حکومت کب ختم ہوتی ہے؟

سمندر میں ہمیشہ تیرا ک ڈوبتے ہیں اور میدانِ جنگ میں جنگجو مارے جاتے ہیں۔ جس میں جتنا زعم ہوتا ہے‘ وہ اتنی غلطیاں کرتا ہے اور نامراد ٹھہرتا ہے۔ قدرت کا قانون ہے بھاری پتھر سب سے پہلے زمین چومتا ہے۔ اب بھی وقت ہے‘ حکومت اپنے پیش رو حکمرانوں سے کچھ سیکھ سکے تو سیکھ لے، ایسا نہ ہو پلوں تلے سے پانی گزر جائے اور پھر آپ کھیر پکانے کے لیے اپنا چرخہ بھی چلائیں اور کھیرکھانی بھی نصیب نہ ہو۔ 
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
وطن عزیز میں عجب رواج چل نکلا ہے‘ ہر کوئی جوتشی بننے کے لیے پَر تول رہا ہے۔ کسی نے فال نکالنے والے طوطے رکھ لیے ہیں تو کوئی ''جنات‘‘ کے سہارے غیب کی دنیا میں اُدھم مچا تا نظر آتا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ان تمام مستقبل کے ''پہرے داروں‘‘ کا بھانت بھانت کے خیالات کو ''مفت کی منڈی‘‘ میں بکنے کے لیے بھیجنا مقصدِ حیات بن گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے ''حکومت پانچ سال پور ے کرے گی‘ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ حکومت کے لیے خطرہ بنے‘‘۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے ''اپوزیشن جلسے جلوس کرنے کا ناٹک کر رہی ہے‘ ہونا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ حکومت تاریخ کی سب سے 'مضبوط بنیادوں‘ کے سہارے کھڑی ہے‘‘۔ ان دنوں یہ آوازیں اتنی کثرت سے بلند ہو رہی ہیں کہ ہر کسی کا یقین کرنے کو من کرتا ہے۔ میں بھی ان بے وقت کی صداؤں کا خریدار ہوں مگر پھرکچھ اور آہٹیں سنائی دیتی ہیں تو میری توجہ بٹ جاتی ہے۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
مجھے سمجھ نہیں آتی جب عوام حکومت کو پانچ سال کے لیے منتخب کرتے ہیں تو دو ڈھائی سال کے بعد یہ 'غل غپاڑہ‘ کیوں شروع ہو جاتا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو حکومت کے جانے کی تاریخیں دینے لگ جاتے ہیں اور وہ کون ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ساری اپوزیشن کو بتا دیا گیا ہے کہ یہ حکومت گری تو پندرہ بیس سال تک راج نیتی کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا۔ یہ عجب جادوگری ہے جو اپنے ہی لوگوں کو بہکانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام کو ننگے پاؤں تپتی سڑک پر بھاگتے دیکھ کر ضدکی چاد ر اتار دی جاتی اور سچ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھول دیا جاتا تاکہ سب برابر فیضیاب ہوتے۔ پھر وہ گھوڑا اور وہ گھوڑے کا میدان، مگر میرے اکیلے کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ہونا تو وہی ہے جو 'اہلِ ہنر‘ تجویز کریں گے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ اس کا فیصلہ اونٹ کا مالک کرتا ہے‘ نہ کہ کوئی دوسرا۔ پھر خیال آتا ہے بوسیدہ کواڑو ں پر دستک دینے میں حرج ہی کیا ہے؟
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے 
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے 
مستقبل کا زائچہ کھینچنے والوں سے عرض ہے کہ ایوب خان سے مضبوط حکومت کس کی ہو گی؟ الطاف گوہر روز ان کے کان میں کہا کرتے تھے‘ بھارت کو 1965ء میں ناکوں چنے چبوانے والی حکومت کبھی ختم نہیں ہو گی، پھر کیا ہوا؟ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ عوام کا ریلا دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کو بہا لے جائے گا؟ 1977 کا الیکشن ذوالفقار علی بھٹو نے جس 'دیدہ دلیری‘ سے جیتا تھا‘ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ یہ جیت پانی کا بلبلا ثابت ہوگی؟ 1997ء والے نواز شریف کو کون بھول سکتا ہے۔ وہ ہر صبح خود کو امیر المومنین سمجھ کر بستر سے اٹھتے تھے۔ دو تہائی اکثریت کا خمار انہیں چین نہیں لینے دیتا تھا۔ ہر ادارے سے ان کی مخاصمت کے چرچے تھے۔ پھر دنیا نے دیکھا ایک غلط فیصلہ انہیں کہاں سے کہاں لے گیا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جیل اور جیل سے جلاوطنی کا روگ۔ جنرل پرویز مشرف تو خود کو چودھویں کا چاند سمجھتے تھے مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ شباب ہمیشہ ہزاروں آفتیں ساتھ لاتا ہے۔ جس دن انہوں نے اپنی 'میں‘ کو عزت دی، اسی دن سے زوال کی کہانی شروع ہوئی تھی۔ 
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کبھی بھی کوئی حکومت باتوں سے ختم نہیں ہوتی اور نہ کبھی صرف باتوں کے سہارے قائم رہتی ہے۔ عوام کی خدمت کرتے ہوئے حکمرانوں کو لہو تھوکنا پڑتا ہے‘ پھر جا کر کہیں سیاست کی اندھیر نگری میں اجالا ہوتا ہے۔ خلق خدا اگر حکمرانوں سے مطمئن نہ ہو تو فولاد سے بنی حکومتیں بھی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ پاکستان ہی نہیں‘ دنیا میں کہیں بھی عوام اور حکمرانوں کے مفادات الگ الگ ہوئے تو اس کا نتیجہ ضرور برآمد ہوا۔ اچھوں کے لیے اچھا اور بروں کے لیے برا۔ نیرو کسی نہ کسی طرح روم کا شہنشاہ تو بن گیا لیکن عوام کے ساتھ اس کا ناتا جانی دشمنوں والا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ جیسے جیسے ظلم بڑھ رہا تھا ویسے ویسے حکومت اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی۔ یہی نہیں‘ سکندر اعظم 33 سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر چکا تھا اور اگلے چند سالوں میں باقی دنیا کو سر کرنے کے خواب اس کے سرہانے پڑے تھے مگرکیا وہ اپنے ارادوں کی سیڑھیاں چڑھ سکا؟ سامان سو برس کا ہے‘ پل کی خبر نہیں۔ زیادہ دور مت جائیں‘ گزشتہ دو دہائیوں میں عراق، شام، مصر، لیبیا اور یمن کے حکمرانوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ صدا م حسین سے لے کر حسنی مبارک تک سب خود کو ناگزیر نہیں سمجھتے تھے؟ نجانے ہم یہ کیو ں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے سارے قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ شاید اقتدار سے محبت اور اختیارات کا نشہ انسان کو وہم میں ڈال دیتا ہے ورنہ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا‘ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے‘ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں! سرکار! جانا تو ہے۔
اہلِ سیاست خاطر جمع رکھیں! حکومتوں کے لیے یہ سہارے جو ہمارے 'خبری دوست‘ بتا رہے ہیں کبھی بھی بقا کے ضامن نہیں ہوتے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر باقی ممالک میں حکومتیں خود کو کیسے محفوظ سمجھتی ہیں؟ اور وہ کون سے عوامل ہوتے ہیں جن کے باعث حکومتیں منہ کے بل گر پڑتی ہیں؟ اس کا نہایت آسان جواب ہے‘ حکمران خود کو تب درست ڈگر پر سمجھتے ہیں جب عوام کاان پر اعتماد برقرار ہو اور ہر گھر میں خوشحالی کا راج۔ دوسری طرف حکومتیں تب ختم ہوتی ہیں جب شہری حکومت سے بیزار ہو جائیں، مہنگائی آسمانوں کو چھونے لگے، بے روزگاری عام ہو، کاروبار بند ہونے لگیں، لوگ ٹیکس چوری کو اپنا حق سمجھیں، سارا ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہو، کرنسی پاتال میں گری ہو، زرمبادلہ کے ذخائر کو گھن لگ چکا ہو، سارے قومی ادارے نقصان میں ہوں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حکومت آخری ہچکیاںلے رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت زیادہ نہیں تو صرف بیس ہزار لوگ ہی سڑکوں پر نکل آئیں تو ریاستی مشینری ناکارہ ہو جاتی ہے اور حکومت کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان 'بے سُری‘ آوازوں کو خاطر میں مت لائیں جو سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ حکومت صرف معیشت اور نظام حکومت پر توجہ دے، انصاف عام کر دے، غریب کے لیے بھی اور امیرکے لیے بھی۔ اگر حکومت یہ کر گزری تو پھر اس 'شور شرابے‘ کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے جھوٹی تسلی جھوٹی ہوتی ہے، بھلے کوئی بھی دے۔ قرآن مجید میں سورۃ الرحمن کی آیات 26 پڑھیں تو سارے عقدے کھل جاتے ہیں : کُلُ مَن عَلَیھَا فان: جو کوئی زمین پر ہے‘ فنا ہونے والا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں