حکومت کے کارنامے

ہمارے وہ ''کارنامے‘‘ جنہیں ہم حال کے پُراسرار گوشوں میں چھپا دیتے ہیں‘ مستقبل انہیں اٹھا کر مزید نمایاں کر دیتا ہے۔ ہر وہ عمل جس کا ارتکاب رات کے اندھیرے میں کیا جاتا ہے‘ دن کا اجالا اسے ہرصورت عیاں کرتا ہے اور پوشیدہ راز جلد ہی ہر کسی کے ہونٹوں پر آشکار ہونے لگتے ہیں۔ یہی قانونِ قدرت ہے اوریہی انسان کاعزمِ مصمم۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں سب واضح ہو جائے گا۔ کوئی بھید ہمیشہ کے لیے مخفی نہیں رکھا جا سکتا۔ بے پناہ حبس کے بعد بارش ضرور برستی ہے۔ شب کی سیاہی کا زور سحر ہونے پر ٹوٹ جاتا ہے۔ مرجھاتی بیل کو شبنم کے قطرے بھی زندگی بخش دیتے ہیں۔ مایوسی اور شکستہ دلی کی کوئی بات نہیں۔ اندھیرا چھٹنے والا ہے۔ صبحِ تازہ کی امید ہی زندگی ہے۔
شدتِ غم کو تبسم سے چھپانے والے
دل کا ہر راز نگاہوں سے عیاں ہوتا ہے
آپ کو حق حاصل ہے، آپ الیکشن کی شفافیت پر لگے داغ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ حکومت کی ہر پالیسی پر تنقید کر سکتے ہیں۔ صبح و شام معیشت اور گورننس کا پوسٹ مارٹم کر سکتے ہیں۔ ناامیدی کے چراغوں کو ہوا کے سپرد کر سکتے ہیں مگر میں... میں تو خوش گمانی اور رجائیت پسندی کا پیکر ہوں۔ امید پروری میری عادت ہے۔ میں برے سے برے کام میں بھی خیر کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ حکومت پر سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا نا چاہیں تو لگا دیں مگر اتنا خیال رہے کہ کیاکبھی چاند پر تھوکنے سے چاند کا کچھ بگڑا ہے؟ میری نظر سے دیکھیں تو تحریک انصاف نے ہمیشہ سیاست کے کھڑے پانی میں پتھر مار کر ہلچل پیدا کی ہے۔ گزرے ڈھائی سالوں میں بھی جو 'کام‘ کیے وہ لاجواب کیے۔ ان کا گلی گلی‘ نگر نگر‘ قریہ قریہ چرچا ہوا۔ آپ یقین کریں نہ کریں مگر موجودہ حکومت کے زیر سایہ سیاست اب فیسٹیول کا روپ دھار گئی ہے۔ سینیٹ کا الیکشن ہو یا ضمنی انتخابات، اوپن بیلٹ کا مسئلہ ہو یا بلدیاتی اداروں کا قیام، گلگت‘ بلتستان کا معرکہ ہو یا کراچی میں بارشوں کی تباہ کاریاں‘ قانون سازی کے لیے ڈرافٹ تیار کرنا ہو یا میاں نواز شریف کو باہر بھیجنا مقصود ہو‘ یہ حکومت ہمیشہ 'کمال‘ کرتی ہے۔ ہر مسئلے کو اتنے 'احسن‘ انداز میں حل کرتی ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا۔ حکومت کے چند کارناموں کی فہرست بنا لی جائے تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔
(1) گزشتہ دو دہائیوں میں چھ بار سینیٹ کے الیکشن ہوئے مگر عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کب الیکشن آئے اور کب چلے گئے کسی کو کانوں کان خبرتک نہ ہوئی۔ موجودہ صدی کی تیسری دہائی شروع ہوتے ہی ایک بار پھر سینیٹ الیکشن کا بغل بجا تو یوں لگا جیسے خوشی کے ''شادیانے‘‘ بجنے لگے ہوں۔ سیاستدان تو سیاستدان‘ عام لوگ بھی اس الیکشن کے ثمرات سے فیضیاب ہوئے۔ ہر طرف معلومات کے در کھل گئے اور لاعلمی کے باب بند ہوگئے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایزکی کیسے بولیاں لگتی ہیں‘ سینیٹرز کیسے ضمیر کا سودا کرتے ہیں، یہ حکومت کی بدولت ہی معلوم ہو سکا ورنہ اس سے پہلے تو اس طرف الیکشن کمیشن کا دھیان تھا نہ پارلیمنٹ کا۔ اس دورِ حکومت میں عوام کو پتا چلا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اقلیت کیسے اکثریت کو ناکو ں چنے چبواتی ہے۔ وہ بھی ایک نہیں تین بار۔ کیا یہ کام پہلے کبھی ہوا؟ کیا آج سے پہلے کسی کو یہ منتر آتا تھا کہ کیسے 47 ووٹوں سے 51 ووٹوں والے امیدوار کو ہرایا جاتا ہے؟ کیا اس حکومت سے پہلے کبھی 64 ووٹوں والا امیدوار 36 ووٹوں والے امیدوار سے چِت ہوا؟ آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ سیاسی تمغے پہلے کسی حکومت کے حصے میں آئے؟ یہی نہیں‘ اوپن ووٹنگ اور خفیہ رائے شماری کی بحث سے بھی عوام نے بہت کچھ سیکھا۔ عوام پر آشکار ہوا کہ آئین میں واضح درج کسی بات کو بھی متنازع بنایا جا سکتا ہے۔ دو تہائی اکثریت نہ بھی ہو تو آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے اور اگر پھر بھی گزارہ نہ ہو تو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے من مانی کی جا سکتی ہے۔ میرا یقینِ کامل ہے کہ اگر آپ چراغ لے کر نکلیں تو بھی آپ کو ایسے ذہن رسا پورے خطے میں نہیں ملیں گے۔
(2) ڈسکہ الیکشن کو کون بھول سکتا ہے؟ پنجاب حکومت نے جس طرح الیکشن کمیشن کی 'معاونت‘ کی‘ کیا ایسی مثال ماضی کی حکومتوں سے ڈھونڈی جا سکتی ہے؟ الیکشن کمیشن کا عملہ 'دھند‘ میں گم ہوگیا تو کون ساری رات ان کی رہنمائی کرتا رہا؟ کون انہیں صبح صحیح سلامت الیکشن کمیشن کے آفس تک لایا؟ اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو اتنی شدید دھند میں الیکشن کمیشن کے عملے کی حفاظت کرتی؟ اس خدمت کا حکومت کو یہ صلہ ملا کہ ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا گیا، کیا اس سے پہلے کسی صوبائی حکومت کو کسی ضمنی الیکشن پر ایسا اعزاز ملا ہے؟ میرے نزدیک تاریخ کے طالب علم اس الیکشن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
(3) حکومت نے عوام کو بتایا کہ بلدیاتی الیکشن اتنے بھی اہم نہیں ہوتے۔ اپوزیشن کے شور شرابے کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ عام لوگوں کو آم کھانے سے مطلب ہوناچاہیے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ حکومت ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے بھی ترقیاتی کام کروا سکتی ہے، بلدیاتی اداروں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ (ن) اور پرویز مشرف حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن کروا کر عوام کا وقت ضائع کیا تھا۔ بھلا اپوزیشن کو کون سمجھائے ترقیاتی فنڈز ایم این ایز لگائیں یا بلدیاتی نمائندے‘ کیا فرق پڑتا ہے؟
(4) لاہور کے کوڑا کرکٹ کو لے لیں۔ حکومت نے گھروں کو صاف رکھنے کی جو مہم شروع کی تھی اس کا نتیجہ اب برآمد ہو رہا ہے۔ لوگوں نے گھروں سے کچرا نکال کر سڑکوں پر رکھ دیا ہے۔ حکومت اب اس گند کو اس لیے سڑکوں سے نہیں اٹھا رہی تاکہ باقی شہروں کے باسی بھی دیکھ لیں کہ گھروں کی صفائی ستھرائی کیسے کی جاتی ہے۔ کچرے کی بھی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے جو صرف اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
(5) حکومت نے کراچی کے عوام کو کیسے مطمئن کیا تھا کیا کوئی اس معرکے کو بھول سکتا ہے؟ عوام پر عیاں ہوا کہ 1100 ارب روپے کے پیکیج کا محض اعلان بھی کراچی جیسے شہر کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کون گندے نالے صاف کرے، کون K4 منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے، کون بارشوں میں پانی کی نکاسی کو ممکن بنائے اور کون میٹرو بس چلائے۔ خالی اعلانات سے بھی عوام کا دکھ درد دور کیا جاسکتا ہے۔
(6) پنجاب کے عوام جان گئے کہ سٹرکیں ہمیشہ ضروری نہیں ہوتیں‘ اگر نئی سڑکیں نہ بھی بنائی جائیں تو بھی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ موٹروے اور جی ٹی روڑ پر کھڈے پڑ سکتے ہیں تو عام رابطہ سٹرکیں کس کھیت کی مولی ہیں۔ پیسے بچانا اہم ہوتا ہے نہ کہ سٹرکوں کی مرمت کرنا۔ عوام کا کیا ہے‘ وہ تو کچے رستوں پر بھی سفر کر لیتے ہیں۔
(7) میرا احساس ہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ مریم نواز کو لیڈر بنانے کا موقع دینا ہے۔ اگر حکومت شہباز شریف کو گرفتار نہ کرتی تو کیا آج مسلم لیگ (ن) کو اتنی توانا آواز دستیاب ہو سکتی تھی؟ ایسی حکومت کہاں سے ملے گی جو عوام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھلائی کا کام بھی کرتی ہو۔ یہ حکومت خود بھی اس عہد کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ہمیں اس کی عزت کرنی چاہے۔ نجانے اس خوشی کے لمحے میں چراغ حسن حسرت کہاں سے یاد آ گئے۔
جوانی مٹ گئی لیکن خلش دردِ محبت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں