پولیس کو گالی مت دیں

انسانی نفسیات کا سب سے مہلک اور جان لیوا مرحلہ غلطی کرنا نہیں بلکہ اس پر ڈٹ جانا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب نے بھی ایسے افراد کے لیے ہلاکت کا پیغام دیا ہے جو غلطیوں سے سیکھتے نہیں بلکہ ان کا دفاع کرتے اور دہراتے ہیں۔ حکومت کا بھی گزرے دو سالوں سے یہی وتیرہ رہا ہے، کچھ بھی ہو جائے‘ پیچھے نہیں ہٹنا بلکہ ہر صورت اپنی غلطی کے آگے ''دیوارِ چین‘‘ کھڑی کرنا ہے۔ حکومت معاشرے کا چہرہ ہوتی ہے‘ جب حکومت ہی یہ چلن اختیار کر لے تو پورا معاشرہ اندھی تقلیدکیے بنا کیسے رہ سکتا ہے؟ اور پھر اچھے برے، کھوٹے کھرے کی پہچان کہاں؟ عنایت علی خان آج زندہ ہوتے تو یقینامعاشرے کے اس دہرے چہرے کو بھی عیاں کرتے۔ 
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر 
صدیاں بیت چکیں، آج تک کسی بھی سوسائٹی کا اصل روپ سامنے نہیں آ سکا۔ روز معاشرے کی ایک پرت اترتی ہے اور نئی شکل سامنے آتی ہے۔ روز ایک کالک دھوئی جاتی ہے اور دوسری مَل دی جاتی ہے۔ ہابیل قابیل کی لڑائی سے لے کر سانحہ موٹروے تک‘ ایک جیسے بھیانک واقعات ہیں اور ایک جیسی ناقابل بیان داستانیں۔ اب انسان کس سے نظریں چرائے اور کس سے آنکھیں ملائے؟ نجانے ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ سانحات قوموں کی زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ ازل سے ہیں ابد تک رہیں گے۔ قوموں کا اصل امتحان تو سانحات پر ردعمل سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور‘ سیالکوٹ موٹروے پر نہتی خاتون کو جس طرح بچوں کے سامنے بے آبرو کیا گیا، کیا کسی کو شک ہے کہ اس ماں کی چیخیں عرش تک نہیں گئی ہوں گی؟ کیا کسی کو شک ہے کہ عرش والا ہمارے منصفوں اور حکمرانوں کو نہیں دیکھ رہا ہو گا؟ کیا کسی کو شک ہے کہ آج نہیں تو کل‘ یہاں نہیں تووہاں‘ اس غیر انسانی المیے پر انصاف ہونا ہے۔ اگر ہونا ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ 
وزیراعظم لاہور تشریف لائے مگر نشستند، گفتند، برخاستند کی کہانی دہرائی گئی۔ مظلوم عورت کے سر پر دستِ شفقت تو کجا، اس بہیمانہ واقعہ پر لب کشائی تک نہ کی، کیوں؟ کوئی بتائے حکومت کے سربراہ کا یہی فرض ہوتا ہے؟ اوپر سے وفاقی اور صوبائی وزرا ایسے کہ سارے معاملے کو ہی تہس نہس کر دیا۔ مرکزی ملزم ابھی پکڑا نہیں گیا اور بھانت بھانت کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے گینگ ریپ کے ملزمان کو سر عام پھانسی دی جائے، دوسرا وزیر بیان جاری کرتا ہے کہ ایساکرنے سے معاشرے میں تشدد پروان چڑھے گا۔ وزیراعظم ٹی وی انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ ایسے افراد کو نامرد بنا دیا جائے۔ مقامِ حیرت یہ ہے کہ صرف حکومت نہیں‘ ساری پارلیمنٹ ہی کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک پارٹی کچھ کہتی ہے تو دوسری کچھ۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں احساس الٹے قدموں چل پڑا ہے۔ انہیں معاملے کی سنجیدگی اور مظلوم کے درد کا ادراک ہی نہیں ہو رہا۔ ایک دوسرے پر تہمتیں تراش رہے ہیں، موٹرویز اور فرانزک لیب بنانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں مگرکوئی بھی نئی قانون سازی کا نہیں سوچ رہا۔ عادی مجرم کیوں چھوٹ جاتے ہیں‘ مجال ہے قانونی سقم دور کرنے پر کوئی گفتگوکر رہا ہو۔ پولیس، پراسیکیوشن اور نظامِ انصاف میں موجود رکاوٹیں دور کیسے ہوں گی‘ ان پر بحث کرنے پر کیوں کوئی تیار نہیں؟ کیا کسی نے سوچا ہے کہ ریپ اور گینگ ریپ ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے مگر اس کے باوجود فریقین کی صلح کے بعد کیس خارج ہو جاتا ہے‘ کیوں؟ ریاست ایسی ایف آئی آر میں مدعی کیوں نہیں بنتی؟ کیا یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ یہاں طاقتور بندوق کی نوک پرگھناؤنے جرائم کرتے ہیں اور بندوق کی نوک پر صلح؟ میں سوچتا ہوں اگر یہ واقعہ کسی اور معاشرے میں ہوا ہوتا تو کیا ان کا ردعمل بھی ایسا ہی ہوتا؟ کیا وہاں بھی عوام، پولیس اور سیاست دان محض لفظی جمع خرچ پر گزارہ کرتے؟
سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی ایک طرف، لاہور پولیس کے سربراہ نے تو سارے محکمے کا سر شرم سے جھکا دیا۔ یقین مانیں، اب یہ اہم نہیں رہا کہ سی سی پی او لاہور کو کیوں لگایا گیا بلکہ نوکِ سناں پر رکھا سوال یہ ہے کہ انہیں ہٹایا کیوں نہ گیا؟ پنجاب میں آفیسرز لباس کی طرح بدلے جاتے ہیں مگر ان صاحب پر اتنی مہربانی کیوں؟ کیا معافی مانگ لینے سے جرم کی حدت کم ہو جاتی ہے؟ اگر ہو جاتی ہے تو پھر سی سی پی اوکے معاملے میں کیوں نہیں ہو رہی؟ ایک ہفتے میں دو دفعہ حکومت کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بننے والے آفیسر کا اتنا دفاع؟ ضرورت کیا تھی اور کون سی مجبوری؟ ایک سے بڑھ کر ایک آفیسر ہے، پولیس بانجھ تو نہیں۔ حکومت کا وعدہ تھا کہ وہ پولیس کو غیر سیاسی کرے گی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر کوئی پوچھنے والا ہوتا تو رواں سال صرف پنجاب میں ریپ اور گینگ ریپ کے 2155 کیسز نہ ہوتے۔ اگر کوئی پوچھنے والا ہوتا تو پاکستان جنسی زیادتی کے واقعات کے حوالے سے دس بدترین ممالک میں شامل نہ ہوتا۔
پولیس کے معاملے میں یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ اس سے بھی بھیانک ہے۔ میں کہتا ہوں آپ پولیس کا محاسبہ ضرور کریں مگر اس سے پہلے حکومتوں کا۔ حکومت بتائے کہ پولیس کو اس کی ضرورت کے مطابق وسائل کیوں نہیں دیے جاتے؟ حکومت یہ سمجھنے سے قاصر کیوں ہے کہ وسائل کے بغیر اختیارات ردی کا ڈھیر ہوتے ہیں۔ پولیس کا بجٹ پنجاب حکومت کے کل بجٹ کا پانچ فیصد ہے جو پرویز مشرف دور میں دس فیصد ہوا کرتا تھا۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ وسائل میں کمی کس وجہ سے کی گئی؟ پولیس ایک آپریشنل محکمہ ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا آپریشنل بجٹ پولیس کے کل بجٹ کا دس فیصد ہے جو کم از کم تیس فیصد ہونا چاہیے۔ یہی نہیں‘ پنجاب میں سالانہ ہر شہری پر پولیسنگ کی مد میں 6.23 ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں 15 ڈالر اور مہاراشٹر میں 50 ڈالر فی شہری صرف ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ترکی میں 175 ڈالر اور لندن میں735 ڈالر فی شہری پولیسنگ کا خرچہ ہے۔ پنجاب پولیس کو وسائل کی کمی کا ہر موڑ پر سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک کیس کی انویسٹی گیشن کے لیے پولیس کو 500 سے بھی کم بجٹ دیا جاتا ہے‘ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ آپ کسی بھی تھانے چلے جائیں‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ آثارِ قدیمہ کی تلاش میں آئے ہیں۔ عمارتیں کھنڈر زدہ، فرنیچر کھٹملوں کی آماجگاہ، 60 فیصد گاڑیاں ناکارہ، واش رومز بدبودار اور حوالات اصطبل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کھانے کا بندوبست نہ سونے کا۔ اسلحہ زنگ آلود اور وردیاں مٹی سے اَٹی ہوئیں۔ جب حالات یہ ہوں تو موقع واردات پر پولیس کیسے پہنچے گی؟ ڈاکو گولی چلائے تو کون مائی کا لعل اس کے سامنے کھڑا ہو گا؟ 
پولیس کے باب میں ماضی کے حکمرانوں سے سنگین غلطیاں ہوئیں، خدارا تحریک انصاف کی حکومت وہ غلطیاں دہرانا چھوڑ دے۔ جب تک پولیس حکمرانوں کے گھر کی باندی رہے گی‘ سانحہ موٹروے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ حوا کی بیٹیاں سٹرکوں، بازاروں اور چوراہوں پر خود کو غیر محفوظ سمجھتی رہیں گی۔ قیامت آکر گزر گئی، اب اگر اہل اقتدار کو سیاست سے فرصت ہو تو پولیس اور نظامِ عدل میں اصلاحات کی ابتدا کر دیں۔ شہر شہر، گلی گلی، نگر نگر ظلم کا جو چراغ روشن ہے وہ خود بخود بجھ جائے گا۔ پولیس کو گالی مت دیں، اس بارصرف گالی سے کام نہیں چلے گا، عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکمران میری نہیں تو ساحر لدھیانوی کی صدا ہی سن لیں ۔ 
انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے؍ یہ بات یاد رکھے؍ سب منصفوں سے اوپر؍ اک اور بھی ہے منصف؍ وہ دو جہاں کا مالک؍ سب حال جانتا ہے؍ نیکی کے اور بدی کے؍ احوال جانتا ہے؍ دنیا کے فیصلوں سے؍ مایوس جانے والا؍ ایسا نہ ہو کے اس کے دربار میں پکارے؍ ایسا نہ ہو کہ اس کے انصاف کا ترازو؍ اک بار پھر سے تولے؍ مجرم کے ظلم کو بھی؍ منصف کی بھول کو بھی؍ اور اپنا فیصلہ دے؍ وہ فیصلہ کہ جس سے؍ یہ روح کانپ اٹھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں