اناؤں کا کھیل

تاریک دن کو خورشید کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ستاروں کی۔ وطن عزیز میں جتنا اندھیرا چھا چکا‘ کوئی ایک شخص، کوئی ایک ادارہ‘ دیے سے دیا جلا کر بھی پورے سماج کی تاریکی کو ختم نہیں کر سکتا۔ ہر سرکاری دفتر میں کرپشن کے انبار لگے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر اشرافیہ تک، ریڑھی بان سے لے کر تاجر تک‘ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ کوئی کم تولتا ہے اورکوئی ملاوٹ کرتا ہے۔ کوئی جھوٹ کا کاروبار کرتا ہے تو کوئی دونمبری سے زندگی جیتا ہے۔ وزیراعظم جہاں جہاں بند باندھیں گے مخالفت ہو گی مگر ایسی مخالفت سے کیا گھبرانا۔ قدرت کا قانون ہے کہ جب آگ پر پانی گرے تو دھواں اٹھتا ہے مگر یہ دھواں بھی زیادہ دیر پانی کا سامنا نہیں کر سکتا۔ حافظ شیرازی کے ایک شعر نے سارے عقدے کھول دیے۔
آدمی در عالمِ خاکی نمی آید بہ دست
عالمی دیگر بباید ساخت، وزنو آدمی
(اس دنیائے خاکی میں کوئی (حقیقی) انسان دستیاب نہیں ہوتا۔لازم ہے کہ اب کوئی دوسرا جہاں بنایا جائے اور کوئی تازہ انسان دوبارہ پیدا کیا جائے )
گزرے چند ہفتے حکومت کے لیے اچھے نہیں رہے۔ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی، ڈسکہ الیکشن کالعدم ہو گیا، حمزہ شہباز کوضمانت پر رہائی مل گئی، اوپن بیلٹ کا خواب پورا نہ ہو سکا اور سب سے بڑھ کر حکمران جماعت کے سولہ ایم این ایز ''بک‘‘ گئے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ محترم وزیراعظم نے خود ''بکنے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ صرف سولہ ایم این ایز نہیں بلکہ سندھ اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے دس ممبرز ہیرا پھیری کر گئے۔ اکیلے حفیظ شیخ نہیں ہارے بلکہ جی ڈی اے کے امیدوار‘ پیر صدر الدین شاہ راشدی بھی سندھ سے سینیٹر نہ بن سکے۔ اس ''دھاندلی‘‘ کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا۔ انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ میں بکنے والوں کو بچا کر ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر گراں نہ گزرے تو اتنا پوچھنا چاہوں گا کہ الیکشن کمیشن کا قصور کیا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ کوئی مناسب اقدام کر سکتا ؟ الیکشن کمیشن کے پاس تو ایک دن تھا مگر حکومت کے پاس تو ڈھا ئی سال تھے‘ وہ اوپن بیلٹ کے لیے پہلے ہی آئینی ترمیم کیوں نہ کر سکی؟
حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پھل دار درخت زیادہ جھکا ہوا ہوتا ہے۔ تصادم کی راہ پر چلنے والے کبھی منزل کو نہیں پا سکتے۔ اب فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی کو ترجیح دینی ہے یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کی مشعلیں روشن کرنی ہیں۔ سیاسی مخالفین پر دھاوا بولنا ہے یا سیاسی مفاہمت کا رواج عام کرنا ہے؟ انتشار کا موجب بننا ہے یا امن وامان کی فضا قائم کرنا ہے؟ حفیظ شیخ ہار گئے‘ تو کیا ہوا؟ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ ضروری یہ ہے کہ سیاست کا کاروبار چلتارہے۔ محترم وزیراعظم کے گرد اَن گنت لوگ ایسے ہیں جو شعلہ بیانی کے ماہر ہیں۔ وہ سیاسی درجہ حرارت کبھی کم نہیں ہونے دیتے اور ہمیشہ مخالفین کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کوچاہیے کہ احتیاط سے کام لیں‘ انہیں ہلّہ شیری دینے والے بہت ہوں گے مگر انہیں جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے۔ سیاست کا نہیں ملک کا سوچنا ہے۔ حکومت کا نہیں‘ عوام کا درد سمجھنا ہے۔ اداروں سے تصادم کسی طور وارے کا سودا نہیں ہے۔ چھوٹی سی غلطی نہ صرف حکومت بلکہ پی ٹی آئی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
سینیٹ الیکشن ہو چکا۔ قومی اور سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کوکم ووٹ ملے۔ ارکان بک گئے یا انہوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر احتجاج کیا‘ اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن کر سکتا ہے یا حکومت خود۔ میری نظر میں کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ ہر بار سینیٹ الیکشن میں ایسے ہی سودے بازی ہوتی ہے۔ ہلکا پھلکا شور مچتا ہے اور پھر وقت کی گرد میں سب کچھ گُم ہو جاتا ہے۔ کوئی انکوائری ہوتی ہے نہ ووٹ بیچنے والوں کے نام سامنے آتے ہیں۔ یہ شاید اس لیے ہوتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق سینیٹ الیکشن میں پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینا قابلِ سزا جرم نہیں ہے۔ آئین اپنی مرضی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف سے غلطی کہاں اور کیوں ہوئی؟ میرے نزدیک اس کی ساری ذمہ داری ان شخصیات پر عائد ہوتی ہے جو دوسری پارٹیوں کے سیاستدان توڑ کر تحریک انصاف میں لائے۔ آپ لمحہ بھر ٹھہر کر سوچیں! جو ارکان (ن) لیگ کو دغا دے سکتے ہیں وہ اپنے مفادات کے لیے تحریک انصاف کو دھوکا کیوں نہیں دے سکتے؟ جو ایم این ایز پیپلز پارٹی کے سگے نہ ہوئے وہ تحریک انصاف کے ساتھ وفا کیسے کر سکتے ہیں؟ جو ممبرزچودھری صاحبان کی محبت کی لاج نہیں رکھ سکے‘ وہ تحریک انصاف کو عزیز کیوں رکھیں گے؟ یہ سب طاقت کے حریص لوگ ہیں اور مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے کسی کو بھی کسی بھی وقت قربان کر سکتے ہیں۔ ان کو کسی کی دید ہوتی ہے نہ لحاظ۔ یہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کے سارے ایسے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ یہ بے وفاؤں کا ٹولہ ہے۔ یہ ڈھلتے چاند پر تھوکتے ہیں اور چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اچھے وقتوں کے ساتھی ہیں اور برے وقتوں کے دشمن۔ حکومت بنانے کے لیے ساری سیاسی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں مگر یہ کبھی کسی ایک جماعت کے ہوکر نہیں رہتے۔ یہ وقت آنے پر دھوکا ضرور دیتے ہیں۔ یہ کبھی پرویز مشرف کے ساتھ ہوتے ہیں تو کبھی آصف زرداری کا بازو بنتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی عمران خان کی مدح سرائی۔ یہ ایسے ہی ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو چاہیے کہ اب ان پر وقت ضائع مت کریں، آگے بڑھیں، بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ مہنگائی کا موسم ہے اور عوام ریلیف مانگتے ہیں۔ عام آدمی کو کوئی سروکار نہیں کہ حفیظ شیخ جیتے یا ہار ے‘ انہیں غرض ہے تو دو وقت کی روٹی سے، انہیں تکلیف ہے تو بجلی اور گیس کے بلوں سے۔
سینیٹ الیکشن میں جو ہوا سو ہوا۔ ملک اورقوم کے لیے صبر وتحمل سے کام لیں۔ اسی میں سب کا فائدہ ہے۔ آپ قومی اسمبلی جائیں‘ اعتماد کا ووٹ لیں اور اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ ایک نہیں‘ دو نہیں‘ درجنوں اصلاحات حکومت اور اپوزیشن کی منتظر ہیں۔ کس نے کس کو خریدا ؟ یہ کھوج لگانا الیکشن کمیشن کا کام ہے حکومت کا نہیں۔ ہاں ایک کام جو حکومت کرسکتی ہے‘ وہ الیکشن ریفارمز ہیں۔ اگلا الیکشن کیسے شفاف ہو سکتا ہے؟ ووٹ کے سوداگروں کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کو بااختیار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہ کام پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ حکومت کی نصف سے زائد مدت گزر چکی۔ خدارا! پہلے ان ڈھائی سالوں کا تجزیہ کریں۔ جاننے کی کوشش کریں کیا اچھا کیا اور کیا برا؟ اور اس برے کو آگے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ وقت چیونٹی نہیں چیتے کی چال چلنے والا ہے۔ اب حکومت کو بھی اپنی چال بدلنا ہو گی۔ پارلیمنٹ میں غیر ضروری لڑائیوں سے صرف اور صرف حکومت کا نقصان ہوتا ہے۔ جودکھ پیپلز پارٹی نے آج حکومت کو دیا ہے وہی غم پی ٹی آئی 2019ء میں مسلم لیگ (ن) کو دے چکی جب حاصل برنجو (مرحوم) کی جیت کو ہار میں بدلا گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے حفیظ شیخ کو جیتتے جیتتے ہرا دیا۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟ پاکستان کی بہتری اسی میں ہے کہ اسے اَنا کا مسئلہ بنائے بغیر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ الیکشن میں چور بازاری ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔
سینیٹ میں ہار سے حکومت کی نفسیاتی شکست ہوئی ہے اور پی ڈی ایم کی نفسیاتی جیت۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اس جیت کو ہضم کر پائے گی ؟ یہ جیت پی ڈی ایم کا امتحان ہے اور ہار حکومت کا۔ جو سیاسی طور پر زیادہ میچور ہو گا وہی اس امتحان کو پاس کرے گا۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں