وزیراعظم نے ایسا بیان کیوں دیا؟…(2)

جیسے جیسے حکومت کے دن گزر رہے ہیں عوام کی ذہن سازی کے لیے نئے نئے طریقے دریافت کیے جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے بہت سے وزیر نئے تھے، انہیں سیکھنے میں وقت لگا اور کچھ تو ابھی بھی سیکھ رہے ہیں، کبھی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے گن گنوائے جاتے ہیں تو کبھی پنجاب کے وزیراعلیٰ کو سب سے اعلیٰ گردانا جاتا ہے۔ وزیراعظم کتنی ہی بار فرما چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ نئے ہیں اور سادہ بھی، تھوڑے شرماتے ہیں اس لیے میڈیا میں آ کر اپنے کارنامے بیان نہیں کرتے، ورنہ انہوں نے جو کام کر دیے ہیں وہ تو شیر شاہ سوری اور رنجیت سنگھ بھی نہیں کر سکے تھے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کے پاس عوامی مسائل کا حل موجود ہو نہ ہو مگر متبادل بہانہ ضرور ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کے پورے ڈھائی سال کو اپنے ذہن میں ریوائنڈ کرکے دیکھ لیں، جب بھی کوئی مسئلہ سر اٹھاتا ہے توکبھی بیورو کریسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے تو کبھی مافیاز کو حکومت سے اوپر حکومت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی سابق حکمرانوں کو منہ زور مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو کبھی نظام کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کسی مسئلے کی جڑ سندھ سرکار ہوتی ہے توکوئی مسئلہ خفیہ ہاتھوں پر ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیوں وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے فیصلوں کا بوجھ خود نہیں اٹھاتیں؟ آخر کیوں ہر مسئلے کا ذمہ دار کوئی اور ہی ہوتا ہے؟ آخر کیوں ہر بات کا بہانہ، عذر اور تاویل پیش کی جاتی ہے؟ آخر کیوں حکومت اپنی لسی کو کھٹا نہیں کہتی؟
اب محترم وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے ''پانچ سال کی حکومت بڑے کام نہیں کر سکتی، اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی منصوبے بنانا ہوں گے، چین اگلے بیس سال کی پلاننگ کرتا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پانچ سال کے مختصر منصوبے بنانا پڑتے ہیں‘‘۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وزیراعظم نے یہ جواز پیش کیوں کیا؟ کیا وہ اپنی حکومت کی ناکامی کا اعلان کر رہے تھے؟ کیا پاکستان پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا حکومت کا ڈھانچہ بدل کر سیاستدانوں کا کردار محدود کیا جا رہا ہے؟
خاطر جمع رکھیں! پاکستان جیسے ممالک میں صرف باتوں سے صدارتی نظام لایا جا سکتا ہے نہ سیاسی ڈھانچہ آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آئین اِن کاموں کے آگے دیوار کی طرح کھڑا ہے، فولاد سے بنی دیوار۔ یہ محض باتیں، اندازے اور خواہشیں ہیں‘ ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا احساس ہے کہ محترم وزیراعظم کا ''چینی ماڈل‘‘ والا بیان ٹریلر تھا، ابھی بہت کچھ آنا باقی ہے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آئیں گے‘ بیانات میں تیزی آتی جائے گی۔ اور سے اور بہانے اور تاویلیں بیان کی جائیں گی۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جائیں گی کہ اگر ایک ٹرم اور مل جائے تو ہم یہ کر دیں گے‘ ہم وہ کردیں گے، اب ہم سیکھ چکے ہیں‘ ہمیں ایک موقع اور دیں۔ اس بار کرپٹ عناصر کا قلع قمع کیا ہے‘ اگلی باری عوام کو ریلیف دیں گے، مہنگائی کم کریں گے، پولیس، پٹوار، ہسپتال اور سکول ٹھیک کر دیں گے۔ اس بار کوئی آٹا، چینی اور گندم کا سکینڈل نہیں آئے گا، اب ہم نے سیکھ لیا ہے کہ کیسے پیٹرول، بجلی اور گیس کو سستا کیا جاتا ہے۔ اب ہم سٹرکیں بھی بنائیں اور شہر بھی صاف کریں گے، وغیرہ وغیرہ۔عوام ذہنی طور پر تیار رہیں‘ یہ دن آنے والے ہیں‘ اب دلّی اب زیادہ دور نہیں ہے۔
حکومت کو کون بتائے کہ ملک شخصیات اور پارٹیوں کے لمبے عرصے تک عہدوں پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے ترقی نہیں کرتے بلکہ اداروں کی مضبوطی اور سیاسی استحکام کے باعث کرتے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ادارے مضبوط ہیں؟ کیا پارلیمنٹ کی بالادستی اور آزادی قائم ہے؟ کیا سب محکمے اور ادارے قانون کے تابع ہیں؟ کیا انصاف سب کو یکساں میسر ہے؟ کیا سیاست دان آج بھی سیاست کو عباد ت سمجھتے ہیں؟ کیا کرپشن کا لنڈا بازار بند ہو گیا ہے؟ اگر ملکوں کی ترقی کا دارو مدار مخصوص شخصیات کے دس بیس سال اقتدار میں رہنے پر ہوتا ہے تو جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف تیس سال سے زائد مسندِ اقتدار پر بیٹھے رہے، کیا کیا؟ عوام کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکے؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور فیصلہ کریں کہ جب یہ تینوں حضرات رخصت ہوئے تو کیا ملک میں استحکام تھا، خوشحالی تھی اور سب سے بڑھ کر عوام کا اعتماد؟ چلیں! کچھ دیر کے لیے پاکستان کے حالات کو ایک طرف رکھتے ہیں اور لمبی جست لگا کر عراق، مصر، شام اور لیبیاکے حکمرانوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ صدام حسین، حسنی مبارک، کرنل قذافی، حافظ الاسد اور بشارالاسد‘ تیس تیس‘ چالیس چالیس سال تک حکمران رہے، کیا کِیا سوائے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے جائیدادیں بنانے اور عوام کا استحصال کرنے کے؟ امریکا، برطانیہ اور بھارت جیسے جمہوری ممالک میں چار پانچ سال کے لیے ہی حکمران آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر اپنی قابلیت، صلاحیت اور دور اندیشی سے ایسے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دے جاتے ہیں کہ صدیوں بعد بھی بھلائے نہیں بھولتے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر Clement Richard Attleبرطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ یہ شخص پندرہ بیس سال نہیں بلکہ صرف پانچ سال وزیراعظم رہا اور مختصر عرصے میں اتنے زیادہ فلاحی اور سیاسی کام کیے کہ برطانوی تاریخ کے کامیاب ترین وزیراعظم کا خطاب پایا۔ برطانیہ میں اُس وقت نفرت، غربت اور بیماریوں کا راج تھا جبکہ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ Richard Attle نے جنگ زدہ برطانیہ کو سوشل اور ویلفیئر سوسائٹی کے طور میں متعارف کروایا۔ ماڈرن یو کے کی بنیاد رکھی، سوشل سکیورٹی پروگرام کا آغاز کیا، انشورنس سسٹم اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ جنگی اخراجات کو کم کیا اور مقبوضہ علاقوں کو آزادی دی۔ پاکستان اور انڈیا بھی اس کے دور میں آزاد ہوئے۔ Clement Richard Attle رخصت ہوا تو برطانیہ ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا۔ برطانوی شہری آج بھی اس کے ممنونِ احسان ہیں۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن سے کون واقف نہیں؟ صدارت کا عہدہ سنبھالا تو امریکا میں سول وار کا ماحول تھا۔ کالے اور گورے کے درمیان معاشرتی تفریق اتنی بڑھ چکی تھی کہ امریکا ٹوٹنے کے قریب تھا۔ ابراہم لنکن نے امریکا میں غلامی کا خاتمہ کیا اور باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کر لیا۔ ابراہم لنکن نے امریکی معاشرے کو جاگیر داروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے چُنگل سے آزاد کروایا، معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات کیں۔ لنکن لگ بھگ چار سال صدر رہا مگر اس کے کارنامے آج بھی امریکا کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ یہی نہیں‘ جے ایف کینیڈی کے قتل کے بعد Lyndon B. Johnson نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو امریکی معیشت تنزلی کا شکار تھی اور پورا معاشرہ فسادات کی لپیٹ میں تھا۔ جانسن نے سول رائٹس کے لیے بہت تگ و دو کی، فوری طور پر گریٹ سوسائٹی کے نام سے پروگرام کا انعقاد کیا جس کے بعد ٹیکسز میں کمی کی گئی، تعلیم، صحت، لیبر، صنعت، ماحولیات، جرائم کی روک تھام، ووٹ کا یکساں حق اور انصاف پر خصوصی توجہ دی۔ Lyndon B. Johnson تقریباً سات سال تک امریکا کا صدر رہا اور اس نے امریکا کو مکمل بدل کر رکھ دیا۔
سیاستدانوں کا کردار ہی ہوتا ہے جو انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں دھکیلتا یا ہمیشہ کے لیے امر کر دیتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا ہو گا اگر 2023ء کا الیکشن جیتنا ہے تو عوام کو مطمئن کرنا ضروری ہے، لاروں دلاسوں سے نہیں‘ خدمت سے، جھوٹ سے نہیں سچ سے، وعدوں سے نہیں عمل سے۔ نواز شریف ماضی کا حصہ ہوئے، اب آپ کی باری ہے۔ عوام آپ کی طرف التجائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں بہانے نہیں کام چاہیے، تاویلیں نہیں ترقی اور خوشحالی چاہیے۔ عذر نہیں مہنگائی کا خاتمہ چاہیے۔ خدارا! اپنی حکمرانی کی لاج رکھیں۔ جلال الدین اکبر نے کہا تھا ''حکمران آخری سانس تک ہار نہیں مانتے‘‘ آپ کیوں ڈھائی سالوں میں ہی تھک گئے؟ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں