وزیراعظم نے ایسا بیان کیوں دیا؟

بارش کے بغیر ساون گزر جائے تو کیا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ بہار کی آمد کے باوجود پھول نہ کھلیں تو کیا کوئی توضیح بیان کی جا سکتی ہے؟ دن میں اندھیرا چھا جائے اور رات میں اجالا تو کیا کوئی عذر تراشا جا سکتا ہے؟ اگر حکمران عوام کی داد رسی نہ کر سکیں تو کیا کوئی بہانہ گھڑ ا جا سکتا ہے؟ اگر صاحبِ اقتدار وعدوں سے مکر جائیں تو کیا اُسے ''یوٹرن‘‘ کا نام دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اگر ناکامی کی داستانیں گلی گلی‘ قریہ قریہ رقص کرنے لگیں تو کیا چپ کا روزہ طویل کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہر سٹرک، ہر چوک اور ہر چوراہا بدحالی کا رونا روئے تو کیا پھر بھی وعدوں کا خیالی پلاؤ کھایا جا سکتا ہے؟ اگر کھایا جا سکتا ہے توکتنی دیر؟ اگر ہر جواز، ہر بہانہ اور ہر توجیہ پر تکیہ کیا جا سکتا ہے تو کب تک؟ ہر چیز کی ایک میعاد ہوتی ہے مگر نجانے کیوں حکمرانوں کے وعدوں کی مدت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک سال، دو سال اور اب تین سال تمام ہونے کو ہیں مگر وعدے آج بھی پھولوں کی پتیوں پر پڑی شبنم کی مانند ترو تازہ ہیں ۔کوئی تو ہو جو عوام کا دکھڑا سن سکے۔ کوئی تو ہو جو وعدوں کا تاج محل ٹوٹنے سے بچا لے؟ بشیر بدر یاد آتے ہیں ؎
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ دو سال پورے ہونے پر وزیراعظم نے ایک محفل سجائی جس میں حکومت اور تحریک انصاف کے تمام کرتا دھرتا شامل تھے۔ وہاں فیصلہ ہوا کہ آج کے بعد عوام کو بتایا جائے گا کہ حکومت کام کیوں نہیں کر پا رہی؟ مہنگائی قابو سے باہر کیوں ہے؟ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کیوں کی گئی؟ گروتھ ریٹ منفی میں کیوں چلا گیا؟ بیروزگاری کیوں بڑھی اور قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟ چینی، آٹا اور گندم بحران کے پیچھے کون تھا؟ مافیاز حکومتی کنٹرول سے باہر کیوں ہیں؟ بجلی، گیس اور پیٹرول مہنگا کرنا کیوں ضروری ہیں؟ ڈویلپمنٹ پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟ وہ دن اور آج کا دن‘ حکومت ہر ناکامی اور بدانتظامی کا جواز پہلے ڈھونڈھتی ہے اور حل بعد میں! مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا، صوبائی ہو یا وفاقی، قومی ہو یا بین الاقوامی‘ حکومت ہر حال میں بہانہ تلاش کر لیتی ہے تاکہ عوام کو اطمینان کی میٹھی گولی کھلائی جا سکے۔ آپ خود فیصلہ کریں کیا محض جواز پیش کرنے سے حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہو سکتی ہے؟ کیا عوام کی نظروں میں اس کی عزت و تکریم بڑھ سکتی ہے؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ دکھایا گیا تو حکومتی وزرا ایک ایک کرکے بیانات داغنے میں مگن ہو گئے۔ کسی نے کہا کہ ''یہ ڈیٹا مسلم لیگ ن کی حکومت کا ہے اس کا عمران خا ن دور سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ کوئی بولا ''یہ رپورٹ جھوٹ پر مبنی ہے اس کا زمینی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔ یقین مانیں، کسی نے رپورٹ پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ورنہ پہلے صفحے پر ہی ان تیرہ اداروں کا ذکر ہے جن کی بنیاد پر پاکستان کی درجہ بندی میں چار پوائنٹس تنزلی ہوئی ہے۔ 13 میں سے 9 رپورٹس 2020ء میں شائع ہوئیں اور تین کا تعلق 2019 ء سے ہے جبکہ ایک رپورٹ 2018ء کی شائع شدہ ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اپنی اصلاح کا کوئی منصوبہ بناتی‘ اس نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ہی متنازع بنا دیا۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ کیا بہانے تراشنے سے پاکستان میں کرپشن کا دروازہ بند ہو جائے گا؟ کیا ماضی کے حکمرانوں کوموردِ الزام ٹھہرا کر حقیقت کا چہرہ مسخ کیا جا سکے گا؟ درد کو دوا لکھنے سے زخم کی رفوگری ممکن ہو جائے گی؟
ابھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر شورو غل کم نہیں ہوا تھا کہ محترم وزیراعظم نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی بار اعتراف کیا کہ ان کے دورِ حکومت میں گیارہ ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے۔ سا تھ ہی عوام کو یہ بھی بتایا کہ قرضے لینا مجبوری تھی‘ شوق نہیں۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عوام کی لاعلمی دور کرنے کے لیے مزید گویا ہوئے کہ گیارہ ہزار ارب میں سے چھ ہزار ارب قرضوں کی قسطوں میں چلے گئے۔ تین ہزار ارب‘ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوا۔ باقی بچے دوہزار ارب تو ان کا حساب بھی بہت سادہ ہے۔ گزشتہ سال ٹیکس کم اکٹھا ہوا جس کے باعث آٹھ سو ارب قرض لینا پڑا اور باقی بارہ سو ارب احساس پروگرام کے ذریعے عوام میں تقسیم کیے گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ جب وزیراعظم قرضے لینے کی وجوہات بیان کر رہے تھے تو میں حیرت زدہ تھا کہ اگر قرضے انہی کاموں کے لیے ہیں تو مسلم لیگ ن کیسے دعویٰ کر سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں لیے دس ہزار ارب روپے کے قرضوں سے گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی، موٹرویز بنائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی؟ کوئی حکومت سے پوچھے کہ روپے کی بے قدری کس نے کی؟ ٹیکس کس کی وجہ سے کم اکٹھا ہوا ؟ سب سے بڑھ کر‘ کیا آپ کے لیے ہوئے گیارہ ہزار ارب پر سود ادا نہیں ہونا؟ اگر ہونا ہے تو کیا اُسے ادا کرنے کے لیے مزید قرض نہیں لینا پڑے گا؟
حکومت نے چند روز قبل آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ ایک روپے پچانوے پیسے اضافہ کیا تو ساتھ ہی درجنوں ''حیلے بہانے‘‘ بھی پیش کیے گئے۔ وزیر موصوف کا کہنا تھا ''مسلم لیگ ن کی حکومت کی 'بدنیتی‘ تھی کہ بجلی کے مہنگے کارخانے لگائے، درآمدی فیول کا استعمال کیا اور غیر ضروری معاہدے بھی کیے، بجلی کی قیمت میں اضافہ تو نو روپے ہونا تھا مگر ہم نے عوام پر ''رحم‘‘ کھا کر زیادہ اضافہ نہیں کیا‘‘۔ یہی نہیں‘ درجنوں ایسے مسائل ہیں جوحل طلب ہیں مگر ستم یہ کہ حکومت یہاں بھی روایتی جواز پیش کرکے بچ نکلتی ہے ۔ چند مزید مثالیں ملاحظہ کریں:
٭حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا جن ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے بے قابو ہوا، ورنہ حکومت نے تو مہنگائی کم کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
٭ڈالر کی قیمت اس لیے بڑھی کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسے مصنوعی طور پر قابو کیا ہوا تھا۔
٭لاہور میں گندگی بھی مسلم لیگ ن کے معاہدوں کی وجہ سے پھیلی کیونکہ ترکی کی کمپنی کے ساتھ بہت مہنگا معاہدہ کیا گیا تھا۔
٭فارن فنڈنگ تحریکِ انصاف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے حاصل کی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ وہ دو ایسے ممالک کو جانتے ہیں جو پی پی اور ن لیگ کو فنڈنگ کرتے رہے۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ اگر ایسا ہے تو تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں چھ سال سے عدالتوں سے سٹے کیوں لے رہی ہے؟ اورکیا پی ڈی ایم کی جماعتوں کی فنڈنگ تحریک انصاف کی فنڈنگ کا عذر ہو سکتی ہے؟
اب محترم وزیراعظم فرماتے ہیں ''پانچ سال کی حکومت بڑے کام نہیں کر سکتی‘ اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی منصوبے بنانا ہوں گے، چین اگلے بیس سال کی پلاننگ کرتا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پانچ سال کے مختصر منصوبے بنانا پڑتے ہیں‘‘۔ پانچ سال بعد الیکشن جمہوریت کا المیہ ہیں یا حسن؟ یہ ایک طویل بحث ہے جو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں‘ سرِدست یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وزیراعظم نے یہ جواز پیش کیوں کیا؟ کیا وہ اپنی حکومت کی ناکامی کا اعلان کر رہے تھے؟ کیا پاکستان پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا حکومت کا ڈھانچہ بدل کر سیاستدانوں کا کردار محدود کیا جا رہا ہے؟ غور کریں! آخر وزیراعظم نے ایسا بیان کیوں دیا؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں