’’قدم بڑھاؤ نواز شریف‘‘ کے نعرے اور حکومت

انقلاب طویل سیاسی سفر کا ردِعمل نہیں ہوتا، یہ تو شعور کی ہلکی آنچ پر پکا ہوا وہ جذبہ ہوتا ہے جو روحوں میں اترتا ہے۔ یہ وہ احساس ہے جو محسوسات سے ماورا ہوتا ہے۔ اس کی نمو خزاں اور بہار سے بے نیاز ہوتی ہے۔ کوئی ذی روح اس کی تخلیق پر قادر نہیں۔ انقلابی پیدائشی طور پر انقلابی ہوتا ہے‘ ورنہ کچھ بھی کر لیں یہ روپ صدیوں میں بھی پروان نہیں چڑھ پاتا۔ جو کوشش کرتے ہیں‘ وہ وقت برباد کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب بھی شوق پورا کرلیں اور ان کی جماعت بھی۔ میاں صاحب کے پاس عوام کو دینے کے لیے ہے کیا؟ چند جلسے اور کچھ سوچی سمجھی تقریریں اور پھر وہی پرانا راستہ، ٹوٹا پھوٹا، بے سمت اور منزل سے عاری۔
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
میاں نواز شریف کی گوجرانوالہ میں تقریر کسی انقلابی کا بیانیہ نہیں، آگ کا کھیل تھی۔ ایک ایسا کھیل جس میں ہمیشہ کھلاڑی ہارتا ہے‘ امپائر نہیں، میدان تباہ ہوتا ہے‘ کھیل نہیں۔ کیا میاں صاحب کو اندازہ ہے کہ ان کی تقریر کے بعد مسلم لیگ نون پر کیا بیت سکتی ہے؟ کیا انہیں احساس ہے کہ ان کی پارلیمانی قوت آدھی رہ سکتی ہے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی پاکستان میں موجود قیادت یہ آگ کا دریا عبور کر سکتی ہے؟ اگر انہیں ان تمام معاملات کی حساسیت کا ادراک نہیں تو وہ کیسے لیڈر ہیں؟ اگر انہوں نے یہ سب جانتے بوجھتے کیا ہے تو پھر یوں لگتا ہے کہ ان کا سیاست اور اہل سیاست سے جی بھر چکا۔ اب وہ خود کھیلنا چاہتے ہیں‘ نہ کسی اور کو کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ راہ جو انہوں نے چنی ہے‘ اس کی منزل جمہوریت ہرگز نہیں ہے۔ یہ راستہ اس دلدل کی طرف جاتا ہے جہاں ہم پہلے بھی چار بار جا چکے۔ جہاں خسارہ ہی خسارہ ہے، جمہوریت کا بھی اور سیاست دانوں کا بھی۔
میاں نوا ز شریف صاحب لاکھ جتن کریں‘ کچھ حاصل حصول نہیں ہو گا۔ وہ پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق جھٹلا سکتے ہیں‘ بدل نہیں سکتے۔ وہ سیاست کی کشتی بھنور میں پھنسا سکتے ہیں‘ پار نہیں لگا سکتے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس بیانیے کاسب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کو ہی ہوا۔ ساری جماعت کی سیاست دوراہے پر کھڑ ی ہے۔ آگے دیوار ہے تو پیچھے کھائی۔ اقرار کر سکتے ہیں نہ انکار۔ سچ بول سکتے ہیں نہ جھوٹ۔ شاہد خاقان عباسی ہوں یا رانا ثناء اللہ، شہباز شریف ہوں یا احسن اقبال‘ کوئی بھی سو فیصد نواز شریف کی ہمنوائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اب انہیں 'اگر مگر، ہاں نہیں، ایسے ویسے‘ کی سیاست کرنی ہے۔ مصلحت سے کام لینا ہے اور مصالحت کا دروازہ بھی بند نہیں کرنا۔ میاں نواز شریف کو بھی خوش رکھنا ہے اور اصل کھلاڑیوں کو بھی۔ رہا معاملہ مریم نواز کا تو بیٹی باپ کی زبان بولے گی‘ جب تک بول سکتی ہے۔ اب الفاظ میاں نوا ز شریف کے ہوں گے اور زبان مریم نواز کی۔ سوچے گا باپ‘ بولے گی بیٹی۔
اگر حالات کا ٹھنڈے دل اور کھلے دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو ہر کسی کو بھی نظر آ رہا ہے کہ میاں نوازشریف صاحب نے جو بولنا تھا‘ بول دیا۔ اب اس ''بے باکی‘‘ کے بعد ان کے پاس کہنے کے لیے کیا بچا ہے؟ وہ ترکش کا آخری تیر بھی چلا چکے۔ میرے خیال میں انہوں نے جلد بازی کی اور حکومت نے اور بھی زیادہ۔ جو جال میاں نواز شریف نے بچھایا تھا‘ حکو مت اس میں بری طر ح پھنس چکی ہے۔ اتنے سنگین الزامات کا اتنا جذباتی جواب؟ ضرورت کیا تھی؟ ایسے الزامات کا جواب خاموشی سے دیا جاتا ہے‘ بول کر نہیں۔ ویسے بھی‘ وزیراعظم کو زیبا نہ تھا کہ وہ اپوزیشن کو دھمکیاں دیتے۔ وہ بھلے سب کو جیلوں میں ڈال دیتے مگر اداروں کو استعمال کرنے کی بات نہ کرتے تو کیا حرج تھا؟ صرف سیاسی کیسوں کو چند مہینوں میں منطقی انجام تک پہنچانے کا ارادہ ظاہر نہ کرتے تو کیا بگڑ جاتا؟ البتہ! نوازشریف کو واپس لانے والی بات جائز تھی مگر مسئلہ یہ ہے کہ واپسی ان کی خواہش پر نہیں‘ برطانیہ کی مرضی سے ہو گی۔
حکومت کا کام آگ پر پانی چھڑکنا ہوتا ہے‘ تیل نہیں۔ میاں نواز شریف نے حد سے تجاوز کیا تھا تو حکومت کو صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ میاں صاحب حکومت کو پٹڑی سے اتارنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ حکومت اِدھر اُدھر کے مسائل میں الجھی رہے۔ مہنگائی اور بدانتظامی اپنی آخری حدو ں کو چھو لے تاکہ عوام کو مسلم لیگ نون کی یاد ستائے۔ اب حکومت کی مرضی ہے کہ وہ صیادکے دام میں آئے یا عوام کو مہنگائی کے عذاب سے باہر نکالے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ''میں آج سے بدلا ہوا وزیراعظم ہوں، میں اب اپوزیشن کا مقابلہ کرکے دکھاؤں گا‘‘۔ اس جملے کو سمجھا جائے تو مثبت اور منفی‘ دونوں پہلو خود بخود نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اگر وزیراعظم ایسے مقابلہ کریں گے‘ جیسے نواز شریف چاہتے ہیں تو پھر تو عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ وزیراعظم تقریروں کا جواب تقریروں سے دیں گے اور وزرا اپوزیشن کے جلسوں کا حساب کتاب کرنے میں مگن رہیں گے۔ ایک وزیر بیان دے گا ''آج جلسہ نہیں‘ جلسی تھی‘‘ دوسرا بولے گا ''جلسے میں 18 سے 20 ہزار لوگ تھے‘‘ تیسرا بتائے گا ''کس جلسے پر کتنا خرچ آیا اور کس جماعت نے کتنے پیسے دیے‘ سب رپورٹس ہیں‘‘، چوتھا وزیر کچھ کہے گا اور پانچواں کچھ۔ یقین مانیں! اگر حکمرانوں نے یہ راستہ چنا تو یہ ملک و قوم کی تنزلی کا راستہ ہوگا۔ حکومت کو اگر اپوزیشن کا مقابلہ کرنا ہے تو مہنگائی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو، بدانتظامی اور اقربا پروری کو تالا لگا دے۔ حکومت نے اگر نواز شریف کے بیانیے کو غلط ثابت کرنا ہے تو جلد از جلد اپنی اہلیت ثابت کرے۔ مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں کو عبرت کا نشان بنا دے۔ معیشت کو اپنی اولین ترجیح بنائے اور انصاف کا بول بالا کرے۔ حکومت اگر یہ کر گزری تو نوازشریف کا بیانیہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ پھر عوام کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ کون نواز شریف؟
اب کھیل کا سارا دار و مدار حکومت پر ہے کہ وہ اپنے پتے کیسے کھیلتی ہے۔ حکمرانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، چھوٹی سی غلطی کشتی میں سوراخ کر سکتی ہے اور سوراخ ہوئی کشتی کا حال وہی ہوتا ہے جو ٹائی ٹینک کا ہو ا تھا۔یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ سارے انقلاب‘ جنہوں نے خون کے دریا بہا دیے اورانسانوں کو حریت کی راہ دکھائی‘ ایک فردِ واحد کے ذہن سے پھوٹے تھے۔ وہ جنگیں‘ جنہوں نے عظیم ترین سلطنتوں کو تہِ خاک سلا دیا‘ ایک ہی انسان کے ذہن کی تخلیق تھیں۔ ''قدم بڑھاؤ نواز شریف‘‘ کے نعرے لگانے والے شہر شہر، گلی گلی، نگر نگر ملیں گے مگر حکومت کو انہیں طاقت سے نہیں‘ پیار سے سمجھانا ہے۔ صورت حال بہت نازک ہے حکومت کو باپ اور ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں‘ سیاسی ہونے کا ہے۔
مجھے یہاں ذوالفقار علی بھٹو کے تاریخی الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی، لاہور کے جلسے میں بھٹو صاحب نے جوشیلے انداز میں کہا تھا ''میں آمریت کا سورج غروب ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہماری تحریک میں ٹوٹے جوتوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والے شامل ہو چکے ہیں۔ جو خالی پیٹ ہو کر بھی سب سے بلند نعرے لگاتے ہیں۔ دنیا میں جب جب بھی ایسے لوگ سیاسی تحریکوں کاحصہ بنے ہیں، کامیابی ضرور ملی ہے‘‘۔ پھر سب نے دیکھا کہ کچھ وقت کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اب بھی وقت ہے‘ حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ مہنگائی سے تنگ عوام اپوزیشن کے جلسوں کا رخ کر لیں۔ یہ بات یاد رکھیں! آج پاکستان میں ٹوٹے جوتوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اور خالی پیٹ نعرے لگانے والے انقلاب ضرور لاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں