حکومت نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماری؟

کھانے میں زہر ملا ہو تو علاج ممکن ہے مگر کانوں میں زہر گھلا ہو تو علاج کہاں؟ دنیا کا کوئی بھی طبیب آج تک نفرت کا علاج دریافت کر سکا نہ بے حسی کا۔ اگر علاج ہوتا تو ہماری حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں اس نہج پر نہ ہوتیں۔ آج سب کی اپنی اپنی دہائیاں ہیں اور اپنے اپنے روگ۔ عوام کس چکی میں پِس رہے ہیں‘ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ اہلِ سیاست شاید یہ نہیں جانتے کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر دوسرے کے گھر میں پتھر نہیں پھینکے جاتے، عیب سب میں ہوتے ہیں اور زبانیں بھی۔ احسان دانش نے تو ساری گتھی ہی سلجھا دی۔
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
شہباز شریف کی طرف سے دستِ تعاون دراز تھا تو ابتدائی مرحلے پر گرفتاری کا جواز کیا بنتا تھا؟ دنیا میں کوئی ایسی ٹیم دکھا دیں جس کے کھلاڑی اپنی ہی ڈی میں گول کرتے ہوں اور پھر کھلاڑی بھی کہلاتے ہوں۔ صدیو ں پرانی کہاوت حکمرانوں کو نہیں بھولنی چاہیے، پرایا مارے تو دھوپ میں پھینکتا ہے‘ اپنا مارے تو کم از کم چھاؤں ضرور ملتی ہے مگر شہباز شریف کے معاملے میں ایسا نہ ہو سکا۔ اقتدار کے پنگھوڑے میں بیٹھنے والوں کو خبر ہونی چاہیے کہ سیاست ایسا کھیل ہے جہاں ''اپنے پرائے‘‘ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دل تھام کر اور ذہن کی کھڑکیاں کھول کر سوچا جائے تو اپوزیشن کی صفوں میں شہباز شریف سے بڑا حکومت کا خیر خواہ نہیں ملے گا۔ گزرے دو سالوں میں کتنے ہی مواقع آئے‘ جب شہباز شریف نے حکومت مخالف تحریک کے آگے بند باندھے۔ مولانا فضل الرحمن ''اسلام آباد فتح کرنے‘‘ نکلے تو چھوٹے میاں صاحب نے جو ''کردار‘‘ ادا کیا‘ وہ کسی طور اپوزیشن کے حق میں نہ تھا۔ میاں نواز شریف نے جب جب حکومت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنا چاہا تو شہباز شریف ان کے آگے دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے۔ بڑے بھائی کی منت سماجت کی اور کام چلایا مگر اقتدار کے ایوانوں پر آنچ نہ آنے دی۔ نجانے کیوں حکومت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ رنگ و نسل میں اختلاف کے باوجود ایک قطار میں کھڑے شجر کبھی ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہوتے۔
ہم اپنے باغ کے پھولوں کو نوچ ڈالتے ہیں
جب اختلاف کوئی باغباں سے ہوتا ہے
کوئی جائے اور حکومت کو بتائے کہ ہر جرم کی سزا ایک جیسی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنی توپوں میں پانی خود ڈالا جاتا ہے‘ سیاست بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ مقاصد بڑے ہوں تو چھوٹی چھوٹی اناؤں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ شہباز شریف کی گرفتاری کا سب سے زیادہ نقصان کسے ہوا اور فائدہ کسے پہنچا؟ اچھا کسے لگا اور برا کسے؟ کون رنجیدہ ہوا اور کون خوش؟ یقین مانیں‘ پیپلز پارٹی ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ شہباز شریف منظر عام سے ہٹ جائیں کیونکہ ان دنوں آصف زرداری اور شہباز شریف کی سوچ میں زیادہ فرق نہیں۔ تصدیق کرنا مقصود ہو تو دونوں رہنماؤں کی اے پی سی میں ہونے والی تقریر یں سن لیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ہاں البتہ! مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کی دلی خواہش پوری ہوئی۔ یہ تینوں شہباز شریف کی مفاہمت سے بیزار ہو چکے تھے اور چاہتے تھے یہ بھاری پتھر راستے سے ہٹ جائے۔ مریم نوا ز لیڈ کریں یا میاں نواز شریف‘ تلوار میان سے نکا ل کر میدانِ سیاست میں کود پڑیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں‘ مولانا فضل الرحمن کے ارادوں کی جیت ہوئی یا حکومت کی؟ چلیں مان لیتے ہیں حکومت کی ''نیک نامی‘‘ میں بھی تھوڑا اضافہ ہوا ہو گا مگر معاملہ ہار جیت تک رہتا تو کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا، یہاں تو بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ سات پردوں میں چھپی کہانیاں چوک چوراہوں پر لکھی جا رہی ہیں اور کوئی روکنے والا بھی نہیں۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ان کے بھائی نے جو طوفان برپا کیا ہے‘ ہماری سیاست اس کی متحمل نہیں ہو سکتی؟ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ کوئی بھی اس آگ کی تپش سے محفوظ نہیں رہ سکتا؟
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
شاید شہباز شریف کا ''ہومیو پیتھک‘‘ بیانیہ اس حکومت کو راس نہیں آ رہا تھا جو نواز شریف کی شعلہ بیانی کو ہو ا دی گئی۔ پہلے مولانا صاحب اکیلے تھے‘ اب مریم اور نواز شریف بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔ وہ‘ وہ باتیں کی جا رہی ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی خلقِ خدا نے سنے نہ پڑھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چار سُو انارکی پھیل رہی ہے اور مستقبل کا خوف گہرا ہوتا جا رہا ہے، عوام میں بھی اور ان کی اپنی جماعت میں بھی۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ میاں صاحب بنا سوچے سمجھے بول رہے ہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ ان کی پارٹی اس بیانیے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے یا نہیں؟ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ایسی ''بے باکی‘‘ لندن میں بیٹھ کر ہی ہو سکتی ہیں‘ پاکستان میں نہیں۔ یہ باتیں شہباز شریف کر سکتے ہیں نہ شاہد خاقان، رانا ثنا اللہ بول سکتے ہیں نہ احسن اقبال۔ میرا احسا س ہے کہ میاں نواز شریف نے ساری پارٹی کو اس راہ پر دھکیل دیا ہے جہاں صبح ٹھنڈی ہے نہ شام، دھوپ معتبر ہے نہ سایہ۔
ہوا چلی تو کوئی نقش معتبر نہ بچا
کوئی دیا‘ کوئی بادل‘ کوئی شجر نہ بچا
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت بڑھانے سے حکومت کو کیا ملا؟ کیا عوام کے دکھ، درد اور تکلیفیں دور ہو سکیں؟ کیا لوٹی دولت واپس آ سکی؟ کیا حکومت بتائے گی کہ اسے مینڈیٹ صرف احتساب کرنے کا ملا تھا؟ کیا عوام کی داد رسی حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ کیا معیشت کو سنبھالا دینے کا مینڈیٹ حکومت کے پاس نہیں؟ اگر ہے تو جی ڈی پی کا حجم 314 ارب ڈالر سے کم ہو کر 260 ارب ڈالر پر کیوں آ گیا؟ مہنگائی کی شرح تین سے چار گنا کیوں بڑھ گئی؟ روپے کی قدر میں 35 فیصد سے بھی زائد کمی کیوں ہوئی؟ تیس لاکھ کے قریب لوگ بیروزگار کیونکر ہوئے؟ ملکی ترقی کی شرح منفی میں کیوں چلی گئی؟ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا حکومت پر اعتبار کم کیوں ہو گیا؟ اگر حکومت کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ سیاسی درجہ حرارت جتنا زیادہ ہو گا‘ حکومت کے لیے مسائل اتنے بڑھ جائیں گے۔ چند ہزار لوگ بھی سڑکوں پر آ گئے تو لاء اینڈ آرڈرکا مسئلہ شدید ہو جائے گا۔ پھر کہاں کا کاروبار اور کون سی معیشت۔ نقصان صرف ملکی خزانے کا ہو گا یا پہلے سے بدحال عوام کا۔
خدارا! اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ صرف اپنے خاندان نہیں‘ 22 کروڑ لوگوں کے کنبے کا بوجھ وزیراعظم کے کندھوں پر ہے۔ احتساب ضرور کریں مگر صرف احتساب نہیں‘ گورننس کو اپنی ترجیح بنائیں۔ چور‘ ڈاکو ضرور پکڑیں مگر صرف اپوزیشن سے نہیں۔ زبان زدِ عام ہے کہ ملک میں احتساب کی ''یکطرفہ‘‘ ہوا چل رہی ہے جس کے باعث افراتفری کا موسم آنے والا ہے۔ اس موسم کی شدت کتنی ہو گی‘ اس کا سارا انحصار حکومت کے رویے پر ہے۔ اب بھی وقت ہے حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا چھوڑ دے۔ اگر یہی روش رہی تو اس بار لہو صرف حکومت اور اپوزیشن کا نہیں نکلے گا عوام بھی حصہ دار ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں