آر یا پار ؟

ان دنوں پاکستانیوں کی حالت لنڈے کے گودام کی طرح ہو چکی ‘ کچھ کے حالات اچھے تو زیادہ کا حال بدحال ۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر اور شب و روز مضطرب ۔ اپوزیشن حکومت کی کشتی میں سوراخ کرنے میں مگن اور حکومت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ۔ رہے عوام تو عوام کا کیا ؟ بھلاکھیل میں بارہویں کھلاڑی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے ؟ 
واقفانِ حال نے خبر دی ہے کہ وزیراعظم پریشان ہیں ‘ اس لیے نہیں کہ حکومت جانے کا خطرہ منڈلا رہاہے بلکہ اس لیے کہ کورونا پھیل رہاہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ سب کچھ عوام کی منشا سے ہو رہا ہے ۔عوام احتیاط کا دامن چھوڑ چکے ہیں ۔ اب وہ خود چاہتے ہیں‘ آبیل مجھے مار۔ شہرِ اقتدار کی جانکاری رکھنے والے کہتے ہیں کہ وزیراعظم پریشان ہیں ‘ اس لیے نہیں کہ پی ڈی ایم کی تحریک کو عوامی پذیرائی مل رہی ہے بلکہ اس لیے کہ حکومت کے جگری دوست قدرے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ڈھائی سال کی حکومت ایک بار آئینے کے سامنے ضرور کھڑی ہو ‘ اپنا چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ پھر جہاں رفو کی ضرورت ہو گی رفو گر حاضر ہو جائیں گے اور جہاں نئی عمارت درکار ہو گی اس مشن پر کام شروع کر دیا جائے گا۔ میرا احساس ہے کہ اب حکومت نے کچھ عرصے کے لیے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے ۔ اپوزیشن کو کیسے کنٹرول کرنا ہے اور اتحادیوں کی دلجوئی کیسے کرنی ہے ‘عوام کے مسائل کیسے حل کرنے ہیں اور حکومت کی مشکلات پر بند کیسے باندھنا ہے ؟ یہ حکومت جانے یا حکومت کا سربراہ ؟ باقی کسی کو کیا ؟
مولانا رومی کا کہنا ہے کہ جب جھیل کا سار ا پانی گدلا ہو جاتا ہے تو صاف پانی میں رہنے والی مچھلیاں دریا کا رخ کر جاتی ہیں۔حکومت کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے ۔کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو سیاست کی جھیل جتنی گدلی ہو چکی اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔ پی ڈی ایم کے قائدین بالخصوص نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن تو آخری حدوں کو چھو چکے ۔ ہر طرف اتنا شورشرابا ہے کہ سیاست کی جھیل میں موجود غیر متعلقہ مچھلیاں اب دریا کا رخ کررہی ہیں ۔ سیاست اور اہلِ سیاست کے لیے اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟حا لات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم دو قدم پیچھے آئے ہیں ‘ اب پی ڈی ایم پر لازم ہے کہ وہ بھی دو قدم پیچھے آئے تاکہ وزیراعظم ایک قدم اور پیچھے آسکیں ۔ ڈائیلاگ کا دروازہ کھلے اور سیاسی مسائل سیاست دان حل کریں ۔یہی سیاست ہے اور یہی سیاست کاحسن‘ مگر افسوس ایسا ہونہ سکا ۔ وزیراعظم نے ڈائیلاگ کی بات کی توجواب میں مولانا ٖفضل الرحمن نے نامناسب رویہ اختیار کیا ۔ وزیراعظم نے کورونا نہ پھیلانے کی التجا کی تو مریم نواز نے خوب مذاق اڑایا ۔یہی نہیں ‘ ایک حکومتی ذمہ دارنے تو لند ن بھی فون ملایا مگر بے سود ۔شنوائی ہوئی نہ کوئی حل نکل سکا ۔ حکومتی بھرم بھی گیا اور بات بھی نہ بن سکی ۔ سانپ بھی بچ گیا اور لاٹھی بھی ٹوٹ گئی ۔ 
حکومت اور اپوزیشن دونوں نیشنل ڈائیلاگ کی باتیں کررہے ہیں ۔ دیر آید درست آید ‘ اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ ٹیبل تیار ہے مگر پی ڈی ایم ضدکی بانسری بجارہی ہے ۔ ڈائیلاگ ہو گا مگر حکومت سے نہیں ۔ پھر کس سے ہوگا ؟ اُن سے جن پر آپ کو ڈھیروں اعتراٖضات ہیں ؟ اُن سے جن کے سیاسی رول کو آپ مانتے ہی نہیں ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ مذاکرات کا حصہ ضرور ہوں مگر اصل فریق حکومت اور اپوزیشن ہی ہوں تو پارلیمان کی عزت ہے ورنہ مزید جگ ہنسائی مقدر بنے گی ۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے اس سے اچھا موقع پہلے نہیں آیا کہ سیاسی مسائل سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اللہ اللہ کر کے اگر یہ موقع نصیب ہوا ہے تو اسے ضائع کرنا بدقسمتی ہوگی ۔ حکومت کی بھی اور اپوزیشن کی بھی۔ حکومت کو دہرا غم ہے‘ مگر اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کیا ہے ؟ تصادم بڑھاتو نقصان ہوگا وہ بھی حکومت کا ۔ اپوزیشن کا کیا ہے ‘ جیتی تو فاتح اگر ہاری تو لاکھوں عذر۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن فوری ڈائیلاگ کی طرف کیوں نہیں آرہی؟پی ڈی ایم اجلاسوں میں کیا چل رہاہے کہ وہ کسی حتمی نتیجے کی طرف نہیں بڑھ رہے ؟ استعفوں پر پالیسی واضح کیوں نہیں ؟مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کیا اختلافات ہیں کہ روز بیٹھنا پڑرہاہے ؟ جواب بہت سیدھا ہے‘ مسئلہ مریم اور بلاول کا نہیں ‘ نوازشریف اور آصف زرداری کا ہے ۔ مریم اور بلاول ایک سوچ رکھتے ہیں تو نواز شریف اور آصف زرداری دوسری ۔ بلاول بھٹو ذاتی طور پر استعفوں کے حق میں ہیں مگر ان کے والد بار بار کہتے ہیں: احتیاط ‘ احتیاط ۔ مریم نواز پی ڈی ایم کو سیاسی سے بڑھ کر انتخابی اتحاد بنانا چاہتی ہیں‘ مگر اُن کے والد کہتے ہیں:احتیاط ‘ احتیاط۔بلاول بھٹو سندھ حکومت قربان کرنے کے لیے راضی ہیں مگر آصف زرداری نواز شریف پر اعتبار کرنے کو فی الحال تیار نہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو 25 سے 30نشستیں دینے پر مریم نواز کواعتراض نہیں مگر نواز شریف کو ہے اور شہباز شریف کو بھی ۔ تحریک انصاف کے بعد پیپلزپارٹی کا سسٹم میں سب سے زیادہ سٹیک ہے ۔ سندھ سرکار ہی نہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی ان کا ہے اور آئندہ سینیٹ الیکشن میں دس بارہ سیٹیں ملنے کا امکان اپنی جگہ ۔ پیپلزپارٹی گارنٹی چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت کے جانے کے بعد ان کے ساتھ ہاتھ نہیں ہوگا ۔ وہ سندھ حکومت بھی چھوڑیں اور اگلے الیکشن میں فائدہ بھی کوئی نہ ہو ۔ بات یہاں پراٹکی ہے کہ گارنٹی کون دے گا ؟مولانا فضل الرحمن یا کوئی اور ؟اب یہ حقیقت سب پرعیاں ہوچکی کہ جب تک گارنٹی کا معاملہ حل نہیں ہوتا پیپلزپارٹی استعفوں کا جھولا نہیں جھولے گی ۔ یہی ایک وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کا استعفوں پر لا ئحہ عمل مبہم ہے‘ ورنہ احتجاج سب کرنا چاہتے ہیں اور لانگ مارچ پر بھی کوئی معترض نہیں ۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ جلسے ‘ جلوس ‘ ریلیاں ‘ لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومتیں کمزور ہوتی ہیں ختم نہیں ۔ کمزور بھی اس لیے کہ ملکی معیشت کا جنازہ نکل جاتا ہے اور معیشت اور سیاست بہن بھائی کی طرح ہوتے ہیں ۔ ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان ‘ ایک کا دکھ دوسرے کا دکھ ۔سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ پی ڈی ایم کا اصل امتحان جنوری میں ہوگا ‘جب لانگ مارچ کیا جائے گا ‘ دھرنے کی ترتیب بنائی جائے گی اور سب سے بڑھ کر ساری اسمبلیوں سے استعفے ۔ جس دن استعفے سپیکر چیمبر میں پہنچیں گے وہ دن پی ڈی ایم کی جیت کا پہلادن ہوگا اور حکومت کی ہار کا ۔استعفے آئے تو حکومت کی چولیں ہل جائیں گی کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات آسان نہیں ہوتے ۔ ایک لمحے کے لیے فرض کریں اگر ضمنی الیکشن ہوئے بھی تو ملکی مسائل کا کیا ہوگا ؟ حکومتی توجہ معیشت پر ہوگی یاانتخابات پر ؟ اور اپوزیشن ‘ کیا اپوزیشن حکومت کو یہ سب آرام سے کرنے دے گی ؟
اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ آتے ہی حکومت نے شیخ رشید کو وزیرداخلہ بنا دیا ہے۔ حکومت نے دوسرا پلان یہ بنایا ہے کہ کسی بھی طرح پیپلزپارٹی کو استعفوں سے دور رکھا جائے۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی لڑائی ہوجائے یا پیپلزپارٹی کو کشمیر اور سینیٹ الیکشن میں اتحاد کی پیش کش کر کے رام کر لیا جائے ۔ وزیراعظم عمران خان دوسرے آپشن پر راضی نہیں ہورہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ہو یا پار آصف زرداری کے ہوتے ہوئے پیپلزپارٹی سے اتحاد نہیں ہو سکتا البتہ بلاول بھٹو کو وہ سارے زخم ضروریاد کروائے جائیں جو میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو دیے تھے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں