یوٹرن یا رائٹ ٹرن؟

عجب ماحول ہے، چار سُو ناامیدی کی فصل بوئی اور کاٹی جا رہی ہے۔ کوئی بھی پورا سچ بولنے کو تیار نہیں۔ جس سے بھی بات کریں وہ آدھی بات کرتا ہے اور آدھی کہانی اشاروں سے سمجھاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سارا سماج ہی ڈرا اور سہما ہوا ہے۔
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
یہ معاشرے کا ایک رُخ ہے جبکہ دوسرا پہلو اس سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں ہر طر ف خوف کے سائے گہرے ہوئے ہیں وہیں ہرشخص فیصلے دیتا بھی نظر آتا ہے۔ کوئی نئی خبر مارکیٹ میں آ جائے تو ہم اس کی انتہا تک خود ہی پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں کہ اصل خبر کہیں شور شرابے میں ہی دب جاتی ہے۔ ہم اندازے لگاتے ہیں، اپنا سینہ چیر کر افواہوں کو جگہ دیتے ہیں اور عوام کے سامنے ملزم کو مجرم بنا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ کوئی حکومتی سکینڈل آ جائے‘ ہم خود ہی چور اور ڈاکوکا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ کسی انکوائری کی ضرورت نہ جے آئی ٹی کی۔ نیب کا ریفرنس درکار نہ کسی کمیشن کی فائنڈنگ۔ پولیس چالان کا انتظار نہ فردِ جرم عائد ہونے کا جھنجھٹ۔ ہم خود ہی مدعی بن جاتے ہیں، خود ہی وکیل اور خود ہی منصف۔ خود ہی گواہ اور خود ہی ثبوت۔ ہم بطور معاشرہ ہی Judgmental ہو چکے ہیں۔ فیصلے سے پہلے فیصلہ صادر کرنے والے۔ جھوٹ کا پردہ اٹھنے سے پہلے جھوٹا ثابت کرنے والے۔ ہم میں سے ہر کوئی مفتی بھی ہے اور قاضی بھی۔ منصف بھی اور سرپنچ بھی۔ کیا کریں‘ سوشل میڈیا نے ہمیں ایسا ہی بنا دیا ہے۔ جو جی میں آتا ہے‘ بول دیتے ہیں، جو من کرتا ہے‘ لکھ دیتے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں‘ کوئی ٹوکنے والا نہیں۔
ہر سچ کے تین رنگ ہوتے ہیں۔ ایک میرا سچ، دوسرا میرے مخالف کا سچ جبکہ تیسرا سچ وہ ہوتا ہے جو اصل میں سچ ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے سچ کی مارکیٹنگ کرتے ہیں، کوئی بھی اصل سچ کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ کوئی بھی بات کی تہ میں چھپی سچائی کو جاننے کا طلبگار نہیں ہوتا۔ نجانے کیوں ہم دوسروں کی سچائیوں کو بھی اپنی نظر سے دیکھتے اور اپنی سوچ سے پرکھتے ہیں۔ حقیقت چاہے کوسوں دور کھڑی ہو مگر ہم سچ اور جھوٹ کا تال میل ملا ہی دیتے ہیں۔ ہم اتنے جلد باز کیوں ہیں؟ تھوڑا ٹھہر کر سچائی کا انتظار کرنا ہمارے لیے مشکل کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ عام آدمی ہی نہیں حکمران بھی، اپوزیشن ہی نہیں حکومتی جماعت بھی۔
سینیٹ انتخاب کا بگل بجا تو حکومت کو ''ووٹ چوری‘‘ ہونے کا خیال بے چین کرنے لگا۔ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اپوزیشن نے آؤدیکھا نہ تاؤ‘ پروپیگنڈا کی دکان سجا لی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے خوب شور مچایا کہ وزیراعظم کے دوستوں کو سینیٹ میں لانے کے لیے سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ زلفی بخاری، بابر اعوان، شہزاد اکبر، رزاق داؤد اور شہباز گل کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ یہ وہ سچ تھا جو اپوزیشن کو نظر آ رہا تھا مگر کیا حقیقت یہی تھی؟ سچ کی پٹاری کھلی تو معلو م ہوا کہ مذکورہ بالا شخصیات تو الیکشن ہی نہیں لڑ رہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں پندرہ دن تک اپوزیشن عوام کے سامنے جو کہانی بیان کرتی رہی کیا وہ سچ تھی یا جھوٹ پر مبنی؟ پروپیگنڈا تھی یا حقیقت؟ سوشل میڈیا پر پوری ایک فوج تھی جو اس بیانیے کے دفاع میں سینہ تانے کھڑی تھی‘ اب وہ بھی خاموش ہے اور سارے داستان گو بھی۔
صرف یہی نہیں، حکومتی چھتر چھایہ میں بھی ایک پروپیگنڈا دن رات ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے ''سیاسی طلاق‘‘ لے چکی ہے۔ پھر کیا ہوا؟ پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا، پیپلز پارٹی نے شرکت کی اور لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ اس یکطرفہ سچ کا کیا بنا جو حکومت سینے سے لگائے بیٹھی تھی؟ کرپٹ، کرپٹ، کرپٹ، چور، چور، چور کا شور اپوزیشن کے لیے مچایا جاتا تھا، حکومت جو کہتی تھی سوشل میڈیا بھی وہی دہراتا تھا ا ور عوام بھی۔ مگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں کیا انکشاف ہوا؟ اپوزیشن کی کرپشن کہیں پیچھے رہ گئی اور موجودہ حکومت میں ہونے والی مبینہ ''بدعنوانیوں‘‘ کا چرچا آگے نکل گیا۔ یوں عوام پر سچ کے دونوں رخ عیاں ہو گئے۔ شہباز شریف پر لندن کے صحافی نے الزام لگایا تو حکومت نے ایک سائیڈ کا سچ دکھایا اور دوسری طرف کا سچ چھپا دیا۔ سوشل میڈیا پر جی بھر کر پروپیگنڈا ہوا مگر برطانوی عدالت نے کچھ اور ہی کہانی سنائی۔ ایسے کتنے ہی الزامات ہیں جو ایک طرف کی سچائی کی چبھن برداشت کرتے ہیں اور ہمہ وقت خوار ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایسی ادھوری حقیقتوں کو ایندھن مہیا کرتا ہے جس کے بعد عوام، حکومت اور اپوزیشن‘ سب دل کھول کراپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔
اگر محترم وزیراعظم کی ''یوٹرن پالیسی‘‘ کا ٹھنڈے دل کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو ساری الجھنیں د ور ہو جائیں گی اور تمام گرہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے کوئی یوٹرن نہیں لیا بلکہ ان پر اصل حقائق حکومت میں آنے کے بعد عیاں ہوئے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ ایک طرف کا سچ جانتے تھے اور جب دوسری طرف کی حقیقت ان سے بغل گیر ہوئی تو سارا ماحول ہی بدل گیا۔ اپوزیشن لیڈر کی نظر سے جو دکھائی دیتا تھا وہ اور تھا جبکہ وزیراعظم کی کرسی سے جو نظر آتا ہے وہ اور ہے۔ آپ انہیں یوٹرن کہہ لیں مگر میں انہیں ''رائٹ ٹرن‘‘ کہوں گا۔ اپوزیشن میں تھے تو انہیںلگتا تھا قرضوں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے مگر اقتدار میں آئے تو معلوم ہوا قرضہ لینا کتنی ضرورت ہے اور کتنی عیاشی؟ اپوزیشن میں تھے تو ان کا خیال تھا مہنگائی حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے ہوتی ہے مگر خود حکمران بنے تو پتا چلاکہ اور بھی وجوہات ہیں مہنگائی کی کرپشن کے سوا۔ اپوزیشن میں تھے تو نئے پاکستان کا خواب دکھاتے تھے اور اب کہتے ہیں کہ نیا پاکستان کوئی بٹن نہیں کہ آن آف کرنے سے بن جائے گا، نیا پاکستان بننے میں وقت لگے گا، کم از کم دس‘ بیس سال۔ نوے دن میں کرپشن ختم کرنے سے لے کر ایمنسٹی سکیم، پروٹوکول، فیوڈلز، ق لیگ، ایم کیو ایم، گورنر ہاؤسز، وزیراعظم ہاؤس، ہارس ٹریڈنگ تک‘ فرق صرف معلوما ت کا رہا ہے۔ پہلے وہ آدھی کہانی سن کر بات کرتے تھے اب انہیں پوری کہانی کا علم ہو گیا ہے۔
وزیراعظم صاحب کو تو سچ کا ادراک ہو گیا مگر اب ستم یہ ہے کہ عوام نے کچھ اور ہی ذہن بنا لیا ہے۔ ابھی حکومت کی آدھی ٹرم پوری نہیں ہوئی اور ''فیصلہ سازوں‘‘ نے فیصلہ سنا بھی دیا۔ ہرطرف واویلا ہو رہا ہے کہ حکومت ''ناکام‘‘ ہو چکی۔ مہنگائی کو روکنا اور بہتر گورننس اس کے بس کی بات نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ناکامی اور کامیابی کا لیبل ہم پانچ سال سے پہلے کیسے لگا سکتے ہیں؟ ہم یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ اگلے ڈھائی سالوں میں ناممکن کو ممکن نہیں کیا جا سکتا؟ اندھیرے کو روشنی میں نہیں بدلا جاسکتا اور سوکھی شاخوں پر پھول نہیں کھل سکتے۔ آپ سوشل میڈیا دیکھ لیں‘ خال خال ہی لوگ ملیں گے جو حکومت کو مزید وقت دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ زیادہ تر اپنا ذہن بنا چکے‘ فیصلے سے پہلے فیصلہ دے چکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان Judgmental کب ہوتا ہے اور کیوں؟ ماہریں کہتے ہیں کہ خوف، انا، لاعلمی، نفرت اور شخصی کمزوریاں انسان کو اندھیری گلی میں دھکیلتی ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ایک ایک کر کے ہم سب اس کنویں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے قدم روکنا ہوں گے۔ ذرا تھم کر خود اپنا تجزیہ کرنا ہو گا۔ سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا آگے کوئی کھائی تو نہیں؟ اگر کھائی نظر آئے تو خدارا یوٹرن لے لیں۔ یہ یوٹرن ہی رائٹ ٹرن ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں