہیں کہ نیب ختم ہوگیا تو ملک میں کرپشن کا کاروبار عام ہو جائے گا۔ تما م چھوٹے بڑے شہروں میں چینی، پٹرول، گندم اور ادویات مافیاز پہلے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کو ملک سے محبت ہے تو نیب قوانین میں ترامیم کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی بنائی کمیٹی میں سر جوڑ لیں۔ جو قوانین غیر فطری ہیں انہیں بدل دیں اور جو قوانین غیر انسانی ہیں انہیں ختم کریں۔ ادارے کو مکمل طور پر سیاست سے پاک کر دیں جیسے برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ اگر اس بار بھی پارلیمنٹ یہ کام نہ کر سکی تو تاریخ کی مجرم ہوگی۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا جرم آئندہ نسلوں کو بھی شرمندہ کرتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں