جمہوریت کو وائرس سے خطرہ ہے؟

مئی کا مہینہ تھا اور 326 قبل مسیح کا سال۔ دریائے جہلم کے ایک طرف راجہ پورس کا لشکر تھااور دوسرے کنارے پر سکندر اعظم کی فوج۔ سکندر اعظم نے اپنا ایک نمائندہ پورس کے دربار میں بھیجا اور صلح کی غرض سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پورس کا کہنا تھا : میں ملاقات ضرور کروں گا لیکن یہ ملاقات میدان جنگ میں ہوگی۔ پورس کا جواب سن کر سکندر اعظم نے قہقہہ لگایا اور جنگ کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ جلد ہی وہ دن آگیا جب دونوں کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ یہ جنگ لگ بھگ آٹھ گھنٹے تک جاری رہی۔راجہ پورس اور اس کی فوج بہادری سے لڑی مگر سکندر کے لشکر کی عددی برتری نے پانسہ پلٹ دیا۔ راجہ پورس کے حصے میں ہار آئی جبکہ سکندر‘ مقدر کا بھی سکندر ٹھہرا۔ علاؤالدین خلجی نے 1303ء میں چتوڑ کا محاصرہ کیا۔ جنگ سے پہلے علاؤالدین خلجی صلح کے لیے راجہ رتن سنگھ سے ملنے قلعہ کے اندر گیا مگر بات نہ بنی۔ آخر جنگ ہوئی اور علاؤالدین خلجی نے چتوڑگڑھ پر قبضہ کر لیا۔ 1761ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی ہوئی۔ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹہ افواج ایک دوسرے کو کاٹنے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ ابدالی نے قاصد کے ہاتھ سدا شو راؤ کو پیغام بھیجا: اگر مرہٹہ فوج دہلی کے راستے سے ہٹ جائے تو جان بخشی ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ سے پہلے صلح کا سندیسہ تھا مگر مرہٹوں نے لڑنے کو ترجیح دی۔ پھرجنگ ہوئی،مرہٹے ہار گئے اور ابدالی جیت گیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جنگ سے پہلے ہمیشہ طاقتور صلح کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے، کمزور میں اتنی طاقت اور صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ امن کے لیے کوشش کرے۔ صلح ہمیشہ بہادر لوگ کرتے ہیں‘ کمزور نہیں۔وطن پرست کرتے ہیں‘ انا پرست نہیں۔کمزور حکمران سرنڈر کرسکتا ہے‘ لڑائی کو گلے لگا سکتا ہے مگر صلح کی ہمت نہیں کر تا۔کمزور کی بھی اَنا ہوتی ہے۔ نجانے کیوں محترم وزیراعظم اتنی سی بات سمجھنے میں دیر لگا رہے ہیں۔
پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف ترکش کا آخری تیر چلا دیا۔ وزیراعظم سے کہا: استعفیٰ دو ورنہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا اور ہم اپنے استعفے ساتھ لائیں گے۔ حکومت کا فوری جواب آیا:بسم اللہ کل کے آتے آج آئیں، استعفیٰ آئے گا نہ سینیٹ الیکشن رکے گا۔ میرے نزدیک صورت حال اتنی سادہ نہیں جتنی حکومت سمجھ رہی ہے۔ اپوزیشن کا حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ انارکی کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی طور حکومت کے لیے نیک شگون نہیں۔ لاہور جلسہ کیسا تھا ؟ لوگ کتنے آئے ؟ اپوزیشن جیتی یا ہاری ؟ اس پر بہت بحث ہوچکی۔اس جلسے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ حکومت خود فریبی کا شکار ہو گئی ہے۔ اسے یقین ہوچلا ہے کہ عوام اپوزیشن کے بیانیے کو خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ لاہور مسلم لیگ نون کا نہیں ہوا تو پورا ملک ان کے ساتھ کیسے چل سکتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو اقتدار کے محافظوں کے لیے زہر سے کم نہیں۔ حکومت میں موجودہ سنجیدہ حلقوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر صرف دس ہزار لوگوں نے بھی دارالحکومت کا رخ کر لیا تو حکومت کو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ یہی نہیں! اگر وہ شاہراہِ دستور تک پہنچ گئے تو لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ گمبھیر ہوجائے گا۔ معیشت، سیاست اور قانون مفلوج ہو کررہ جائیں گے جس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔ ابھرتی ہوئی سٹاک ایکسچینج پاتال میں گر پڑے گی۔ بیرونی سرمایہ کار بھاگ جائیں گے۔ معیشت کی دکان بند اوربے روزگاری کی چادر دراز ہوجائے گی۔ سفارت کار گھروں پر بیٹھ جائیں گے۔ نظام انصاف کو تالا لگ جائے گا۔ ساری وفاقی وزارتیں ویران ہوجائیں گی۔ایف اے ٹی ایف میں خطرے کی گھنٹی بج جائے گی۔ عالمی میڈیا پاکستان کی جگ ہنسائی کرے گا۔ آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ ہمارے لیے وارے کا سودا ہوگا؟ اور اوپر سے اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیے تو حکومت کی گاڑی کے دو ٹائر پنکچر ہو جائیں گے، پھرحکمران کیا کریں گے ؟ نجانے کیوں حکومت کے جوشیلے وزیروں کو لگتا ہے کہ استعفے آئے تو ضمنی الیکشن کروا دیں گے۔ کوئی الیکشن کمیشن سے بھی تو پوچھے، اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات محض باتوں سے نہیں ہوتے۔وقت درکار ہوتا ہے، وسائل لگتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں 161، پنجاب اسمبلی میں 178، سندھ اسمبلی میں 99 اور بلوچستان اسمبلی میں22 ممبرز اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں۔کیا کبھی 460 نشستوں پر بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں ؟ اورسب سے بڑھ کر کیا کورونا وائرس کی روزبروز بگڑتی صورت حال حکومت کو ایسا کرنے کی اجازت دے گی ؟
حکمران یاد رکھیں ! جیسے خوشبو کے بغیر پھول، چاندکے بغیر رات اوربارش کے بنا ساون کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ویسے ہی انصاف کے بغیر حاکم اور امن کے بنا حکومت کی کوئی عزت نہیں کرتا۔خدارا! وقت کی نزاکت کو بھانپیں۔ آج آپ کی شاخوں پر پھل لگا ہے تو عوام کو مایوسی کی سوغات مت کھلائیں۔ آپ ملک کے حاکم ہیں، آپ نے عوام کی جان و مال کے تحفظ اور بلارغبت و عناد انصاف کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ جواب دہی آپ سے ہونی ہے۔ آپ طاقتور ہیں، پہل آپ نے کرنی ہے۔ اپوزیشن کبھی آپ کے پاس نہیں آئے گی، آپ خود چل کر ان کے پاس چلے جائیں۔ آپ کی عزت و تکریم بڑھے گی، عوام کی نظر میں بھی اور اپوزیشن کے دل میں بھی۔سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، وقت جوش کا نہیں ہوش کا تقاضا کررہا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کو دلدل کی طرف کھینچ رہی ہے، حکمرانوں کو ضد نہیں تدبر کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انا نہیں معاملہ فہمی کو ہوا دینی ہے۔ افغانستان میں دو مخالف جماعتیں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں آپس میں کیوں نہیں بیٹھ سکتیں ؟ جنوبی افریقہ میں مخالفین اقتدار کی میز پراکٹھے بیٹھ سکتے ہیں تو ہمارے ہاں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں مذاکرات کی میز پر کیوں نہیں بیٹھ سکتیں ؟صلح میں خیر ہے اور لڑائی میں تباہی۔ قرآن پا ک کے پارہ 26 میں سورۃ الحجرات کی آیات نمبر 9 کا ترجمہ ملاحظہ کریں۔''اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ‘‘۔صلح کرانا حضور سیدالانبیاﷺ کی بھی سنت مبارکہ ہے۔ آپﷺ نے صدیوں سے شدید اختلافات کے شکار اوس و خزرج کے قبائل کے مابین صلح کروائی تھی۔ آپﷺ نے سیاسی طور پر میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کیے تھے۔ سیاستدانوں کی صفوں میں مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم عمران خان یقینا ان مذہبی احکامات کو جانتے ہوں گے۔ پی ڈی ایم کے مطالبات بھلے کتنے ہی جائز اور منطقی ہوں انہیں منوانے کا طریقہ کسی طور مناسب نہیں۔ اس کی قانون اجازت دیتا ہے نہ اخلاقیات۔ اپوزیشن جان لے یہ مطالبات ڈائیلاگ سے پورے ہوسکتے ہیں‘ زور زبردستی سے نہیں۔ تصاد م ہوا تو حکومت اور اپوزیشن سے زیادہ عوام کا نقصان ہوگا اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو جمہوریت کی زندگی کو وائرس بھی لگ سکتا ہے، پھر کون ذمہ دار ہو گا؟
ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے جو لانگ مارچ اور استعفوں کا راستہ روک سکتا ہے۔ وزیراعظم دل بڑا کریں اور امن کی شمعیں جلائیں، ذاتی رنجشوں کو بھلا نا ہی ان کے منصب کو زیب دیتاہے۔ بھول جائیں اپوزیشن کے کیاجرائم ہیں، صرف یہ یاد رکھیں عوام کا بھلا کس میں ہے ؟ اب فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے کہ انہیں سکندر اعظم بننا ہے یا راجہ پورس، علاؤ الدین خلجی یا راجہ رتن سنگھ، احمد شاہ ابدالی یا سدا شو راؤ ؟ فیصلہ کریں جیت چاہیے یا ہار ؟ امن چاہیے یا جنگ ؟ لالہ مادھو رام جوہریاد آتے ہیں۔
جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا 
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں