بیانیہ کی موت

''عجیب جماعت ہے آپ کی ‘ جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولتا ہے اس کے بیانیہ کو مفاہمت سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف جو مکمل خاموش ہیں‘ ایک ٹویٹ تک نہیں کرتے ‘ ان کے بیانیہ کو مزاحمت کی علامت کہا جاتا ہے ۔ آپ کی پارٹی نے مفاہمت اور مزاحمت کے معنی بدل دیے ہیں‘‘ سابق وفاقی وزیر کی بیوی نے ناشتے کی میزپر اپنے خاوند سے سوال کیا ۔سینئر سیاستدان نے آنکھ اٹھا کر اپنی بیگم صاحبہ کو دیکھا اور بولے: تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ آپ کی پارٹی کے چھوٹے صاحب کبھی کبھار اسمبلی میں تقریر کرلیتے ہیں ‘ کوئی ٹویٹ بھی ان کی طرف سے آجاتا ہے ‘اور نہیں تو اپنا بیان جاری کروا دیتے ہیں مگر بڑے صاحب اور ان کی بیٹی تو چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ۔ نیب پیشی کے بعد محترمہ نے جو پریس کانفرنس کی ‘ وہ دل سے نہیں کی گئی بلکہ حالات نے ان سے کروائی ۔ اگر نیب آفس کے باہر تصادم نہ ہوتا تو یہ پریس کانفرنس بھی نہ ہوتی ۔ سابق وفاقی وزیر نے اہلیہ کی بات کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا ۔ کرسی پیچھے سرکائی اور اٹھتے ہوئے کہا: آج دو میٹنگز ہیں ایک ماڈل ٹاؤن اور دوسری رائیونڈ میں ۔ مجھے دونوں جگہ جانا ہے۔اس کے بعد ایک ٹی وی شو ہے ‘رات کو دیر سے گھر آؤں گا ۔بیوی نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ اس وقت تک کمرے سے باہر جاچکے تھے ۔
سابق وفاقی وزیر ماڈل ٹاؤن پہنچے تو میٹنگ شروع ہو چکی تھی ۔ وہ بھی مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے ۔ چھوٹے صاحب لال رنگ کی کرسی پر براجمان تھے اور سب کی بات دھیان سے سن رہے تھے ۔
پہلا پارٹی رہنما: جہا ں پناہ! آپ کی گزرے ہفتے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر لاجواب تھی ۔ جس طرح حکومتی پالیسیوں کا آپ نے پول کھولا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ آپ جب بھی اسمبلی تشریف لاتے ہیں ‘ وفاقی وزرا اورحکومتی ارکان دبک جاتے ہیں ۔
دوسرا پارٹی رہنما : حضور!ٹھوکر نیاز بیگ میں ہونے والے واقعے نے پارٹی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ۔ توڑ پھوڑاور مارکٹائی ہماری جماعت کا مقصد کبھی نہیں رہا ۔ پارٹی کے تمام مرکزی رہنماؤں پر ایف آئی آر کٹ چکی ہے ۔اگر گرفتاریاں ہوئیں تو بلدیاتی الیکشن پر بہت برا اثر پڑے گا ۔ حملہ نیب آفس پر ہو یا پی ٹی وی پر۔ حملہ حملہ ہوتا ہے ۔ اب ہمیں بھی ہر وقت طعنوں کا سامنا کرنا ہوگا ۔
تیسرا رہنما : عالی جاہ ! کچھ پارٹی رہنما جان بوجھ کر آل پارٹیز کانفرنس کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں ۔مولانا کو ہماری نیت پر شک ہے تو ہم بلاوجہ کیوں آگ میں کودیں ؟ وہ ہم پر حکومت کی سہولت کاری کا الزام لگائیں اور ہم پھر بھی خاموش رہیں ؟کیوں صاحب ! کیوں ؟ ہمیں کسی صورت اے پی سی کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ حکومت خود کھائی میں گر رہی ہے ہم کیوں اسے دھکا دیں؟
چوتھارہنما: جناب ِ عالی ! جب سے پارٹی کی صدارت آپ کے پاس آئی ہے ‘ ہماری مشکلات بتدریج کم ہورہی ہیں ۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے نے تو ہماری سانسیں روک لی تھیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ حالات نہیں رہے ۔ آپ نے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو جو عزت و تکریم دی ہے اسی کے بدلے میں ہی پارٹی قائد کا علاج اچھے طریقے سے ہو رہا ہے ۔آپ پارٹی کے سب سے بڑے محسن ہیں ۔ صرف آپ کی دانائی کی وجہ سے عوام اور''بڑوں‘‘ کو ہماری یاد ستانے لگی ہے ۔
پانچواں رہنما : عالی مقام ! حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ مہنگائی ‘ بے روزگاری ‘لاقانونیت ‘ کرپشن اور بدانتظامی کا یہی حال رہا تو چھ ماہ بعد وزارت عظمیٰ خود آپ کے پاس چل کر آئے گی ۔ ہمیں تھوڑا انتظار کرنا ہو گا حضورِ والا! بس تھوڑا انتظار ۔
سابق وفاقی وزیر کا بولنے کو دل چاہ ر ہا تھا مگر چھوٹے صاحب خود بول پڑے : میں تمام دوستوں کی باتوں سے متفق ہوں ۔ ہمیں سرِدست حکومت کو نہیں چھیڑنا چاہیے ۔ ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا ہوگا جب حکومت خود کلہاڑے پر پاؤں مارے ۔ فی الحال خاموشی سے اچھی کوئی اپوزیشن نہیں ۔ میٹنگ برخاست !
سابق وفاقی وزیرا پنا سا منہ لے کر ماڈل ٹاؤن سے نکلے۔راستے میں ایک دو کام کیے اور رائیونڈ حاضری کے لیے پہنچ گئے۔ ماڈل ٹاؤن میٹنگ سے آئے باقی رہنما بھی ہشاش بشاش اپنی اپنی نشستوںپر بیٹھے تھے ۔ پندرہ منٹ کے بعد بڑے صاحب کی بیٹی تشریف لائیں تو کورم پورا ہو گیا اور پھر بڑے صاحب نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے میٹنگ کی صدارت کی۔ سب پارٹی رہنماؤں کو باری باری اپنی رائے دینے کا کہاگیا ۔
پہلا رہنما : حضور ِ پر نور ! جب سے آپ ملک سے باہر گئے ہیں ‘ آپ کی تقریریں ہمیں بہت یاد آتی ہیں ۔ آپ پاکستان ہوتے تو موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو اٹھا کر پاتال میں پھینک دیتے ۔ اب ہمارے بیچ انہیں ٹھیک سے آئینہ دکھانے والا کوئی نہیں۔
دوسرارہنما : سرکار ! ٹھوکر نیاز بیگ میں ہونے والے ہنگامے نے ہماری پارٹی کو پھر سے کھڑا کردیا ہے ۔ حکومت ہمیں بدنام کرنا چاہتی تھی مگر اب اس کی اپنی جگ ہنسائی ہو رہی ہے ۔ وہ لوگ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جو چھوٹی بی بی کو ڈیل کے تحت چپ رہنے کا طعنہ دیتے تھے ۔ ہمارے کارکنوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ آج بھی پارٹی کے ساتھ ثابت قدم ہیں ۔ مبارک عالی جاہ! مبارک ۔
تیسرارہنما : بندہ پرور ! اس حکومت کی گستاخیاں بڑھتی جارہی ہیں ‘اب اسے گرانا کارِ ثواب ہوگا ۔ ہمیں ہر حال میں مولانا کا بازو بننا چاہیے ورنہ ہم تاریخ کے مجرم ٹھہرائے جائیں گے ۔ اے پی سی ناگزیر ہے آپ چھوٹے صاحب کو حکم جاری کریں ۔
چوتھا رہنما : جناب ِ محترم ! آپ کے جانے کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے بیانیہ کو ہوا ۔ اب کوئی ووٹ کو عزت دو کی بات نہیں کرتا ۔ ہمیں غیر سیاسی قوتوں کی خوشنودی کے لیے اپنے بیانیہ کی قربانی نہیں دینی چاہیے ۔ آئین کی بالادستی کی بات کرنا اگر جرم ہے تو یہ جرم ہمیں کرتے رہنا چاہیے ۔
پانچواں رہنما : شاہ ِ عالم ! حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ ناکامی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے ۔ اب کچھ قوتوں کی خواہش ہے کہ واپسی کا سفر شروع ہو ۔ ہماری پارٹی سے ٹوٹا ناطہ پھر سے جوڑا جائے ۔ چارچھ ماہ میں یہ حکومت ختم ہوسکتی ہے مگر ہمیں وزارت عظمیٰ کے لیے بے صبری نہیں دکھانی چاہیے ۔ عوام اس حکومت کے سارے رنگ دیکھ لے تاکہ تبدیلی کی خواہش ہمیشہ کے لیے مر جائے ۔
اس بار بھی سابق وفاقی وزیر کی باری آنے سے پہلے بڑے صاحب گویا ہوئے ۔ مجھے آپ تما م حاضرین کی رائے کا بے حد احترام ہے مگر ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوںگے ۔ میں فیصلہ کرکے چھوٹی بی بی کو بتا دوں گا۔ آپ ان کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ میٹنگ ختم !
سابق وفاقی وزیر مایوسی کی چادر اوڑھے رائیونڈسے نکلے اورسیدھی گھر کی راہ لی ۔ ان کی بیگم صاحبہ نے طبیعت کا بوجھل پن بھانپ کر پوچھا : ٹی وی شو پر نہیں گئے ؟ اس سوال کے بعد تو جیسے سابق وفاقی وزیر بھڑک اٹھے ہوں ۔ یک لخت سارا غبارزبان پر آگیا ۔''کنفیوزبیانیہ اور منتشر ذہن کے ساتھ ٹی وی شو پر نہیں جایا جاتا ۔ہماری پارٹی کا بیانیہ بسترِ مرگ پر ہے اور سیاست دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہے ۔ ہم نے پارٹی کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ اہواہے ۔ ہمارے قائدین کو سمجھ نہیں آرہی کہ جس جماعت کاکوئی بیانیہ ‘ کوئی سیاست نہیں ہوتی وہ زیادہ دیر سیاست کی سٹیج پر زندہ نہیں رہتی ۔ ہم ق لیگ اور تحریک استقلال والی سیاست کررہے ہیں ۔ ایسے چلتارہا توبہت جلد ہمارا حال بھی ق لیگ والا ہو گا۔ تین سال قبل بڑے صاحب نے سیاسی قبلہ بدلا اور بیانیہ بھی مگر چھوٹے صاحب اپنی پرانی ڈگر پرہیں ۔ سو پارٹی بھی مکمل ابہام کا شکار ہے ۔ ماڈل ٹاؤن میں ایک بات کرتی ہے رائیونڈ میں دوسری ۔ دنیا کی تاریخ میں مزاحمت کیے بنا کبھی کوئی بڑا لیڈر بنا ہے؟ مجھے یوں لگتا ہے ہمارے سیاسی بیانیہ کی موت ہوچکی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں