نواز شریف واپس آئیں گے مگر…

''حکومت کی گھبراہٹ بتا رہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے مگر اس بار واپسی بطور مجرم نہیں ہوگی۔ وہ قوم کے سامنے سرخرو ہو کر لوٹیں گے۔ جیل خود بھی اب نواز شریف کی منتظر نہیں ہے‘‘۔ یہ بات ٹاک شو کی بریک کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما نے وفاقی وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہی۔ یہ سنتے ہی وفاقی وزیر پر جھنجھناہٹ طاری ہوگئی اور اس نے طنزکی پھبتی کَسی۔ ''وزیراعظم عمران خان مودی سے بات کر لیں گے مگر نواز شریف کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ آپ نے پرویز مشرف سے این آر او لے لیا تھا مگرعمران خان ایسا نہیں کریں گے‘ یہ ناممکنات میں سے ہے‘‘۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام سنتے ہی لیگی رہنما کے کان لال ہونا شروع ہوگئے‘ پھر لالی کانوں سے چہرے پر آئی اور طویل بحث کا آغاز ہوگیا۔ دونوں رہنما ایک دوسرے کی ضد میں رازوں سے پردہ اٹھاتے چلے گئے اور میرے لیے آنے والے دنوں کا دھندلا دھندلا منظرنامہ صاف ہوتا چلا گیا۔
رہنما مسلم لیگ ن: ہمیں مشرف کے این آر اوکا طعنہ مت دیں۔ ڈیل پیپلز پارٹی نے کی تھی ہمیں تو پاکستان آنے کا موقع حالات نے دیا۔ صدر مشرف این آر او دے سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس اختیارات تھے۔ موجودہ حکومت کے پاس تو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں۔ وہ این آر او کیسے دے گی؟ اور ہاں! ایک اور بات! نواز شریف جیل میں مر سکتا ہے مگر حکومت سے ڈیل نہیں کرے گا۔
وفاقی وزیر: (قدرے ناگواری سے) ڈیل تو وہ کر چکے۔ ان کا لندن میں علاج ڈیل کی وجہ سے ہی ہو رہا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نواز شریف کو لندن بھیجنے کا فیصلہ حکومت نے خود نہیں کیا تھا بلکہ اس سے کروایا گیا۔
رہنما مسلم لیگ ن: (زوردار قہقہ لگاتے ہوئے) کس نے کروایا بھائی؟ اس کا کوئی نام بھی ہو گا؟ 
وفاقی وزیر: وہی جن سے شہباز شریف نے ڈیل کی۔ بھائی کو باہر بھیجنے کے لیے اپوزیشن لیڈر نے ''خاموش‘‘ رہنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ وہ وعدے کے پکے ہیں مگراب سارا کھیل مولانا فضل الرحمن نے خراب کر دیا ہے۔
مولانا کا نام آتے ہی پروگرام اینکر کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے وفاقی وزیر سے پوچھا: وہ کیسے؟ 
وفاقی وزیر: مریم نواز کی نیب پیشی کے بعد مولانا نے ہمدردی کے لیے فون کیا اور ساتھ ہی اے پی سی کے معاملے پر شہباز شریف کے رویے کا گلہ بھی کر دیا۔ مریم نوا ز نے من و عن پیغام لندن پہنچا دیا۔ اس کے بعد نواز شریف نے تین فون کیے۔ ایک شہباز شریف، دوسرا مولانا فضل الرحمن اور تیسرا بلاول بھٹو زرداری کو۔ یہیں سے سارا مسئلہ بگڑ گیا۔ 
پروگرام اینکر نے وفاقی وزیر کو ٹوکتے ہوئے کہا ''بریک کا وقت ختم ہو رہا ہے‘ کیوں نہ باقی بات اگلی بریک میں کی جائے؟‘‘ وفاقی وزیر نے اثبات میں سر ہلایا اور معمول کا پروگرام شروع ہو گیا۔ دونوں مہمانوں نے اپنی اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق بات کی۔ تھوڑی نوک جھونک بھی ہوئی مگر اینکر نے لڑائی کی نوبت آنے سے پہلے بریک لے لی۔ اس کے بعد گفتگو وہیں سے شروع ہوئی جہاں پہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔
وفاقی وزیر: نواز شریف نے فون پر اپنے چھوٹے بھائی کو مولانا کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا کہا ہے۔ شہباز شریف نے اپنا موقف دیا مگر بات نہ بنی۔ میاں صاحب نے اگلا فون مولانا فضل الرحمن کو کیا اور حکومت کے خلاف اپنا غبار نکال کرمولانا کو بھی رام کر لیا۔ بدھ کے روز بلاول کو کیا جانے والا فون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اب نواز شریف چاہتے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس ہو اور حکومت کے جانے کی تاریخ طے کی جائے۔ میری اطلاعات کے مطابق بہت جلد اپوزیشن کی بڑی بیٹھک ہونے والی ہے۔
ن لیگی رہنما جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا‘ ایک دم بولا: یہاں میری رائے بھی سن لیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومت گرانا چاہتے ہیں مگر ہمارا اور پیپلز پارٹی کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم کوئی ایسی تحریک نہیں چلانا چاہتے جس سے جمہوریت کو خطرہ ہو۔ اے پی سی پر کسی کو اعتراض نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مولانا چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے کا آپشن آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہو۔ اس نکتے پر شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی رائے مختلف ہے۔ وہ اس آپشن کو قبل از وقت سمجھتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کچھ بولناچاہا تو مسلم لیگ ن کے رہنما نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور اپنی بات جاری رکھی: یہ کیسی حکومت ہے جو نواز شریف کی تین فون کالز کا بوجھ نہیں اٹھا سکی؟ حکومت پانچ ماہ سے کہاں سوئی ہوئی تھی؟ اسے پہلے نواز شریف کی بیماری یاد نہیں تھی؟ نواز شریف کی خاموشی سمجھ میں آتی ہے مگر حکومت کس وجہ سے چپ تھی؟ 
وفاقی وزیر: نواز شریف علاج کے لیے گئے ہیں تو علاج کروائیں‘ سیاست کیوں کرتے ہیں؟ سیاست کرنی ہے توکوٹ لکھپت جیل واپس آ جائیں۔ لندن سے سیاست کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ پیغام وزیراعظم نے نواز شریف کے سارے ہمدردوں تک پہنچا دیا ہے۔ 
رہنما مسلم لیگ ن: شکر کریں نواز شریف ملک سے باہر ہیں۔ سارے معاملات چھوٹے میاں صاحب کے پاس ہیں۔ اسی میں حکومت کی بچت ہے۔ خدا جانے اس حکومت کے مشیر کون ہیں۔ میں اگر وزیراعظم کو مشورہ دے سکتا تو کہتا مریم نواز کو بھی باہر بھیج دیں۔ اس ایک فیصلے سے ن لیگ کا بیانیہ اور کمزور ہو جائے گا مگر حکومت یہ کبھی نہیں کرے گی کیونکہ ان کا مقصد ہماری پارٹی کو اخلاقی طور پر کمزورکرنا نہیں نواز شریف کو دکھ دینا ہے۔
وفاقی وزیر: آپ مریم نواز کو باہر بھیجنے کا تو بھول ہی جائیں۔ ہم یہ کسی صورت نہیں ہونے دیں گے بلکہ اب تو نواز شریف کو بھی واپس آنا ہوگا۔ ہم ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں جس نے نواز شریف کو باہر بھجوانے میں معاونت کی۔
رہنما مسلم لیگ ن: آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ وقتی ابال ہے، سیر کا سوا سیر نظر آ رہا ہے۔ ابال ختم ہو گا تو حکومت کی اصلیت سامنے آ جائے گی۔ نواز شریف واپس آئیں گے‘ ضرور واپس آئیں گے مگر 2021ء میں۔ فوری طور پر واپسی حکومت کی خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔
پروگرام اینکر نے لیگی رہنما کو روک کر ایک بار پھر اعلان کیا کہ بریک کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ باقی راز و نیاز آئندہ بریک میں ہو ں گے۔ روٹین کا پروگرام شروع ہوا اور دونوں سیاستدانوں کی روایتی گفتگو بھی۔ دس منٹ بعد ایک اور بریک آئی تو اپوزیشن رہنما کو اپنی ادھوری بات مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔
رہنما مسلم لیگ ن: نواز شریف چاہتے ہیں مریم اگر لندن نہیں آ سکتیں تو پاکستان میں رہ کر سیاست کریں کیونکہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ عوام حکومت سے مکمل تنگ ہیں مریم نواز ان کی دادرسی کریں۔ 
وفاقی وزیر: مریم نواز عدالت سے سزا یافتہ ہیں، وہ کبھی ہیرو نہیں بن سکتیں۔ اگر اب جلسے جلوس کیے تو نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہو گا۔ 
رہنما مسلم لیگ ن: (قدرے غصے سے) حضرت! آ پ خاطر جمع رکھیں، حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ سیاست کے 'سارے چھوٹے بڑے کھلاڑی‘ آپ سے عاجز آ چکے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ شہباز شریف اس ملک کا مستقبل ہیں۔ رہا نواز شریف اور مریم کا معاملہ تو ان کے اچھے دن بھی آنے والے ہیں۔
اب تک لیگی رہنما کی آواز میں ٹھہراؤ آچکا تھا۔ اس نے فاتحانہ انداز میں کہا: یقین مانیں، نواز شریف کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ مگر اس بار واپسی بطور مجرم نہیں ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں