کورونا سے بچاؤ کی آخری صورت

یہ ان دنوں کی بات ہے جب دنیا کا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے روزبروز بڑھ رہا تھااور انسانوں کو گرم موسم سے وحشت ہونے لگی تھی۔ خود کو پُر سکون رکھنے کے لیے دنیا بھر کے امیر لوگ ٹھنڈے مقامات کو اپنا مسکن بنا رہے تھے ۔آگ برساتے شہروں میں مزدور کام کرتے اور دولت مند سرد علاقوں میں قدرت کے حسن سے لطف اندوز ہوتے۔ یہ صورتحال اقوام عالم کو مسلسل ہیجان اور اضطراب میں مبتلا کئے ہوئے تھی ۔ پھرایک دن آیا جب ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی ٹھانی ۔ ساری دنیا کے سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ آخر کیسے درجہ حرارت کو کم کیا جائے تاکہ دنیا ایک بارپھر رہنے کے قابل ہو سکے ۔ یہ بہت کٹھن کام تھا جو سائنسدانوں نے اپنے ذمے لیا تھا۔بالآخر سائنسدانوں نے دنیا کوبچانے کیلئے ایک رسک لینے کا پلان بنایا اور اپنے کام میں جت گئے ۔ ایک سائنسدان جس کا نام وِلفرڈ تھا۔ وہ دنیا کا مشہور ترین بزنس مین تھا اس نے یہاں بھی ایک بڑے کاروبارکی منصوبہ بندی کی اور اس کی کامیابی کیلئے دن رات ایک کر دی ۔ وِلفرڈنے سوچا اگر سائنسدان ناکام ہوگئے تو پھر کیا ہوگا ؟جو جینے کی قیمت ادا کرسکتا ہے ‘ کیا اسے بھی مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا ؟ غریب تو مرے گا ہی مگر امیر کیوں بے موت مارا جائے؟بس پھر کیا تھا ‘ وِلفرڈ نے آگ کی ٹرین بنا نا شروع کردی ۔ جس میں 1001 ڈبے تھے۔ فرسٹ کلاس میں دنیا کے ارب پتی لوگوں کیلئے آسائشوں کا اہتمام کیاگیا تھا۔ سیکنڈ کلاس کروڑ پتیوں کا مسکن تھی اور تھرڈ کلاس میں ٹرین کا سٹاف ۔آخر میں کچھ ڈبے ایسے تھے جو تیسرے درجے کے ملازمین کیلئے رکھے گئے تھے ۔ ریسٹورنٹس ‘ ہسپتال ‘ سکول اور کلب سمیت دنیا کی ہر خوشی اس ٹرین میں میسرتھی ۔دیکھتے ہی دیکھتے اس ٹرین کا چرچا دنیا بھر میں ہونے لگا ۔ ہر رنگ ‘ ہر نسل اور ہر ملک کے ارب پتیوں نے اپنے اور اپنی فیملی کیلئے ایڈوانس بکنگ کروانا شروع کردی۔ حیرت یہ تھی کہ دنیا کا ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ سفر کرنے کیلئے تیار تھا ۔ امریکی کو روسی سے کوئی مسئلہ نہ تھا‘ عربی کو ایرانی‘ شمالی کورین کو جنوبی کورین ‘ترکی کو اسرائیلی ‘ ہندوستانی کو پاکستانی‘فرانسیسی کو چینی اور آسٹریلوی کو برطانوی کے ساتھ رہنے میں کوئی عار نہ تھی ۔ ٹرین میں بیٹھنے کا صرف ایک ہی معیار تھا اور وہ تھا دولت ۔ جس کے پاس جتنا پیسہ‘ وہ اتنی آسائشوں تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔
دن راتوں میں اور راتیں دنوں میں بدلتی رہیں اور آخر وہ وقت آگیا جب دنیاکا درجہ حرارت کم کرنے والے سائنسدان سب کچھ الٹا کر بیٹھے ۔ اس ہولناک خبر کے بعد ساری دنیا کے انسان سکتے میں چلے گئے ۔ امیروں نے اپنے اپنے ٹکٹ اٹھائے اور ٹرین میں سوار ہو گئے جبکہ مڈل کلا س اور غریب طبقہ برفیلے طوفانوں کی زد میں آگیا ۔ چند دنوں کے اندر دنیا کا درجہ حرارت منفی 100 C کراس کرگیا ۔ ٹرین جب چلنے لگی تو غریبوں نے دھاوا بول دیا ۔ کچھ غریب ٹرین پر چڑھ گئے جبکہ کچھ سپاہیو ں کی فائرنگ سے مارے گئے ۔ غریبوں کو آخری ڈبے میں بند کردیا گیا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہونے لگا۔ بچا کھچا اور گندہ کھانا دیا جاتا ۔ سورج کی روشنی اور تازہ ہوا ان پر بند تھی ۔ یوں دن ‘ ہفتے ‘ مہینے اور سال گزرتے گئے ۔ امیر سارا دن عیاشی میں مگن رہتے اور غریب سانس لینے کو ترستے ۔ ایک دن ٹیل کے غریبوں نے بغاوت کر دی اور اعلان کیا کہ ہمارے ساتھ انسانوں والا برتاؤ کیا جائے۔ دنیا ارب پتی لوگوں کی خواہش کی وجہ سے تباہ ہوئی ہے اس میں ہمارا کیا قصور؟ ہمیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے ؟ ہم کیوں حالات کی بے رحم چکی میں پس کر مرر رہے ہیں ؟ ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے ۔ 
یہ نیٹ فلکس کی ویب سیریز ''Snowpiercer‘‘ کی کہانی ہے ۔ اس سیریز میں آگے کیا ہوتا ہے وہ بھی نہایت دلچسپ ہے‘ مگر یہاں تک کی کہانی کو آپ کورونا وائرس اور ویکسین کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ ہونے کیا جا رہا ہے ۔ 
کورونا وائرس دنیا میں کیسے پھیلا؟یقینا یہ ترقی یافتہ ممالک کی لاپروائیوں کا نتیجہ ہے‘ اس میں غریب ملکو ں کا زیادہ حصہ نہیں ۔ اب جبکہ کورونا کی ویکسین آنے والی ہے تو اس کا سب سے پہلے فائدہ صرف اورصرف امیر ممالک کو ہو گا ۔ جو ویکسین بنائے گا وہاں کے لوگ پہلے صحت یاب ہوں گے اور بعد میں وہ جو اسے خرید سکیں گے ۔ تیسری دنیا کے ممالک کی باری کب آئے گی کوئی نہیں جانتا ۔ شاید سال یا دو سال اور انتظار کرنا پڑے ۔ خوش آئندبات یہ ہے کہ امریکی اور جرمن کمپنیPfizer/BioNTechنے کورونا وائرس کی ایسی ویکسین تیا ر کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کے ٹرائل کے دوران 90 فیصدمریض صحت یاب ہوئے ہیں۔اس کمپنی کا کہنا ہے کہ ہم 2021ء کے اختتام تک ویکسین کی 1.3 ارب ڈوزز تیار کر لیں گے اور اس کی متوقع قیمت 20 ڈالرہو گی ۔ اس ویکسین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے سٹوریج کیلئے جو درجہ حرارت درکار ہے وہ منفی 70 C سے منفی 80 Cکے درمیان ہے۔ یوں لگتا ہے اس ویکسین کو صرف مال دارممالک ہی خرید سکیں گے‘ کم آمدنی والے ممالک کے لیے اسے سر ِ دست خریدنا ممکن نہ ہوگا ۔ ایک اور امریکی کمپنی Modernaنے بھی کورونا ویکسین کی کامیابی کا اعلان کیا ہے ۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی کامیابی کا تناسب 94.5 فیصد ہے جبکہ اس میں دو خصوصیات ہیں جو پہلی ویکسین میں نہیں تھیں ‘ ایک یہ کہ ویکسین نوجوانوں کے ساتھ بوڑھوں پر بھی برابر اثر کر تی ہے دوسرا ‘یہ عام فریج میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔اس ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 35 ڈالر سے زائد توقع کی جارہی ہے۔ Moderna کمپنی کا اندازہ ہے کہ وہ اس سال کے اختتام تک 20 ملین ڈوزز تیار کرلیں گے جو صرف امریکی عوام کے لیے ہو گی ‘ اسے کسی اور ملک کو نہیں دیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق 2021 ء کے ختم ہونے تک ایک ارب ڈوزز کی تیاری ممکن ہو گی اور اس میں سے مخصوص تعداد دوسرے ممالک کو بھی فروخت کی جائے گی ۔اسی طرح انڈیا کے Serum Institute نے اعلان کیا ہے کہ کورونا ویکسین کی کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں اور اس ویکسین کی آدھی تعداد کو صرف بھارت میں فروخت کیا جائے گا ۔ برازیل اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی مشترکہ ویکسین بھی ٹرائل کے آخری مراحل میں ہے۔ اگر کامیابی ملتی ہے تو اسے بھی پہلے مقامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جائے گا۔ 
امریکہ کے معتبر ترین ریسرچ سنٹر Duke University in North Carolina کے مطابق 6.4 ارب کورونا ویکسین کی ڈوزز فروخت ہوچکی ہیں جبکہ 3.2 ارب ڈوزز کی فروخت کے لیے بات چیت ہو رہی ہے ۔ترقی یافتہ ممالک نے ویکسین کے حصول کیلئے خزانوں کا منہ کھول رکھا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان نے چند روز قبل کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے 15 کروڑ ڈالر کی منظوری دی ہے ۔ کون جانے کب خریداری ہوگی اور کب ڈیلیوری ؟ ایک سال تک ویکسین کی پہلی کھیپ پاکستان آبھی گئی تو پھر وہی امیر اور غریب ‘ طاقتور اور کمزور کا کھیل شروع ہو جائے گا ۔ جس کے پاس پیسہ ہوگا ویکسین لگ جائے گی اور جو غریب ہو گا وہ سرکاری ہسپتالوں میں پڑا اپنی باری کے انتظار میں زندگی اور موت کی جنگ لڑے گا۔ پاکستانی یاد رکھیں! فوری بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے اوروہ ہے احتیاط ‘ احتیاط اوراحتیاط ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں