سیاست اور منشور

گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران مخالفین کی جانب سے کیا کیا الزام تراشی نہیں کی گئی۔ بولنے والو ں کو ندامت ہوئی نہ سننے والوں کو کوئی خیال آیا۔ اس انتخابی مہم نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سیاسی مخالفین کو ایسے ایسے القابات سے نوازا گیا کہ خدا کی پناہ! شاید ہی کوئی لفظ‘ جو بدزبانی کے زمرے میں آتا ہو‘ نہ بولا گیا ہو۔ شاید ہی کوئی الزام رہ گیا ہو جو مخالفین کے کندھوں پر لادنے سے رہ گیا ہو۔
کیا ہمارے سیاستدان نہیں جانتے کہ بدزبانی کتنا بڑا عیب ہے۔ یہ آدمی کے ہر کمال کو زوال، نیکی کو بدی اور اچھائی کو برائی میں بدل دیتی ہے مگر پھر آواز آتی ہے اقتدار کے حریصوں کو کیا معلوم؟ کارنر میٹنگ ہو یا بڑا جلسہ‘ حکومت نے اپوزیشن اور اپوزیشن نے حکومت کو رگیدنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑے سے بڑا لیڈر چھوٹی سے چھوٹی بات کر رہا تھا اور چھوٹے سے چھوٹا رہنما بڑے سے بڑا الزام لگاتے نہ گھبراتا تھا۔ کسی نے اپنا مرتبہ دیکھا‘ نہ عزت، مخالف کا قد دیکھا‘ نہ جنس۔ دونوں اطراف سے الزامات کے تیر چلے اور دریدہ دہنی کی برسات ہوئی۔ کہیں غداری کے فتوے دیے گئے تو کہیں ملک دشمنی کا الزام لگایاگیا۔ کوئی مودی کا یار ٹھہرا تو کوئی امریکا نواز۔ الیکشن کمیشن نے ہی روک لگائی نہ کوئی ضابطہ اخلاق آڑے آیا۔ اہل سیاست سے کوئی تو پوچھے‘ کیا مہذب معاشروں میں الیکشن مہم ایسی ہوتی ہے؟ کیا بدتہذیبی اور گالی تعلیم یافتہ قوموں کی زبان ہے؟ کسی پر ذاتی حملے کرنا کہاں سے درست عمل ہے؟ یہ کہاں کی سیاست ہے کہ میرا مخالف برا ہے‘ اسے ووٹ مت دو، میں اچھا اور شریف انسان ہوں‘ مجھے ضرور ووٹ ڈالو۔ کیا الیکشن مخالفین کی برائیاں اور کمزوریاں عیاں کرنے کا نام ہے؟ کیا صرف اپنی خوبیاں بیان کرکے انتخاب نہیں لڑا جا سکتا؟ اگر لڑا جا سکتا ہے تو اس نیک کام میں دیر کیوں؟ کوئی تو ہو جو پہل کرے، کوئی تو ہو جو سوچوں پر پڑی گرد صاف کرے، کوئی تو ہو جو زبان کو شہد سے تر کر دے، اپنی بھی اور اپنے مخالفین کی بھی۔ اگر ایسا ممکن ہو سکے تو عوام کے لیے آسانی ہو جائے گی۔ دن‘ دن نظر آئے گا اور رات‘ رات۔ بہار میں پھول مہکیں گے اور خزاں میں بکھرے پتے دکھائی دیں گے۔ کوئی سراب، کوئی الزام، کوئی بدکلامی عوام کے ذہن کو بدل نہیں پائے گی۔
گلگت‘ بلتستان الیکشن ہو چکا‘ ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے الیکشن کا رزلٹ بھی سامنے آ چکا ہو‘ مگر تینوں بڑی جماعتوں کے لیڈروں کی درجنوں تقریریں آج بھی کانوں میں گونج رہی ہیں۔ مجال ہے کسی نے اپنی پارٹی منشور بارے ایک بھی لفظ بولا ہو۔ وزیراعظم ہو ں یا مریم نواز، بلاول بھٹو ہوں یا علی امین گنڈا پور‘ کسی نے بھی گلگت بلتستان کے مسائل پر بات نہیں کی۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ وہاں آج بھی بچے دو دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جاتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بڑی سڑکوں کے علاوہ سارے روڈ کچے ہیں۔ دس اضلاع میں سے صرف پانچ میں ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں۔ بچیوں کے لیے الگ سکول اور کالجز کی شدید کمی ہے۔ کوئی میڈیکل کالج ہے نہ انجینئرنگ یونیورسٹی۔ صاف پانی میسر ہے نہ آبادی کے لحاظ سے بنیادی حفظان صحت کے مراکز۔ 3G اور 4G تو کجا‘ آدھے سے زیادہ گلگت‘ بلتستان میں موبائل سگنلز ہی نہیں آتے۔ رابطہ پلوں کا مسئلہ کتنا گمبھیر ہے اور مہنگائی کتنی بے قابو۔ گندم اور چینی باقی ملک کی طرح جتنی نایاب ہے اتنی ہی مہنگی۔ صنعتیں ہیں نہ روزگار کے مواقع۔ ATA کا قانون عام آدمی کو کیسا لگتا ہے؟ نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر صوبائی خود مختاری‘ صرف انتظامی نہیں آئینی بھی۔کاش! تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اس پر بھی تھوڑا کام کر لیتیں تو انہیں الیکشن مہم میں طعنہ زنی، دشنام تراشی اور گالم گلوچ کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ کوئی منشور ہوتا تو عوام بھی خوش ہوتے اور ہمارے کانوں کو بھی برا نہ لگتا۔
ویسے تو پورے برصغیر میں الیکشن ایسے ہی دنگل کا منظر پیش کرتا ہے مگر یہ کوئی قابلِ تقلید عمل نہیں۔ اگر فالو کرنا ہے تو مغرب کے انتخابات کو دیکھیں۔ جہاں سب کچھ ہوتا ہے‘ سوائے الزام و گالی کے۔ الیکشن ایشوز پر لڑا جاتا ہے نہ کہ ذاتیات پر۔ عوامی ترجیحات دیکھی جاتی ہیں نہ کہ سیاسی۔ زیادہ دور مت جائیں‘ ابھی امریکا میں الیکشن ہوا ہے‘ اس کی انتخابی مہم کا جائز ہ لے لیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ دونوں پارٹیوں نے امریکا کے عوامی مسائل پر اپنا اپنا منشور پیش کیا۔ ٹی وی پر مباحثے ہوئے اور ریلیوں سے خطاب کیا گیا۔ پولنگ ڈے سے پہلے پورے امریکا کو پتا تھا کہ ہمارے مسائل کیا ہیں اور کس جماعت نے ان مسائل کا کیا حل پیش کیا ہے۔ کورونا وائرس پر ٹرمپ کیا کہتا ہے اور جوبائیڈن کی کیا رائے ہے۔ معیشت اور بے روزگاری پر ٹرمپ اور جوبائیڈن کا کیا لائحہ عمل ہو گا۔ اوباما کئیر بل اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ٹرمپ کی پالیسی کیا ہوگی اور جوبائیڈن کی کیا۔ سپریم کورٹ کے مسئلے پر ٹرمپ کیا کرے گا اور جوبائیڈن کیا۔ ہاں البتہ! ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ مزاج کی وجہ سے دونوں امیدواروں میں تھوڑی تلخی بھی ہوئی مگر اس طرح زہر فشانی نہیں ہوئی جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ الزامات وہاں بھی لگے مگر وہ جن میں کچھ حقیقت تھی‘ بے سر و پا نہیں‘ اور نہ ہی اتنے زور و شدت سے‘ جو ہمارا خاصہ ہے۔ چلیں امریکا کو چھوڑیں، برطانیہ کے گزشتہ انتخابات کو لے لیں۔ ایک نکاتی ایجنڈا تھا، بریگزٹ یا نو بریگزیٹ۔ جھوٹے سچے الزامات لگے‘ نہ اخلاق سے عاری زبان استعمال کی گئی۔ بورس جانسن اپنے ایجنڈے پر جیت گیا اور مخالف امیدوار نے ہار مان لی۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں چار بار قومی سطح پر الیکشن ہوئے۔ 2002ء کا الیکشن پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تھا۔ عوامی ایشوز زیرِ بحث تھے نہ علاقائی۔ 2008ء کا انتخاب بھی ویسا ہی ہوتا اگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہ کر دی جاتیں۔ البتہ! 2013 کا سیاسی دنگل عوامی مسائل کا محور تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ لوڈشیڈنگ اور بدامنی اتنی بڑھ چکی تھی کہ سیاسی جماعتیں چاہ کر بھی صرفِ نظر نہ کر سکیں جبکہ 2018ء میں تحریک انصاف نے احتساب کا نعرہ لگایا اور نون لیگ لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کا صلہ چاہتی تھی۔ یوں کامیابی تحریک انصاف کے حصے میں آئی۔ افسوس! یہ روایت آگے نہ بڑھ سکی۔ آپ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی ویب سائٹس پر چلے جائیں تو آپ کو ڈھونڈنے سے بھی گلگت‘ بلتستان الیکشن کا منشور نہیں ملے گا۔ یہ کہنے کو پانچواں صوبہ ہے مگر اتنی ناانصافی؟ یہ علاقہ سی پیک کا چہرہ ہے مگر اتنی لاپروائی؟ آپ خود فیصلہ کریں! کیا اس کے بعد یہ جماعتیں قومی پارٹیاں کہلانے کے لائق ہیں؟ 
1834ء میں سیاست کی تاریخ کا پہلا انتخابی منشور پیش کرنے والے سابق برطانوی وزیراعظم سر روبرٹ پیل (Robert Peel) نے کہا تھا کہ آئین عوام اور ریاست کے بیچ سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے جبکہ انتخابی منشور ووٹر اور پارٹی کے درمیان اخلاقی کنٹریکٹ۔ منشور کی اہمیت کسی طور آئین سے کم نہیں ہوتی۔مجھے یہاں ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی ایک بات یاد آ رہی ہے، پیپلز پارٹی کے منشور کو مرتب کرنے میں تاخیر ہو رہی تھی کہ ایک دن میٹنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو قدرے ناراضی سے بولے ''یہ کام ہمارے لیے اتنا اہم ہے جتنا کہ مارشل لاء کا خاتمہ، منشور کے بغیر الیکشن میں جانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی لباس کے بغیر بازار کا رخ کر لے‘‘۔ تحریک انصاف اور نون لیگ کو تو چھوڑیں‘ کیا بلاول بھٹو بھی اپنے نانا کا کہا بھول گئے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں