دورِ غلامی سے عشق؟

سیاست کا کھیل دنیا بھرمیں یکساں مقبول ہے‘ شاید اس لیے کہ اہلِ سیاست مردہ روح کے ساتھ جنم نہیں لیتے اور ساری عمر منجمد لاشوں کی طرح زندگی بسر نہیں کرتے۔ ہنگامہ اور ہلچل سیاست کا خاصا رہا ہے مگر افسو س! اب دنیا بھر میں گالی، الزام تراشی، جھوٹ اور کینہ اس کھیل کی پہچان بن چکے ہیں۔ آپ سارے براعظموں کو چھان لیں‘ کوئی ملک ایسا نہیں ملے گا جہاں سیاست کی دکان شرافت اور نیک نامی کے بل بوتے پر چلتی ہو۔ ہر جگہ سیاسی مخالفین کو محض مخالف نہیں‘ جانی دشمن سمجھا جاتا ہے جبکہ اختلافِ رائے کو بغاوت۔ سیاست میں کڑواہٹ اتنی آگئی ہے کہ اس کھیل کے شہ سواروں کو شہد بھی میٹھا نہیں لگتا۔
اس آستین سے اشکوں کو پونچھنے والے
اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا
ہر طرف سیاست کا چلن الٹے قدموں چلنے لگے تو عام آدمی سوائے کڑھنے کے اور کیا کر سکتا ہے؟ پاکستان میں بھی ان دنوںسیاست لباسِ پارسائی اتار کرگلی گلی گھوم پھر رہی ہے۔ کہیں غداری کے الزام دھرے جا رہے ہیں تو کہیں بغاوت کے۔ کسی کو بھارت کا آلہ کار کہا جاتا ہے تو کسی کو امریکا نواز۔دوسری طرف چور، ڈاکو، لٹیرے، نااہل، غاصب اور سلیکٹڈ کی چیخ و پکار شہر شہر جاری ہے۔ کبھی حکومت اپوزیشن کے لتے لیتی ہے تو کبھی اپوزیشن حکومت میں کیڑے نکالتی نظر آتی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ہی توازن کھو بیٹھی ہیں اور برداشت ناپید ہوچکی ہے‘ مکمل ناپید۔ کسی کو فکر نہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ریس میں عوام کہاں کھڑے ہیں اور کس کا ہاتھ کون سی چکی میں پس رہا ہے۔ انہی ساعتوں میں درد دبے پاؤں آیا اور میرے بال و پر نوچ کر مجھے جھیل میں تبدیل کر گیا۔ ایک ایسی جھیل، جو چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں سے گھری ہو اور بیکراں سمندر تک پہنچنے کے لیے اسے کوئی راستہ نہ مل رہا ہو۔ میں نے اس مایوسی اور رنج کے اسباب پر پہروں غور کیا مگر بے سود! میں نے پرندوں کے گیت اور بدلتے موسم کے قہقہے سنے مگر ہر بار میری روح مغموم ہوئی اور میں جان نہ سکا کہ یہ غم مجھے کس نے بخشا اور کیوں؟
پھر ایک ایف آئی آر نظروں سے گزری تو معلو م ہوا کہ اس بے چینی کی وجہ کیا تھی۔ یہ پرچہ تھانہ شاہدرہ میں مسلم لیگ نون کے تینتالیس رہنماؤں کے خلاف کاٹا گیا تھا۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہ اس کیس کے مدعی نے ریاست کا اختیار استعمال کیا تھا اور مبینہ طور پر حکومت بے خبر رہی۔ وہ حکومت جو ریاست اور ریاست کے اختیارات کی محافظ ہوتی ہے‘ اُس وقت کہاں تھی‘ کسی کو معلوم نہیں۔ ایف آئی آر میں صرف تقریر کرنے اور سننے پر پاکستان پینل کوڈ کی ایسی دفعات استعمال کی گئیں کہ ہر ذی شعور انسان سکتے میں چلا گیا۔ کیا کسی کو نہیں معلوم کہ پی پی سی کی دفعات 121 اور 121A پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف لگائی جاتی ہیں؟ دفعہ 123A ملکی وقار کو ٹھیس پہنچانے والوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے؟ خدا کی پناہ ! سب سے بڑھ کر دفعہ 124A ‘ جو ملک سے بغاوت کرنے والوں پر لگتی ہے؟ کون جانے اُس وقت متعلقہ حکام کیا کر رہے تھے اور کدھر مصروف تھے؟ کسی نے بھی آگے بڑھ کر نہیں بتایا کہ ان دفعات کو استعمال کرنے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ حکومت اب اس پرچے میں لگنے والی دفعات کم کرے یا ملزمان کی تعداد‘ جو بدنامی اس کے حصے میں آنا تھی‘ آ چکی۔ سنا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر یہاں تو معاملہ اس سے بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔ اہلِ اقتدار کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کل کی حکومت آج کی اپوزیشن ہے تو آج کی حکومت بھی کل کی اپوزیشن ہو سکتی ہے۔ بے شک حکمرانی کے ہاتھ ریشم سے نرم اور ملائم ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دن درد کے حلیف‘ مگر پھر وہی سوال! آخر کب تک؟
تاریخ کے صفحے پلٹ کر دیکھ لیے جاتے تو معلوم ہوتا کہ قائداعظم محمد علی جناح پینل کوڈ کی شق 124A کو کتنا ناپسند کرتے تھے۔ 1909ء اور 1916ء میں بغاوت کا مقدمہ بھگتنے والے بال گنگا دھر تلک کا جس انداز سے قائداعظم نے عدالت میں دفاع کیا تھا‘ شاید ہی کوئی اور کر پاتا۔ بانیٔ پاکستان نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ''یہ قانون انسانیت کی تذلیل ہے، ریاست اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے والوں کی یوں زباں بندی نہیں کروا سکتی۔ ایسے قانون زندہ معاشروں میں اپلائی نہیں ہوتے‘‘۔ یہی نہیں گاندھی بھی اس سامراجی قانون کے بہت بڑے ناقد تھے۔ 1922ء میں گاندھی پر بغاوت کا مقدمہ بنا تو انہیں احمد آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر انہوں نے تاریخی کلمات ادا کیے ''محبت اور نفرت ایسے جذبے ہیں جنہیں کسی قانون کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ بھی ہو جائے ہماری آواز بند نہیں کی جا سکتی۔ ہم اپنے حقوق کے لیے بولتے رہیں گے‘‘۔
پاکستان پینل کوڈ میں یہ شق برطانوی حکومت کی نشانی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب ہر ہندوستانی دکھی اور آزادی کا داعی تھا تو سامراجی قوتوں نے ہندوستانیوں کی زباں بندی کے لیے 1870ء میں انڈین پینل کوڈ میں سیکشن124A شامل کی‘ جس کے بعد ہزاروں سیاسی کارکنوں پر مقدمات بنائے گئے۔ گوروں نے ملک بھر میں جاری مختلف تحریکوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھی اسی قانون کا سہارا لیا تھا اور ہزاروں مسلمانوں کو دفعہ 124A کے تحت جیل کی ہو ا کھانا پڑی تھی۔ کانگریس ہو یا مسلم لیگ‘ برٹش انڈین غاصب حکومت نے کسی کو نہیں بخشا۔ گاندھی، نہرو، ابوالکلام آزاد، جوہر برادران اور بھگت سنگھ‘ سبھی اس قانون کا نشانہ بنے۔ دکھ کی بات یہ ہے پاکستان اور بھارت‘ دونوں نے آج تک اس دفعہ کو سینے سے لگا رکھا ہے جبکہ برطانیہ برسوں پہلے اس قانون کو اپنے ہاں سے ختم کر چکا ہے۔ بھارت میں اتنا ضرور ہوا کہ وہاں کی سپریم کورٹ نے 1962ء میں اس قانون کو حکومت اور پولیس کی منشا سے آزاد کر دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ صرف تنقید کرنے سے بغاوت کا کیس نہیں بنتا البتہ پُرتشدد واقعات کی صورت میں 124A کے تحت مقدمات بنائے جا سکتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں تو اتنا بھی نہ ہو سکا۔ اس قانون کا جو استعمال گوروں نے کیا تھا‘ وہی قیامِ پاکستان کے بعد بھی ہوا۔ خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، عبدالصمد اچکزئی، فیض احمد فیضؔ، جی ایم سید، جاوید ہاشمی اور دوسرے بہت سے رہنماؤں کو اس قانون کی وجہ سے بغاوت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
دورِ غلامی کا یہ قانون بھارتی وزیراعظم مودی کا پسندیدہ قانون ہے‘ گجرات میں فسادات کے دوران اس قانون کا بے دریغ اور اندھا استعمال کیا گیا تھا اور آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی آواز دبانے کے لیے یہی پرانا حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ گزرے ڈیڑھ سا ل میں شہریت بل کے خلاف مسلمانوں نے جب جب احتجاج کیا‘ مودی سرکار نے اسی قانون کے تحت مقدمات بنائے۔ آپ باقی بھارت کو چھوڑیں‘ صرف جھارکھنڈ میں دس ہزار مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پرچے کاٹے گئے جبکہ دہلی میں چھ ہزار سے زائد مسلمان اب بھی ٹرائل بھگت رہے ہیں۔
پاکستان میں دفعہ 124A کو صرف مسلم لیگ نون کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا بلکہ گزشتہ برس لاہور میں نکلنے والی طلبہ ریلی کے حوالے سے بھی اس قانون کا استعمال کیا گیا تھا، چار ماہ قبل پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے اس شق کے خاتمے کا بل سینیٹ میں پیش کیا تو نجانے کیوں حکومت کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو اس قانون سے ''محبت‘‘ ہے تو اسے ضرور سنبھال کر رکھیں مگر اتنی تشریح ضرور کر دیں کہ اس قانون کو کب‘ کہاں اور کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے‘ ورنہ بھگت سنگھ سے نواز شریف تک‘ سب کو ایسا لگے گا کہ ہمیں دورِ غلامی سے آج بھی عشق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں