جنگ ابھی جاری ہے

تبدیلی کی کہانی دو سال پرانی ہوچکی۔عوام پرایک ایک ساعت ایک ایک سال کے برابر گزری۔اس عرصۂ بیکراں میں شب کا سکوت، دودھیا اُجالا،تاروں بھر ا آسمان،مہکتی زمین،پھول اور پیڑ‘ ہر شے عوام کے ذہن سے محو ہو گئی۔یاد رہی تو مہنگائی، نہ بھولی تو بدانتظامی۔ تھکا تھکا سا بدن اور خالی خالی سی آنکھیں‘ ایسی آنکھیں جو سرور انگیز خواب سے بیدار ہوکر نفرت اور بے یقینی کے ماحول میں لوٹ آئی ہوں۔ ہونٹ ایسے کہ جن پر کربناک تبسم کی جھلک عیاں۔ چہرہ ایسا کہ حزن و ملال کے سائے رقصاں۔ذہن اتنا منتشر کہ اپنے ہی قدم ہمراہی سے مکر جائیں۔ سر آگے کی طرف خمیدہ، جیسے اس پر کوئی بھاری بوجھ لدا ہو۔ جرم صرف اتنا کہ اچھے دنو ں کی امید میں ساری قوم نے کبھی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھا تھااور خواب بھی وہ جو تیسری دنیا کے ممالک میں دہائیوں کی آرزو کے بعد بھی مر مر کے جیتے ہیں اور سسک سسک کرمرتے ہیں۔عباس تابش نے ساری قوم کا درد ایک شعر میں سمو دیا ؎
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
مستقبل اپنی تمام تر وحشتوں اور دہشتوں کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا تھاکہ امیدِ صبح نے انگڑائی لے لی۔عوام کے دل کی شمعیں روشن ہوئیں اور بیانیے کی تاریک راہوں کو منور کر گئیں۔ اب یوں گمان ہوتا ہے اَنانیت کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ پاکستان دھیرے دھیرے ہی سہی مگر بدل رہا ہے۔ یقینا ویسا نہیں جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔دو سو ارب ڈالر واپس لانے کا‘ آٹھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا۔کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ تھا نہ کلچر تبدیل ہو سکا‘ نہ پٹوارکا نظام۔ ڈاکوپکڑے گئے نہ چور چور کا شور تھم سکا۔ مہنگائی کا طوفان رُکانہ بدانتظامی کی آندھی۔ میرٹ کا بول بالا ہو ا نہ اقربا پروری کے کالے سائے ختم ہوئے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بدلا ؟ اگر وہ سحر ہی نہیں ہوئی جس کی آرزو لے کر چلے تھے توپھر کیسی تبدیلی اور کون سا نیا پن ؟ برسوں کی بے کیف اور بے نور زندگی میں اجالا نہیں ہوا تو پھر کیا حاصل حصول ؟ بلاشبہ ایسا ہی ہے‘ وہ خواب پورے نہیں ہوئے جن کی تعبیر حسین تر تھی مگر گھبرانے کی کیا بات ؟ ابھی موسمِ گل بیتانہیں، فنا کے چشمے پھوٹے نہیں اورغم کے بادل سیاہ نہیں ہوئے۔ ابھی نسیمِ سحر کی تمنا کی جاسکتی ہے، ابھی چمن میں بہارکے لوٹنے کی خواہش ہو سکتی ہے۔
جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں پاکستان سچ میں تغیر کے مراحل میں ہے۔ وہ وقت بیت چکا جب غلط کو غلط کہنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔ جب دن کو رات اور رات کو دن کرنے کا فن مخصوص افرا د کوآتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے، اب جتنے جھوٹ کے ساتھی ہیں اتنے ہی سچ کے۔ اب حال یہ ہے کہ تہتر سال اندھے لوگوں کی طرح راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے ہم اس جانب نکل آئے ہیں جہاں چہار اطراف صاف دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی بات چاہ کر بھی چھپائی نہیں جاسکتی۔ جہاں کوئی راز‘ راز نہیں، کوئی اچھوت نہیں‘ کوئی معتبر نہیں۔ جہاں کوئی آندھیوں کو روک سکتا ہے نہ گلابوں کو بکھرنے سے۔ جہاں ہر کسی سے سوال ہو سکتا ہے۔حبس کاموسم تمام ہوا اورگھٹن نے دیوار میں در بنا لیا ہے۔اب ہماری آنکھیں ایسی دنیا کی طرف کھل چکی ہیں جہاں چاہے کوئی جتنا بھی طاقتور ہو مگر نا قابلِ گرفت نہیں۔جہاں کمزور سے کمزور کو بھی ہمیشہ کے لیے دبایا نہیں جاسکتا۔سوشل میڈیا پر سر پھروں کی پوری فوج ہے جو کسی سے بھی ٹکر لینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ جواپنے کچے گھروں کی بوسیدہ چھتوں پر بیٹھ کرسنگ ِ مر مر پر لگے داغ دکھانے سے بھی نہیں ڈرتی۔ وہ ساری باتیں آسانی سے کہہ دی جاتی ہیں جو اس سے پہلے کہنا عیب تصور کیا جاتا تھا۔ اب سیاسی دکھڑے بھی چوراہوں میں بیان ہوتے ہیں اور ذاتی بھی۔قومی را ز بھی تقریروں میں آجاتے ہیں اور سیاسی رہزنی کی کہانیاں بھی۔
سب حرف ِ انکار کی گردان دہرا سکتے ہیں مگر میرا احساس ہے کہ میر ا ملک بدل رہا ہے۔نئے قومی ہیرو سر اٹھا رہے ہیں اور پرانوں کی شان وتکریم بھی بڑھ رہی ہے۔ گدلے پانیوں میں پتھر مارنے والوں کی تعداد روز بر وز دگنی ہورہی ہے تو صاف پانی کو مزید شفاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ بھڑوں کے چھتے کو پتھر مارنے والے بھی بہت اور شہد کی مکھیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے بھی کم نہیں۔میری قوم نے مان لیا ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ضروری ہے۔ آپ گزشتہ کچھ ماہ کے سارے مناظردوبارہ دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ عوام کے شعور میں بدلاؤ آچکا۔ برے کو برا اور جھوٹے کو جھوٹا کہنے کی ریت پروان چڑھ رہی ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کا فیشن عام ہو رہا ہے۔ عام آدمی ہی نہیں ہر طبقہ فکر نے اپنا طرز ِتکلم بدلا ہے۔ سیاسی ورکر ہو یا بیورو کریٹ، پولیس ہو یا تاجر، سرکاری ملازم ہوں یا دیہاڑی دار مزدور۔ ہر کوئی اپنے حق کے لیے آواز بلند کررہا ہے۔ اس ملک میں کون ہے جو اتنی بے پناہ مہنگائی کا دفاع کرتا ہو؟کون ہے جو سیاسی مقدمات کے پیچھے کھڑا ہوتا ہو؟ کون ہے جو قانون کے غیر قانونی استعمال کو درست مانتا ہو؟ کسی کی کوئی سیاسی یا غیر سیاسی مجبوری ہو سکتی ہے مگر دل میں برا سب سمجھتے ہیں۔
مسلم لیگ نون اور میاں نواز شریف کو جارحانہ رویہ کیوں اختیار کرنا پڑا ؟ یہ جماعت تو مزاحمت کی عادی ہی نہیں‘ پھر یہ دن کیسے آئے ؟ کیا یہ سیاسی گھٹن اور بے جا مداخلت کا نتیجہ ہے؟ ایسا ممکن ہو سکتا ہے ورنہ نون لیگ تو تابعداری کی عادی ہے۔ توڑ پھوڑ، جلاؤگھیراؤ اور دھرنے اس کی گھٹی میں ہی نہیں۔رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی اورشہباز شریف کی گرفتاریوں کے وقت کیا ہوا ؟ جس کے منہ می ںجو بات آئی اس نے کہہ دی،سننے والوں نے سنی اور اَن سنی کردی۔مذہبی سیاسی جماعتیں توآج تک ''سب سے‘‘سلام دعا پر یقین رکھتی تھیں‘ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ وہ سب انکاری ہو چکیں ؟ یقین مانیں، یہ مسئلہ صرف ایک دو سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں‘ یہی صورتحال ہر جگہ ہے۔ملک کے بڑے بزنس مین سے لے کر عام تاجر تک‘ کوئی بھی کسی ناجائز شرط کو ماننے کو تیار نہیں۔ سرکاری ملازمین اپنی بدحالی کا رونا شاہراہ دستور پر روتے رہتے ہیں۔ لیڈیز ہیلتھ ورکرز اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سراپا احتجاج رہتی ہیں۔آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے کیس کو ہی لے لیں‘ ایک چھوٹی سی غلطی نے پوری پولیس کو احتجاجاً رخصت پر جانے پر مجبور کر دیا تھا۔یہ احتجاج تھا ایک سرکاری محکمے کا دوسرے کے خلاف۔ یہ جو بھی تھا‘ ہماری اس سے آنکھیں کھل جانا چاہئیں۔
بھگت سنگھ نے ایک صدی قبل کہا تھا ''آزادی کا سپنا جو میں نے دیکھا ہے‘ اس میں کوئی کسی کا غلا م نہیں ہوگا۔ہوا، پانی،فصلیں‘سب پر سب کا برابر کا حق ہو گا۔ہر مذہب اورہر ذات کے لوگ ایک ہی آسمان کے نیچے سانس لیں گے۔کسی کو کسی پر بالادستی نہیں ہوگی۔ وہی ہو گی صحیح معنوں میں آزادی‘‘۔ کیا آج آزادی کے تہتر سال بعدہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم مکمل آزاد ہیں ؟ کیا بالا دستی کا زخم آج بھی ہرا نہیں ہے ؟ سب صاحبانِ اقتدار جان لیں کہ وقت بدل چکا۔ اب سوچوں پر پہرے بیٹھائے جا سکتے ہیں نہ لوگوں کی آزادی کو روندا جاسکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے ملک سے مایوسی کے پہرے اٹھا دیں کیونکہ قوم کے اجتماعی شعور پر اُگی ناامیدی کی فصل میدانِ جنگ کی طرح ہوتی ہے کہ جہاں پیڑ اکھڑ جاتے ہیں اور گھاس جل جاتی ہے، پتھر لہو سے سرخ ہو جاتے ہیں اور زمین میں جسم بوئے جاتے ہیں۔ قدرت کا قانون ہے جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے۔ جنگ ابھی جاری ہے‘ دو، دو قدم پیچھے ہٹنے میں ہی سب کی خیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں